کلرسیداں مہنگائی نے غریب عوام کا بھرکس نکال کے رکھ دیا
ہے قیمتیں کنٹرول کرنے والے سرکارے ادارے بھی بلکل بے بس ہو کر رہ گے ہیں
یوٹیلیٹی سٹورز پر کچھ کھانے پینے کی اشیاء پر تھوڑی بہت سبسڈی ملتی تھی اب
وہاں پر بھی تمام اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی بجلی کے بھاری
بلوں نے غریبوں کو جینے سے مرنا بہتر سو چنے پر مجبور کر دیا ہے غریبوں کی
نیندیں تک ختم ہو کر رہ گئی ہیں حکومت نے تو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ
کیا ہی ہے اس کے ساتھ زخیرہ اندوزوں ٹرانسپورٹ مافیا اور ناجائز منافع
خوروں نے پٹرول کی قیمتوں کو زمہ دار قرار دے کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے
لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے عوام حکومت سے بھی تنگ ہے اور
مافیاز کی زد میں بھی گھر چکی ہے غریب ہر طرف سے ظلم کی چکی میں پس رہا ہے
بجلی بلوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے بزرگ و خواتیں واپڈا دفاتر کے چکر
کاٹنے پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن وہاں پر بھی کوئی ان کی سنی نہیں جا رہی ہے
شاہ باغ میں اعجاز نامی ایک نوجوان جو ہوٹل پر مزدوری کرتا ہے اور پانچ سو
روپے دیہاڑی لیتا ہے اسکے گھر کا بجلی بل اگست میں پندرہ ہزار روپے اور
ستمبر میں بیس ہزار روپے آیا ہے اب ایک دیہاڑی دار مزدور جو پانچ سو روپے
پورے دن میں وصول کرتا ہے وہ بیس ہزار روپے بل کہاں سے ادا کرے گا وہ اپنے
ماں باپ بہن بھائیوں کیلیئے گھی آٹا لے کر جائے گا یا بجلی کا بل ادا کرے
گا مجبورا اس کو کہیں سے ادھار ہی لینا پڑے گا اس کے بعد وہ ادھار واپس
کیسے کرے گا غریب اسی سوچ میں پڑا خود کو اندر سے جلائے گا بڑھتی مہنگائی
نے پہلے ہی غریبوں کے گھروں کے چولہوں کو ٹھنڈا کر رکھا تھا بلکہ بض گھروں
میں یہ فیصلے بھی ہو چکے ہیں کہ بچوں بڑوں کیلیئے دوپہر کا کھانا بند کر
دیا گیا ہے پنجاب حکومت غریبوں کو490روپے میں آٹے کی چھوٹی بوری فراہم کرتی
تھی اب وہ بھی 650روپے کی ہو گئی ہے غریب کہاں جائیں گے ٰوٹیلیٹی سٹورز
غریبوں کیلیئے امید کی کرن تھے اب وہاں پر بھی مہنگائی نے قبضہ جما لیا ہے
مہنگائی خوفناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے ایک تو اشیاء مہنگی دوسرا
سٹورز سٹاف کی کڑوی باتیں بھی منافع میں سننا پڑتی ہیں جن چند اشیاء پر
سبسڈی مل رہی ہے جن میں چینی گھی اور آٹا شامل ہے ان کے حصول کیلیئے بچے
بزرگ اور باپردہ خواتین کو گھنٹوں کڑی دھوپ میں لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا
ہے تب جا کر 5کلو چینی کا پیکٹ ملتا ہے ٰٹیلیٹی سٹورز بھی غریب عوام کیلیئے
امتحانی سنٹرز کی شکل اختیار کر چکے ہیں جہاں پر گھنٹوں کھڑا رہنے کے بعد
کوئی پتہ نہیں ان کو کامیابی مل پائے گی یا نہیں یعنی جب نمبر آتا ہے تو
سستی اشیاء ختم ہو جاتی ہیں عوام احتجاج کر کے بھی تھک گے ہیں کوئی بھی ان
کی دہائی کو سننے کیلیئے تیار نہیں ہے سرکاری انتظامیہ عوام کو ریلیف دینے
میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے کچھ دنوں تو مختلف مقامات پر سستا آتا
ملتا رہا ہے اب وہ بھی مہنگا کر دیا گیا ہیدکانداروں اور خریداروں کے
درمیان مہنگائی کی وجہ سے آئے روز جھگڑے ہو رہے ہیں روات سے لے کر کلرسیداں
تک مخلتف مقامات پر جعلی دودھ اور دہی فروخت ہو رہا ہے کسی کی جرآت نہیں ہے
کہ ان کو چیک کرے ہمارا کیا بنے گا غریب کہاں جائیں گے کس کے سامنے اپنی
فریاد کریں گے کوئی سننے والا نہیں ہے حکومت کو بلکل پرواہ ہی نہیں ہے غریب
عوام کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے عوام سخت زہنی کوفت میں
مبتلا ہیں غریب دن رات سوچ سوچ کر زہنی و جسمانی مریض بنتے جا رہے ہیں
پریشانی کے باعث عمریں گھٹتی جا رہی ہیں مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
ہوتا جا رہا ہے وہ وقت بہت قریب پہنچ چکا ہے جب لوگ اپنے بچوں کو مہنگائی
کے نام سے ڈرائیں گے حکومت کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ غریب عوام کی حالت
زار پر توجہ دے جنہوں نے غلطی سے ان کو ووٹ دے کر اپنا حکمران منتخب کیا ہے
غریب کیلیئے جینا اور مرنا دونوں مشکل ہو چکے ہیں اگر حکومت غریبوں کی
فریاد کو نہیں سن رہی ہے تو اﷲ پاک کی ذات ایک دن ضرور اپنی مخلوق کی سنے
گا
|