پی ایف آئی: پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

وزیر داخلہ امیت شاہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سبق سیکھنے کے بجائےسبق سکھانے میں یقین رکھتے ہیں ۔ اس کا تازہ ترین ثبوت صدیق کپن کی ضمانت کا انتقام لینے کی خاطرپاپولر فرنٹ پر چھاپے ہیں ۔ صدیق کپن ایک ایسے معاملے کی خبر رسانی کے لیے ہاتھرس جارہے تھے جس نے موجودہ حکومت کے منووادی (نسلی امتیاز)چہرے کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا۔اس سفاکی کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر صدیق کپن پر یوگی سرکار اوٹ پٹانگ الزامات لگائے ۔ ان کو اپنے پالتو میڈیا کی مدد سے ملک باغی قرار دینے کی بھرپور کوشش کی مگروہ الزام تو نچلی عدالت میں بھی ٹک نہیں سکا۔یو اے پی اے کا ظالمانہ قانون لگا کر تحت ہائی کورٹ کو ضمانت دینے سے روکنے میں کامیابی ملی مگر عدالتِ عظمیٰ کے اندرمرکزی و صوبائی سرکار چاروں خانے چت ہوگئی۔ کپن کے خلاف فساد بھڑکانے کے الزام میں ثبوت کے طور ’ہاتھرس کی بیٹی کو انصاف کب ملے گا؟‘ لکھے پوسٹر پیش کیے گئے تو عدالت نے نربھیا کی مثال دے کر پھٹکار لگائی ۔ آخری الزام یہ لگایا گیا کہ وہ پاپولر فرنٹ کی تھنک ٹینک کا حصہ ہیں ۔ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ پاپولر فرنٹ چونکہ کوئی ممنوعی تنظیم نہیں ہے اس لیے اس کے تھنک ٹینک کا حصہ ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ عدالت نے اس دلیل کوبھی قبول کرلیا ۔

عدالت کے فیصلے نے حکومت کو احساس دلایا کہ میڈیا میں بے سروپا الزام لگا کر کسی کو بدنام کرنا جس قدر آسان ہے عدالت میں اسے ثابت کرنا اتنا ہی مشکل امر ہے۔ اس انکشاف کا تقاضہ تھا کہ سرکار اپنی غلطی کو تسلیم کرکے بے قصور لوگوں پر اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگانے سے تائب ہوجاتی لیکن اس کے لیے مطلوبہ شرافت کا شائبہ تک موجودہ حکومت میں موجود نہیں ہے ۔ اس نے اپنے رسوائی کی پردہ پوشی کے لیے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ پاپولر فرنٹ ایک دہشت گرد تنظیم ہے تاکہ کسی کو بھی بے قصور کو اس سے جوڑ کر ظلم کرنے کا جواز نکل آئے۔ پی ایف آئی پر حالیہ چھاپوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے۔ موجودہ سیاست اپنی خوبی کے بجائے مخالفین کی خامی بتانے پر یقین رکھتی ہے۔ اپنے عیوب کو چھپانے کی خاطر دوسروں پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے غیروں کے خلاف افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ۔سرکار خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی خاطر حزب اختلاف کی بدعنوانی کو اچھالتی ہے۔ حاملین اقتدار اپنے جبرو استبداد کی مدد سے ان پر تنقید کرنے والوں کو دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دے دیتے ہیں ۔ اسی مقصد کے تحت ملک بھر میں پاپولر فرنٹ پر چھاپے مار کر حکومت سرکاری دہشت گردی کو چھپا رہی ہے۔

