آپ کو دو برس پہلے کمبوڈیا جانے والا ’کاون ‘ نامی ہاتھی
تو یاد ہوگا جو بھاری بھر کم زنجیروں میں جکڑے جانے ،ناکافی خوراک ملنے اور
بیماری کیوجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو کر اپنے عقوبت خانے کی دیواروں سے سر
ٹکراتا رہتا تھا۔’کاون ‘سری لنکا کی حکومت نے پاکستان کو تحفے میں دیا تھا
جب جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار تھے۔وہ واقعی بہت قیمتی تھاکیونکہ اس نے بہت
پیسے کما کر دئیے مگر انتظامیہ کی بے پروائی کی نذرہوگیا ۔بے حسی کا اندازہ
اس سے کر لیں کہ میاں نواز شریف کو ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب خالدہ ضیاء نے
ایک مادہ ہتھنی تحفے میں دی جسے اس کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ دیا گیا لیکن
وہ اس اذیت کو برداشت نہ کر سکی اور چند سالوں میں مر گئی ۔تحقیقات میں یہی
سامنے آیا کہ جانور قید تنہائی ،ناکافی خوراک اوربیماری سے مر جاتے ہیں۔
کوئی ایکشن نہ ہوااور وقت کا پہیہ گھومتا رہا یہاں تک کہ دو سال پہلے
امریکہ سے آئی ڈاکٹر ثمر خان (ڈی وی ایم )نے’کاون‘ کو دیواروں سے سر ٹکراتے
دیکھا تو تصاویر لیکر اس معاملے کو اتنا ہائی لائیٹ کیا کہ کاون کے استحصال
پر عالمی میڈیا غم و غصے سے چیخ اٹھا بایں وجہ اس کی امداد کے لیے سری لنکا
سمیت دیگر ممالک بھی متحرک ہو گئے اور اسے فوری طور پر کمبوڈیا منگوا لیا
گیا جہاں اس کی آزاد فضاؤں میں تصاویر دیکھ کر سبھی کو اس احساس نے جکڑ لیا
کہ وہ ایک جانور کے لیے بھی کس طرح تڑپ اٹھتے ہیں لیکن کشمیر ،فلسطین ،برما
اور شام میں مظالم کا شکار ہمارے مظلوم بہن بھائیوں کی فریادکیوں نہیں سنتے؟
قارئین کرام ! جانتے ہیں مسلمانوں کی تباہی و بربادی پر وہ لوگ کیوں نہیں
تڑپتے جو جانوروں کو ریسکیو کرتے اور اپنوں کے لیے ہر حد سے گزرجاتے ہیں کہ
ان کا کوئی شہری ہمارے ملک میں کسی مقدمے میں پھنس جائے تو وہ پورے ملک کو
ہلا دیتے ہیں ۔۔کیونکہ ہمارے اندراپنے مسلم بہن بھائیوں کے لیے کوئی احساس
،ہمدردی اور درگزر نہیں ہے، ہم من حیث القوم نہیں من حیث الگروہ جی رہے ہیں
اور ان گروہوں پر بے حس عنانیت پسند حکمران مسلط ہیں جو اپنے اپنے دائرے
میں فرعون ہیں حالانکہ چاند تو سبھی کے لیے ہے مگر اندھیرا صرف غریب کے گھر
ہے اور ڈوب بھی غریب رہا ہے جس پر مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے کہ عوام
توبہ کریں واقعی توبہ کرنی چاہیے کہ ایسا کونسا گناہ سرزد ہوگیا کہ ایسے
حکمران مسلط ہیں جو سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہیں اور تقریباً دو کروڑ افراد
بے گھر ہوگئے ہیں
یہ منظر قیامت سے کم نہیں تھاکہ کوہستان کے علاقے سناگئی دوبیر میں پانچ
نوجوان چار گھنٹے تک مدد کے منتظر رہے اس کے بعد سیلابی ریلے میں بہہ گئے ۔علاقہ
مکینوں کے مطابق وہ چار گھنٹے تک حسرت اور بے بسی کی تصویر بنے رہے جن کی
تصاویر اور ویڈیوزبھی سوشل میڈیا پر شئیر کی گئیں مگرکسی نے انھیں بروقت
مدد فراہم نہ کی حالانکہ اگر انتظامیہ چاہتی تو پشاور یا گلگت سے ایک گھنٹے
میں ان کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر پہنچ سکتا تھا مگر کسی کے کانوں پر جوں
تک نہ رینگی۔ مقامی لوگوں نے کوشش کی مگر وہ تیز موجوں کی نذر ہوگئے ۔ ایسے
سینکڑوں ڈوبنے والوں کا کسی کو پتہ بھی نہیں ہوگا۔ بظاہر وہ بھی سخت جان
