پارلیمانی بورڈ اورمرکزی انتخابی کمیٹی سے نتن گڈکری اور
شیوراج سنگھ کو باہر کا دروازہ دکھا کر مودی جی نے متوقع حریفوں کے پر کتر
دئیے یعنی کانٹا نکال دیا ۔ اس فیصلے کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیے بی
جے پی کی تاریخ پر نظر ڈال لینا کافی ہے۔ سنگھ کے نکتۂ نظر سے یہ ایک تلخ
حقیقت ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے باوجود یہ فسطائی جماعت مرکز میں اپنا
اقتدار مستحکم نہیں کر سکی بلکہ اترپردیش سمیت دیگر صوبائی حکومتیں بھی
گنوا بیٹھی ۔ وزیر اعظم اٹل بہاری نے پہلی بار کسی طرح اپنا بھان متی کا
کنبہ تو جوڑ لیا مگر پھر بھی انہیں 13؍دن بعد بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہونا
پڑا۔ اس کے بعد جنتا دل کی سر پھٹول کے سبب دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال
جیسے ناتجربہ کار لوگ وزیر اعظم بنے اور لڑ بھڑ کر رخصت ہوگئے۔ اس وقت اگر
لالو پرشاد یادو جیسے کسی زیرک رہنما کو وزیر اعظم بنا دیا جاتا تو جس طرح
بہار میں بی جے پی ابھی تک اپنا وزیر اعلیٰ نہیں بناسکی اسی طرح مرکز میں
بھی اس کا اقتدار میں آنا مشکل ہوسکتا تھا لیکن آپسی لڑائی کے وجہ سے یہ
نہیں ہوسکا ۔
کانگریس چونکہ جنتا دل کی حمایت کررہی تھی اس لیے عوام نے اسے بھی مسترد
کرکے پھر سے اٹل جی کو وزیر اعظم بننے کا موقع دےدیا ۔ اس دوسری حکو مت کو
بھی جئے للتا نے اپنی بدعنوانی کی پردہ پوشی کے لیے گرادیا۔ اس کے بعد
کارگل کے نام پر اٹل جی پھر سے برسرِ اقتدار ہوئے اور ان کے چمکتے دمکتے
ہندوستان کی قلعی ایک ناتجربہ کار اطالوی خاتون سونیا گاندھی نے کھول دی ۔
2004 کی انتخابی شکست نے بی جے پی کا حوصلہ پست کرکے اٹل جی کو عملی سیاست
سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اڈوانی جی نے اسے اپنے لیے فالِ نیک سمجھا ۔
منموہن سنگھ کے زمانے میں بی جے پی مکمل طور پر لال کرشن اڈوانی کے مرہون
منت ہوگئی تھی۔ 2009 میں اڈوانی جی پھر سے رتھ یاتر الے کر ملک بھرکے دورے
پر نکل کھڑے ہوئے مگر منموہن سنگھ جیسے غیر سیاسی وزیر اعظم کو بھی اقتدار
سے ہٹانے میں ناکام رہے۔ یہ بی جے پی کے لیے دوسرا جھٹکا تھا اور اس کو
ایسا لگنے لگا تھا کہ اب دہلی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکےگا ۔
مایوسی کے عالم میں اڈوانی کے خیرخواہوں نے انہیں اپنی سخت گیر شبیہ
سدھارنے کی خاطر اپنی جنم بھومی پاکستا ن جاکر قائد اعظم محمد علی جناح کو
خراج عقیدت پیش کرنے کا مشورہ دے دیا اور انہوں نے اس پر عمل بھی کرڈالا۔
یہ قدم ان کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف بن گیا ۔ پورا سنگھ پریوار ان پر
ٹوٹ پڑا اور انہیں کنارے کردیا گیا ۔ اس طرح 2014 کے لیے پارٹی میں نئے
چہرے کی تلاش شروع ہوگئی۔ اس وقت راجناتھ سنگھ سے لے کر شیوراج سنگھ اور
سشما سوراج تک بی جے پی کے سبھی بڑے لال کرشن اڈوانی کے مرید تھے اس لیے ان
میں سے کوئی آگے نہیں آیا اور نریندر مودی کی لاٹری لگ گئی۔ یہ حسن اتفاق
ہے کہ ناامیدی کا شکار بی جے پی نے بالآخر ایک ایسے فرد پر داوں لگایا جس
کو اٹل جی نے اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا ۔