’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ عرصۂ دراز سے حکومت کے نشانے پر ہے۔ اس پر آئے دن مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں اور گرفتاریاں عمل میں آتی رہتی ہیں لیکن ان چھُٹ پُٹ کارروائیوں سے بڑی خبر نہیں بنتی اس لیے حکومت نے اتنا بڑا اقدام کردیا کہ جس کی جانب سے میڈیا کے لیے توجہ ہٹانا ناممکن ہوجائے ۔ امیت شاہ کے تحت کام کرنے والی قومی تفتیشی ایجنسی ( این آئی اے) نے مختلف ایجنسیوں کو ساتھ لے کر بیک وقت دس سے زائد ریاستوں میں پی ایف آئی کے دفاتر پر چھاپے مارے اور سو سے زائد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ امیت شاہ کو اس کا کریڈٹ دیتے ہوئے اسے اب تک کی سب سے بڑی تفتیشی کارروائی قرار دیا گیا ۔ حکام کے مطابق کہ یہ چھاپے مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مارے گئے۔ پی ایف آئی دفاتر کے علاوہ اس سے وابستہ افراد کے گھروں پر بھی دہشت گردی کی فنڈنگ میں ملوث ہونے، تربیتی کیمپوں کا انعقاد کرنے اور ممنوعہ تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرنے کے الزامات کے تحت تلاشیاں لی گئیں اور انہیں گرفتار کیا گیا۔
مندرجہ بالا الزامات بھی موجودہ سرکارکی اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ ہیں ۔ عدالت میں جانے کے بعد وہ انہیں ثابت کرنے میں بارہا ناکام ہو چکی ہے لیکن اس کو شرم نہیں آتی ۔ صدیق کپن پر پینتالیس ہزار روپئے لے کر فساد بھڑکانے کا الزام لگایا گیا تھا جو ان کی تنخواہ تھی۔ تیستا سیتلواد پر چند لاکھ روپئے کے عوض سرکار کا تختہ پلٹنے کا مضحکہ خیز بہتان تراشا گیا جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ ملک میں تربیتی کیمپوں کا انعقاد کرنا ممنوع نہیں ہے اور وہ کون سی ممنوعہ تنظیمیں ہیں جن میں شامل کرنے کے لیے ذہن سازی کی جارہی ہے اس کی وضاحت سرکار نے نہیں کی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ پی ایف آئی بھلا کسی اور تنظیم میں لوگوں کو شامل کرنے لیے ذہن سازی کیوں کرے؟ اس کو چاہیے کہ عوام کو اپنی تنظیم میں شمولیت کے لیے آمادہ کرنے کا کام کرے اور وہ یہی کرتی ہے۔ اس کھلے عام کی جانے والی سرگرمی پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ پاپولر فرنٹ کے خلاف جب سرکار کو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا تو اسے اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کی ’تبدیل شدہ شکل‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ سن 2012 میں کیرالا کی ریاستی حکومتنے پی ایف آئی پر یہ الزام لگایا تاہم ہائی کورٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ مرکزی حکومت اب وہی غلطی دوہرانے جارہی لیکن یہ بے بنیاد الزام بھی سپریم کورٹ میں ٹِک نہیں سکے گا اور سرکار کو پھر ایک بارہزیمت اٹھانی پڑے گی ۔

مذکورہ سرکاری الزامات کس قدر بودے ہیں اس کا اندازہ تلنگانہ کی چھاپہ ماری سے کیا جاسکتا ہے۔ قومی تفتیشی ایجنسی نے 17 ستمبر 2022 کو پاپولر فرنٹ کے ٹھکانوں پر چھاپہ مار کر قابل اعتراض مواد ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ جولائی میں تلنگانہ پولیس نے مارشل آرٹ سکھانے والے عبدالقادر کو پوچھ تاچھ کے لیے سمن جاری کرکے بلایا اور دوافراد سمیت فرضی مقدمات کے تحت گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد وزارت داخلہ کی ہدایت پر این آئی اے نے اس مقامی معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر دہشت گردانہ مقدمے میں تبدیل کر دیا حالانکہ عبدالقادر عرصۂ دراز سے ایک پیشہ ور مارشل آرٹ ٹرینر ہیں اور ریاست بھر میں ان کے بے شمار شاگرد پائے جاتے ہیں۔ پہلے تو تلنگانہ کی ریاستی حکومت نے اس کا فائدہ اٹھا کر اکثریتی طبقات کو متوجہ کرنے کی کوشش کی اور پھر مرکزی حکومت اس کا سیاسی فائدہ اٹھاکر ہندووں کی خوشنودی میں جٹ گئی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تلنگانہ کے ٹی آر ایس سرکار کو ایم آئی ایم کی حمایت حاصل ہے اس کے باوجود احتجاج تو دور مذمت بھی نہیں ہوئی ۔

