پاکستان میں سیلابوں کی تاریخ انتہائی تلخ ہے۔سیلاب
آتے ہیں اور سینکڑوں معصوم جانیں طوفانی لہروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔گھر
اجڑجا تے ہیں ،مال مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں اور ہزاروں ایکڑ وں پر کھڑی
فصلیں تباہ برباد ہو تی ہیں۔حکومتی سطح پر بڑے اعلانات ہوتے ہیں اور ان
سیلابوں کے تدارک کیلئے بڑی بڑھکیں ماری جاتی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے
تین پات۔عوام کو بیو قوف بنانے کے سارے حربے آزمائے جاتے ہیں لیکن سیلاب
پھر آ جاتے ہیں کیونکہ منصوبہ تو کوئی بنایا ہی نہیں ہوتا۔ سارا عمل ایک
دفعہ پھر دہرایا جاتا ہے۔عالمی سطح پر امداد کی اپیلیں اور دوست ممالک سے
بھیک کی درخواستیں شروع ہو جاتی ہیں ۔غیروں سے مانگنے کانشہ پاکستانی قیادت
کے رگ و پہ میں سرائیت کر چکا ہے۔بے گھر عوام کے نام پر کشکول اٹھا لیا
جاتا ہے ، سیلاب فنڈ قائم کر دیا جاتا ہے اور عوام سے چندے کی اپیلیں شرع
ہو جاتی ہیں ۔ مخیر حضرات سیلابی فنڈ میں عطیات دیتے ہیں اور یوں اپنی آخرت
سنوار لینے کے اس نادرموقع کو ضا ئع نہیں کرتے ۔ لوٹی ہوئی دولت سے چند سکے
عوام پر خرچ کر کے وہ خدا ترس اور عوام دوست افراد کی فہرست میں شامل ہو
جاتے ہیں حالانکہ سیلاب کی ساری تباہ کاریاں ان کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے
پیدا ہوتی ہیں ۔ریاست کا پیسہ جس طرح دولت مندوں کی جیبوں میں جاتا ہے اس
کے بعد کیا خزانہ میں کچھ بچتا ہے جس سے ڈیموں کی تعمیر اور سیلاب روکنے
کیلئے اقدامات کئے جاسکیں ؟ملکی خزانہ لوٹنے کی رسم عام ہو جائے تو قوم اسی
طرح سیلابوں اور قدرتی آفات کی نظر ہوجاتی ہے۔میں نے اپنی پوری زندگی میں
ایک ہی فلم باربار چلتے دیکھی ہے۔ہوائی جہازوں سے فلمیں بنائی جائیں
گی،جہازوں اور ہیلی کاپڑوں سے خوراک کے بنڈل گرائے جائیں گے ،معصوم بچوں کے
ساتھ تصاویر کھنچوائی جائیں گی،عورتوں کے سروں پر دستِ شفقت رکھا جائیگا
لیکن انتظامی سطح پر کچھ بھی نہیں کیا جائے گا ۔ چند سالوں کے بعد ایک دفعہ
پھر سیلاب آجائیگا اور یہی فلم ایک دفعہ پھر چلائی جائیگی ۔ لوگ سیلاب کی
نذر ہو جائیں گے، ان کا مال و متاع اور جمع پونجی لٹ جائے گی،ان کے عزیزو
اقارب ان کی نظروں کے سامنے موت کی آغو ش میں چلے جائیں گے لیکن حکمران
بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے ۔وہ خود تو محفوظ محلات میں سکونت
پذیر ہوتے ہیں لہذا انھیں کسی بات کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔ انھیں کسی
قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی کیونکہ موت کے منہ میں غریب جاتے
ہیں،وہ تو مسیحا بن کر امدادی پیکٹ تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔وہ تو احسان
جتاتے ہیں کہ ہمیں عوام کی بہت زیادہ فکر ہے۔ان کے پاس عوام کی حفاظت کا
کوئی پروگرام نہیں ہوتا لہذاسیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنا ان کی بساط سے
باہر ہوتاہے ۔،۔عوام جس طرح بے بسی کی حالت میں ہیں،تکلیف سے بلک رہے ہیں ،
کھلے آسمان کے نیچے تڑپ رہے ہیں ،کرپشن کی دلدادہ قیادت ان کی داد رسی کیسے
کر سکتی ہے؟ خوراک ،پانی،دوا اور اور پناہ گاہ کیلئے متاثرین کی چیخ و پکار
عرش کے گنگرے ہلا رہی ہے لیکن ہمارے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔، معصوم
بچے جس طرح بلک بلک کر آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں ،اس سے پتھر دل انسان کی
آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کی سنگدلی اور بے
حسی رحمدلی میں نہیں بدلتی کیونکہ ان اک واحد مقصد قومی دولت کو لوٹنا ہے۔
وہی رٹے رٹائے جملے ان کی زبان پرہیں جو ہر سیلاب میں ادا کئے جاتے ہیں۔طفل
تسلیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں عوام رودھو کر چپ ہو جائیں
گے۔ریا ستی نظام کو بدلنا عوام کی بساط میں نہیں ہوتا اور مافیاؤں سے نجات
پانا ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔وہ روتے روتے خاموش ہو جاتے ہیں اور ان کے
