پانچویں جنریشن وار

ہم پاکستانی اس وقت چاروں طرف سے مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں ایک طرف بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم اور مہنگائی کا طوفان برپا ہے تو دوسری طرف ہم سیاسی عدم استحکام اور معاشی دہشت گردی کا شکار بنے ہوئے ہیں زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت جیسی مشکلات درپیش ہیں ہماری نفسیات سے کھیلنے والوں نے ہمیں پانچویں جنریشن وار میں بھی دھکیل رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری آبادی میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ بھی ہے آبادی کا ذکرآیاہے تو اسی حوالہ سے ایک تازہ ترین سروے بھی ملاحظہ فرمالیں اس وقت پاکستان کی 64 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے پاکستان کی سالانہ آبادی 2 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے پاکستان کا مجموعی فرٹیلیٹی ریٹ 3.7 ہے جو شہروں میں 3.6 اور دیہی علاقوں میں 4.1 فیصد ہے ہر سال ایک ہزار میں سے تقریبا 7 افراد موت کا شکار ہوتے ہیں ہماری ایک ہزار آبادی میں سالانہ 27 پیدائش ہوتی ہیں ہر سال ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 56 موت کا شکار ہوجاتے ہیں پاکستان میں اوسط عمر 65 سال ہے مردوں کے مقابلہ میں خواتین کی اوسط عمر 65 سال 5 ماہ ہے اورمردوں کی اوسط عمر 64 سال 3 ماہ ہے 2020 کے دوران سب سے زیادہ اموات دل کی بیماریوں سے ہوئیں جو 14.74 فیصد تھیں سال 2020 میں بخار سے 9.28 فیصد اموات ہوئی فالج، اسٹروک کے باعث 6.45 فیصد اموات ہوئیں ذیابیطس کے باعث 6.53 فیصد اموات ہوئیں 2020 میں کورونا سے 1.01 فیصد اموات ہوئیں ڈینگی سے 0.22 فیصد اموات ہوئیں قتل سے ہونے والی اموات کی شرح 0.55 فی صد تھی جبکہ خودکشی کے باعث 0.25 فیصد اور ٹریفک حادثات کے باعث اموات کی شرح 1.13 فیصدتھی یہ تو تھی آبادی کی موجودہ صورتحال اب کچھ ذکر اس پانچویں جنریشن وار کا جو سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے زریعے لڑی جارہی ہے خاص کر سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جو کسی کے قابو میں نہیں اسی کے زریعے ہماری ذہن سازی کی جارہی ہے اصل میں پانچویں جنریشن وار ہے کیا؟ پانچویں جنریشن وارفیئر (5GW) وہ جنگ ہے جو بنیادی طور پر غیر متحرک فوجی کارروائی کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے کہ سوشل انجینئرنگ ،غلط معلومات، سائبر حملے، مصنوعی ذہانت اور مکمل خود مختار نظام جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ ساتھ ''معلومات اور ادراک'' کی جنگ قرار دیا ہے حالانکہ پانچویں نسل کی اس جنگ کی تعریف پر وسیع پیمانے پر اتفاق نہیں ہے 'ففتھ جنریشن وارفیئر' کی اصطلاح پہلی بار 2003 میں رابرٹ اسٹیل نے استعمال کی تھی اگرچہ پانچویں نسل کی جنگ ''انتہائی بااختیار افراد'' لڑ رہے ہیں اقتدار اور اختیار کا یہ کھیل کبھی ختم ہوگا نہ پہلے کبھی ہوا تھا صرف انداز بدل گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس میں شامل لوگ ضروری نہیں کہ فوجی طاقت ہی استعمال کریں اس ہتھیار کو فوج کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اس لیے ہمیں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اس ٹیکنالوجی کی ملکی سطح تک پذیرائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے اس کو کنٹرول کرنے کے لیے ایف آئی بھی اپنا کام کررہی ہے اب آتے ہیں ملک کی اصل صورتحال کی طرف جس نے ہم سب کو پریشان کررکھا ہے کیونکہ ایک طرف ملک پر عائد قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف برآمدات اور ترسیلات میں بھی کمی آ رہی ہے ملک پر عائد قرضوں کا ساٹھ کھرب روپے یا 280 ارب ڈالر تک پہنچنا تشویشناک ہے قرضوں اور واجبات میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے سماجی شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے عوام میں غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر عوام کے جسموں سے خون کا ہر قطرہ نچوڑرہی ہے وسائل پر دوفیصد اشرافیہ قابض، عام شخص کاذریعہ آمدن ختم ، حکمرانوں کے اثاثوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، ٹیکسز کی بھرمار، اشیائے خوردونوش،پٹرول، گیس اور بجلی کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کی نیندیں اڑا دیں، ملک کا ہر پانچواں شخص ڈپریشن کا شکار ہے سیلاب سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے مگر حکمران لٹے پٹے اور بے سہارا لوگوں کے حالات سے بے خبر مفادات کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں انہیں کوئی خبر نہیں کہ معیشت تباہ، کرپشن اور سودی نظام نے ہر ادارہ برباد کر دیا بجلی کے بل دیکھ کر سفید پوش آدمی کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوں کی شکل میں 22کروڑ عوام کو تاوان بھیجا جاتا ہے ہم اس معاشی دہشت گردی کا شکار تو ہیں ہی ساتھ سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہیں طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ قوانین اور فیصلوں نے سیاست، سماج اور نظام انصاف کو شدید دھچکا لگارکھاہے جس سے معاشرے میں نفرت اور تفریق پیدا ہو چکی ہے 75 سال سے ہم نے دھاندلی، طاقت ور کو تقویت اور کمزور کو ناانصافی کے ذریعے روند ڈالا ہے جس سے انتقام اور نفرت پیدا ہوئی ہے ادارے رشوت، اقتدار کی رسہ کشی اور طاقت کے حصول میں مبتلا ہیں جب تک انصاف کا شفاف نظام نہیں آتا یہ سیاسی اور سماجی فساد ختم نہیں ہو گا اب ضروری ہوچکا ہے کہ پارلیمنٹ ، عدلیہ، فوج، اور دیگر ادارے مل کر ایک جامع بورڈ تشکیل دیں جہاں شراکت اقتدار اور عوام کے تمام طبقات شامل ہوں جسکی بدولت احتساب بھی ہوگا، انصاف اور اختیار بھی ممکن ہو سکے گا معیشت اور ملک مضبوط ہو گا جسکے بعد ہی ہمارا سیاسی نظام یونین کونسل سے لے کر مرکز تک ایک مربوط سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کا سفر طے کرسکے گا جس سے معاشرہ میں حقیقی جمہوریت اور انصاف آئے گا اور عوام بااختیار ہوں گے جس سے طاقتور اور کمزور کی تفریق ختم ہو گی اہل افراد آگے آئیں گے یہی ہمارے مسائل کا حل ہے اور اسی سے استحکام آئے گا آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستان کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہم زراعت کے شعبہ میں بہت پیچھے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ کسان فصلوں کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے نئے طریقے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر دیسی طریقوں اور ٹوٹکوں سے فصلوں کی پیدوار میں اضافہ ہونے کی بجائے کسان اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے چوہدری پرویز الہی جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی ہیں وہ جس خوبصورت انداز سے صوبہ کو چلارہے ہیں انہیں زراعت کے شعبہ کی طرف بھی اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ ہماس میں بھی خود مختار بن سکیں ۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611966 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.