اس زمانے میں اناّ ہزارے نے بدعنوانی کے خلاف ایک زبردست تحریک چلا رکھی
تھی اوروہ عوام کے اندر کانگریسی حکومت کے تئیں ناراضی پیدا کرنے میں
کامیاب ہوگئے تھے۔ اس بیزاری نے مودی جی کو بہت فائدہ پہنچایا اور بی جے پی
کامیاب ہوگئی۔ لال کرشن اڈوانی نے کامیابی کے بعدکیمرے کے سامنے برملا اس
حقیقت کا اعتراف کیا تھا ۔ انہوں نے پارٹی کی کامیابی کا سہرہ مودی کے
بجائے منموہن کی ناکامی کے سر باندھ دیا تھا۔ انہیں اس کی یہ سزا ملی کہ وہ
اب تک شاہجہاں کی مانند مارگ درشک منڈل(رہنما مجلس ) میں سیاسی بن باس کی
زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ عجب رہنما مجلس ہے کہ گزشتہ ساڑھے آٹھ سالوں میں
اس کا نہ کوئی باقائدہ اجلاس ہوا اور نہ اس سے غیر رسمی رہنمائی طلب کی
گئی۔این آر سی کے تحت غیر ملکی باشندوں کے لیے جس عقوبت خانہ کا ذکر وزیر
داخلہ امیت شاہ کرتے ہیں یہ اس کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے جس میں فائی اسٹار
سہولیات مہیا ہیں لیکن اُف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے کا
امیدوارکی یہ بیچارگی کہ خاموشی سے کھانا پینا اور موت کا انتظار کرنا
بدترین سزا ہے۔
2014 کے اندر وزیر اعظم مودی میں اعتماد کی کمی تھی اس لیے انہوں نے
وارانسی کے ساتھ بڑودہ سے بھی انتخاب لڑا جبکہ 2019 میں جب خود اعتمادی
پیدا ہوئی تو صرف وارانسی پر اکتفاء کیا گیا۔ 2013میں وزارت عظمیٰ کا
امیدوار بننے کے بعد ایک نادیدہ اندیشے نے انہیں امیت شاہ کو اترپردیش کا
نگراں بنانے پر مجبور کیا ورنہ اس وقت پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ اور مرلی
منوہر جوشی جیسے تجربہ کار لوگوں کے ہوتے گجرات کے کسی بدنامِ زمانہ سیاست
داں کواس اہم ترین ریاست کی انتخابی مہم کا ذمہ دار بنانا ایک تعجب خیز
اقدام تھا۔ انتخابی کامیابی کے بعد جیسے ہی راجناتھ سنگھ وزیر داخلہ بنے
فوراً ان سے پارٹی کی کمان چھین کر امیت شاہ کو تھما دی گئی۔ اس طرح وزیر
اعظم مودی نے پارٹی پر اپنا تسلط مضبوط کرلیا اور پھر ایک ایک کرکے اپنے
سارے حریفوں کو کنارے کرتے چلے گئے ۔ 75؍ سال کا ضابطہ بناکر ایک ساتھ اپنے
کئی سینیئرس کو ٹھکانے لگا دیا اور اب خود اس کو تو ڑ دیا گیا۔ بی جے پی
پارلیمانی بورڈ کی موجودہ تنظیم نو اسی آپریشن کلین اپ(صفائی مہم) کا ایک
حصہ ہے۔
امیت شاہ کے علاوہ دوسروں پر مودی جی کے عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ
2019میں ان کو وزیر داخلہ بنانے کے بعد بھی طویل عرصہ تک انہیں کو پارٹی کا
صدر بنائے رکھا گیا اور آج بھی عملاً بی جے پی کی زمام کار امیت شاہ کے ہی
ہاتھوں میں ہے۔مودی کی رہنمائی میں سارے اہم فیصلے وہی کرتے ہیں اور بیچارے
جے پی نڈاّ کو تو ان کے ہماچل پردیش میں بھی کوئی نہیں پوچھتا ۔ یو ٹیوب
پروہ ویڈیو اب بھی موجود ہوگی کہ جس میں مودی کے بالکل پیچھے چلنے والے نڈا
کو شاہ نے ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیا تھا ۔ ان آٹھ سالوں میں اس کے اندر آپریشن
کلین اپ کی کئی مثالیں سامنے آئیں مثلاً 2014 کے اندر مہاراشٹرکی بی جے پی
میں گوپی ناتھ منڈے سب سے زیادہ مقبول رہنما تھے۔ ان کو کنارے کرنے کی خاطر