پاپولر فرنٹ کے قومی سکریٹری وی پی ناصر الدین کے مطابق این آئی اے آندھرا پردیش ، تلنگانہ اور بہارمیں تنظیم کے بے قصور ارکان ہراساں کرنے کی خاطر فرضی مقدمات قائم کر انہیں دہشت گردانہ معاملہ بنا دیتی ہے ۔ پی ایف آئی تو ملک کے محروم وپسماندہ طبقات اور تمام شہریوں کی سماجی، اقتصادی ترقی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہے۔ اس کا مقصد انہیں ثقافتی اور سیاسی طور پر با اختیار بناناہے۔ انہوں نے چھاپہ ماری کو’فسطائی حکومت‘ کی زیادتی قرار دے کر سخت مذمت کی اور الزام لگایا کہ حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے ایجنسیوں کا استعمال کیاجا رہا ہے۔ بدقسمتی سے کبھی کبھارحکومت کو اس طرح سے اپنے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے میں کامیابی بھی مل جاتی ہےمثلاً مہاراشٹر میں اقتدار کی تبدیلی یا مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا پہلے آر ایس ایس کی تعریف اور پھر وزیر اعظم کی توصیف بیان کرنا ۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ بہار، جھارکھنڈ اور دہلی کے اندر امیت شاہ کی سازش ناکام ہوگئی ۔ پاپولر فرنٹ جیسی دلیر تنظیم پر تو یہ حربہ ہرگز اثر انداز نہیں ہوسکتا ۔ حالیہ چھاپہ ماری کے خلاف کیرالہ میں پی ایف آئی نے سڑکوں پر اتر کر زبردست احتجاج کرکے ثابت کردیا کہ سرکار اسے ڈرانے دھمکانے کی مذموم کو شش میں ناکام ہوگئی ہے۔

موجودہ حکومت تنقید نہیں برداشت کرپاتی اس لیے بڑے پیمانے پر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ مخالفین کی آواز دبائی جاتی ہے۔ بحالتِ مجبوری بی جے پی کےکلدیپ سنگھ سینگر جیسے زانی و قاتلوں کے خلاف ان کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان کو بچانا ناممکن ہوجائے۔ اس حکومت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب وہ پوری طرح گھِر جاتی ہے تو اسے مسلمان یاد آتے ہیں جیسے مہاجر مزدور وں کا معاملہ اُبھر کر سامنے آیا تو تبلیغی جماعت کے کورونا جہاد کی افواہ اڑا ئی گئی۔ فی الحال شمال سے جنوب تک بی جے پی کے خلاف عوام کا غم وغصہ پھوٹ رہا ہے اس لیے پی ایف آئی کےخیالی خطرے سے ہندو عوام کو خوفزدہ کرکے خود کو ان کا نجات دہندہ ثابت کرنا سرکار کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ نام نہاد ذرائع ابلاغ میں بار بار پی ایف آئی کے خلاف کارروائی کو امیت شاہ سے جوڑ کر ان کا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش بھی زور وشور سے چل رہی ہے تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جاسکے کہ ہندووں کے سب سے بڑے خیر خواہ یوگی نہیں بلکہ شاہ جی ہیں۔ اس طرح مرکزی سرکار ہندو رائے دہندگان کو خوفزدہ کرکے کرناٹک یا دیگر ریاستوں میں انتخابی فائدہ تو اٹھا سکتی ہے مگر ملت اسلامیہ اور پی ایف آئی ڈرا نہیں سکتی کیونکہ کیونکہ بقول مولانا ظفر علی خان ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450903 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.