تھے لیکن بپھری ہوئی لہروں سے کتنا لڑتے کہ پانی ،آگ اور بھوک کے سامنے کس
کی چلتی ہے ۔۔یقینا سوچتے ہونگے کہ ہمارے لیے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں ، بڑے
بڑے دعوے بھی کئے جاتے ہیں ، بہترین زندگی کے لیے ملک در ملک بھیک اور
امدادمانگی جاتی ہے اور ناجائز ٹیکسسز بھی لگا رکھے ہیں لیکن ہمارے لیے
قدرتی آفات و حادثات سے نپٹنے کا کوئی انتظام کیوں نہیں کیا جاتا۔۔یقینا
پتھروں سے سر ٹکراتے سوچا ہوگا کہ تین سال قبل چترال میں عمران خان کی
ہمشیرہ بھی سیلاب میں پھنس گئی تھی جس کے بعد خیبر پختونخواہ اور وفاقی
حکومت فوری طور پر حرکت میں آگئی تھی کہایک ڈیڈھ گھنٹے کے اندر خصوصی ہیلی
کاپٹر بھجوا کر ریسکیو کیا گیا تھا ۔کا ش ہم بھی کسی حکمران کے رشتے دار
ہوتے ۔وہ اشکوں کا سیلاب چھوڑ گئے ہیں جس کی لہریں کرتا دھرتا کو جانے کہاں
لے جائیں گی
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مشینری حکمرانوں کو سیکیورٹی اور پروٹوکول دینے
کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔آج مجھے لگ رہا ہے کہ ’کاون ‘واقعی خوش قسمت ہاتھی
تھا جس کی آہیں آسمان سے جا ٹکرائیں ۔وہ اپنے عقوبت خانے میں سر ٹکراتا یہی
تو پوچھتا تھا کہ میرے فنڈز کہاں ہیں ؟ پوری خوراک کیوں نہیں دیتے ؟ میں
اتنا کما کر دیتا ہوں تومیری دیکھ بھال کیوں نہیں کرتے ؟ میری زندگی کو
آسان کیوں نہیں کرتے ؟ جبکہ انتظامیہ کے مطابق فنڈز ناکافی تھے! ایسے ہی
ہمارا ملک ایک عقوبت خانہ بن چکا ہے جس کی دیواروں سے ہم سر پٹختے رہتے ہیں
جبکہ ہماری آہیں اور سسکیاں ایوانوں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں ۔ہماری فریاد
کوئی نہیں سنتا آج ہر طرف زندگی موت سے نبرد آزما ہے اور سیاسی بازیگر ایک
دوسرے سے برسر پیکار ہیں کہ خان صاحب اسلام آباد پر لشکر کشی کی منصوبہ
بندی کر رہے ہیں اور اتحادی حکومت اپنے بچاؤ میں مصروف ہے ۔ اس وقت اتحادی
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان اختیارات کی جنگ کا حصول ایسی جنگ اختیار
کر گیا ہے جس میں جیت کے لیے دونوں ہر حد پار چکے ہیں ۔ایک طرف جارحانہ
انداز ہے تو دوسری طرف طاقت کا وار ہے ۔ایسی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے کہ
عالمی میڈیا بھی تمسخر اڑا رہا ہے کہ سیاسی رسہ کشی کو تحریک انصاف اورقومی
سلامتی کے اداروں کی جنگ سے جوڑا جا رہا ہے جس سے اقوام عالم میں غلط تاثر
جا رہا ہے جو کہ کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔کرسی کی چھینا
جھپٹی میں عوام یکسر فراموش ہوچکے ہیں جبکہ یہ وقت مل جل کر ڈیلیور کرنے
اور سیلاب زدگان کی بحالی کو یقینی بنانے کا ہے وہ امداد کے انتظار میں
بیٹھے ہیں بلاشبہ فلاحی تنظیمیں متحرک ہیں اور عالمی اداروں نے بھی 50 کروڑ
ڈالرز سے زائد امداد کا اعلان کر دیا ہے اور وزیراعظم سمیت سبھی نے امداد
کی اپیل کر رکھی ہے یقینا پیسے اتنے زیادہ اکٹھے ہوجائیں گے کہ سیلاب
متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ہی نہیں خوشحالی کو بھی با آسانی یقینی بنایا
جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو پیسہ اکٹھا ہوگا وہ مستحق افراد تک کیسے
پہنچے گااوروقت ٹپاؤ پالیسی اپنانے والوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے اس بات کو
کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ جو امدادی فنڈز ہیں وہ صرف اور صرف بحالی پر
خرچ ہوں ؟
|