نتن گڈکری کو آگے لایا گیا۔ مہاراشٹرمیں صوبائی انتخاب سے قبل ان کا
انتقال ہوگیا تو ریاست کی باگ ڈور ایک غیر معروف رہنما دیویندر فڈنویس کو
تھمائی گئی تاکہ وہ احسانمند بنا رہے ۔
آج یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ نئی تشکیل شدہ مرکزی الیکشن کمیٹی کے 15؍ ارکان
میں دیویندر فڈنویس تو موجود ہیں لیکن نتن گڈکری کی چھٹی کردی گئی ۔ شیوراج
سنگھ کے نکالے جانے کا یہ جواز پیش کیا جارہا ہے کہ اس میں کوئی وزیر اعلیٰ
شامل نہیں ہے جبکہ دیویندرفڈنویس سُپر وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہ نائب وزیر اعلیٰ
ہونے کے ساتھ وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ بھی ہیں اس کے باوجود ان کی ترقی
ہوگئی۔ ان کو جوان خون کی شمولیت کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس تشکیل
نو میں بی ایس یدیورپا اور ستیہ نارائن جاٹیہ شامل ہیں۔ ان دونوں کی عمر 75
سال سےتجاو ز کر چکی ہے ۔ اس طرح وزیر اعظم نے 75 سال کی حد بندی ختم کرکے
اپنے لیے جواز پیدا کرلیا ہے۔ دو سال بعد اگر کوئی سوال کرتا ہے کہ مودی جی
سبکدوش ہوکر مارگ درشک میں کیوں نہیں جاتے تو ان کے اندھے مقلد ان دو سن
رسیدہ سیاستدانوں کی مثال دے کر سمجھائیں گے کہ اگر پارلیمانی بورڈ میں
یدیورپاّ یا جاٹیہ ہوسکتے ہیں تو اس کا سربراہ مودی بھی ہوسکتا ہے؟
نتن گڈکری آر ایس ایس کے منظورِ نظر ہیں ۔ ان کو ہٹا کر مودی جی نے سنگھ
پریوار کو یہ پیغام دیا ہے کہ آگے چل کر اس کی حیثیت بھی کانگریس کے سیوا
دل کی طرح ہونے والی ہے جو یوم جمہوریہ یا یوم آزادی وغیرہ کے موقع پر
سفید ٹوپی پہن کر ترنگے کو سلامی دینے پر اکتفاء کرتاہے ۔ وزیر اعظم کو
مغربی بنگال انتخاب کے بعد آر ایس ایس نے برسرِ عام یہ مشورہ دیا تھا کہ
وہ ریاستی انتخابی مہم سے دور رہیں ورنہ ان کے لیے اگلا قومی انتخاب جیتنا
مشکل ہوجائے گا ۔ نریندر مودی نے اس صلاح کو جوتے کی نوک پر اڑا دیا اور اس
قدر زور و شور سے الیکشن لڑا کہ پرانے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ اتر پردیش میں
اگر بی جے پی 55کے بجائے 105 نشستیں گنوا بیٹھتی تو سنگھ والے کہتے کہ
ہماری بات نہیں ماننے کے نتیجے میں یہ حشر ہوا لیکن وہ جیت گئی اس لیے سب
کی زبانوں پر قفل لگ گیا۔ اب نتن گڈکری کو ہٹا کر یہ پیغام دیا گیا کہ سنگھ
کا آشیرواد کسی کو مودی جی کے عتاب سے نہیں بچا سکتا۔ مودی جی نے سنگھ
پریوار کا سب سے بڑانقصان یہ کیا کہ ایک کیڈر کی بنیاد پر کھڑی کی جانے
والی سیاسی جماعت کو فرد واحد کی جاگیر بنا دیا ۔ وزیر اعظم موروثی سیاست
پر تو خوب برستے ہیں لیکن ان کی اپنی پارٹی ایک انفرادی ملکیت بن چکی ہے ۔
وہاں اصول و نظریہ پر ایک رہنماکی اندھی عقیدت کو فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔
اندرا گاندھی نے کانگریس پر جوظلم کیا تھا وہی ستم نریندر مودی بی جے پی پر
کررہے ہیں ۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ سنگھ پریوار اس جبر و
استبداد کا مقابلہ کیسے کرے گا ؟ وہ بی جے پی پر پھر سے گیروا پرچم لہرانے
میں کامیاب ہوجائے گا خود ترنگے کی عافیت میں سو جائے گا؟
|