گھر،عزیز اور مال و متاع ان کی نظروں کے سامنے سیلابی ریلوں کی نذر ہو جاتے
ہیں۔جھوٹے اعلانات اور دروغ کوئی جب سکہِ رائج الوقت ٹھہرے تو عوام کی دست
گیری کون کرے گا ؟۔،۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ابتلاء و اذیت کی ناقابلِ برداشت گھڑیوں میں جب
عوام پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں،ان کی کائنات ان کی آنکھوں کے سامنے لٹ
رہی ہے ہمارے قومی قائدین ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہیں۔ ان کے اندر
قومی اتحاد اور یکسوئی کا فقدان ہے۔وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور
نیچا دکھانے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔انھیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ
اس جان لیوا گھڑیوں میں انھیں عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہے،ان کے
سروں پر دستِ شفقت رکھنا ہے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے اور قومی خزانہ
کا منہ ان کی مشکلات کے حل کیلئے کھول دینا ہے۔ انھیں باور کروانا ہے کہ
آزمائش کی اس گھڑی میں وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے یہاں پر تو
اقتدار کی رسہ کشی ہے،مخالفین پر الزام تراشی ہے ،حکومت کے خلاف احتجاج کی
منصوبہ بندی ہے۔گویا کہ پہلا ہدف عوام کو سیلاب سے بچانے کی بجائے حکومت کو
ہٹانا ہے ۔اقتدار کا حصول جب پہلی ترجیح بن جائے تو پھر عوام کی داد رسی کا
مرحلہ طے نہیں ہو پاتا۔سیاست ہو تی رہے گی لیکن اس وقت سب سے اہم کام عوام
کو اس بلائے ناگہانی سے بچانا ہے ۔ میرے ملک کے ناخداؤ کسی ایک میز پر بیٹھ
جاؤ اور اس بات کا تعین کرو کہ یہ جو ہر چند سالوں کے بعد سیلاب کی وجہ سے
قومی خزانے کو اربوں کھربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور عوام کا مال
ومتاع لٹ جاتا ہے اس کا تدارک کیسے کیاجائے؟عوام کی جان و مال کی حفاظت کو
کیسے یقینی بنایا جائے۔؟سیلاب کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانا حکومت کی
ذمہ داری ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پرتا ہے کہ ہماری حکومتنیں اس
ذمہ دااری سے عہدہ براء نہیں ہو رہیں۔ان کی نظریں قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ
پر جمی ہوئی ہیں لہذا عوامی داد رسی ان کی نظر وں میں کوئی اہمیت نہیں
رکھتی ۔عوام کے نام پر جمع کئے گے پیسے سے ذاتی املاک بنانے کا دھندہ شروع
ہے ۔قوم کی اخلاقی حالت ایسی پتلی ہے کہ اس پر کسی صورت میں اعتماد نہیں
کیا جا سکتا۔قوم کی یہ حالت محض اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ہماری قومی لیڈر شپ
کر پشن کا استعارہ ہے ۔جب قوم کے لیڈر ہی قومی دولت لوٹنے کو فن سے تعبیر
کرنے لگ جائیں تو عوام سے امانت کی توقع عبث ہے۔اس وقت ملک ایک اجتماعی
عذاب کی کیفیت سے گزر رہا ہے اور ہماری حالت ہے کہ (وائے ناکامی ،متاعِ
کارواں جاتا رہا۔،۔کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جا تا رہا۔ ) ۔ ایسی تباہ
کاری اور بے حسی چشمِ فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔چین میں بھی سیلاب آتے
تھے لیکن ماؤزے تنگ نے ڈیم بنا کر دریاؤں کے رخ موڑدئے ۔ہمارے ہاں ڈیموں کا
کوئی وجود نہیں ہے۔ ہر لیڈر اعلانات تو کرتا ہے لیکن پھر ڈیموں کے نیچے خود
ہی دفن ہو جاتا ہے۔قوم سے جھوٹ، مکر ،فریب اور دروغ گوئی اتنی زیادہ ہے کہ
سچائی کا پتہ نہیں چلتا۔جو آتا ہے لوٹ کر چلتا بنتا ہے۔الزام تراشی اور
گالی گلوچ کا کلچر ہمارے لہو میں سرائیت کر چکا ہے جس سے ترقی کا سفر بالکل
رک چکا ہے۔کس سے منصفی چائیں اور کس پر اعتبار کریں کیونکہ منصف ہی تو آگ
لگا رہے ہیں۔کوئی اس قابل نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔جنگل کا جنگل ہی
آدم خوروں سے بھر ا پڑا ہے۔ جس کو ہاتھ لگاؤ وہی پھن پھیلائے ڈسنے کو تیار
بیٹھا ہو تا ہے ۔دعوے انگنت ،وعدے بے شمار لیکن ،نتائج صفر۔ بقولِ
اقبال۔(گفتار کا غازی بن تو گیا ۔،۔کردار کا غازی بن نہ سکا)۔باتوں کا وقت
گزر چکا اب کچھ کر گزرنے کا وقت ہے لیکن کرے گا کون؟
|