غریبوں کے خون پسینے کی کمائی کوباپ داداکی جاگیرومیراث
سمجھ کردونوں ہاتھوں سے لوٹنے اورہڑپ کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ عوام
ٹیکس نہیں دیتے توواﷲ اس ایک جملے سے پارہ ہائی بہت ہائی ہوجاتاہے۔عوام میں
تو21کروڑکاہندسہ آتاہے آپ اس دھرتی اورمٹی پرعوام میں شامل کوئی ایک شخص
اورفردایسابتائیں اوردکھائیں جوٹیکس کے بغیراس مٹی اوردھرتی پرجی
رہاہو۔۔؟یہاں کے عوام کی زندگی توٹیکس سے شروع ہوکرٹیکس پرہی تو ختم ہوتی
ہے۔ہسپتال سے قبراورزندگی سے موت تک صرف ٹیکس ہی ٹیکس توہے۔ٹیکس کے معاملے
میں تویہاں بے گناہ اورگناہ گارمیں تفریق ہی کوئی نہیں۔گناہ گارکیا۔؟یہاں
توتہجدگزاراورنمازی بھی ٹیکس کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں ۔اس ملک میں
21کروڑعوام کوتوان گناہوں کی سزابھی مل رہی ہے جوگناہ انہوں نے کبھی کئے ہی
نہیں۔کیااس ملک میں قائم مساجداوردیگرعبادت گاہوں میں عبادت کے لئے جانے
والے حاجی اورنمازی کوئی ٹی وی دیکھتے ہیں یاکیاان مساجداورعبادت گاہوں میں
ٹی وی نام کی کوئی چیزبھی ہے۔؟اس کے باوجودکراچی سے گلگت اورواہگہ سے مکران
تک عوام مفت میں ٹی وی فیس والاگناہ اپنے سرلے رہے ہیں۔مساجداورعبادت گاہوں
کے بجلی بلزمیں ٹی وی فیس یہ اصل میں ٹیکس ہی توہے۔اس کوبھی چھوڑیں کیاعوام
ماچس کی جوڈبی اورپیناڈول کی جوگولی لیتے ہیں کیااس پرکوئی ٹیکس
نہیں۔؟کیاعوام صابن کی ایک ٹکی اورسگریٹ کی ایک چھوٹی سی ڈبی پرٹیکس نہیں
دیتے۔؟اس ملک میں توٹیکس کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں۔زمین سے پتھرہٹاؤیاکوئی
پتہ ہلاؤتواس پربھی ٹیکس۔چندروزپہلے ایک دوست نے اسلام آبادکے کسی ہوٹل
کابل بھیجا،اس بل میں پانی کی چھوٹی سی بوتل سے لیکرروٹی تک ہرچیزکے نرخ
وریٹ تو ڈبل کیا۔؟ٹرپل سے بھی آگے تھے ہی لیکن ساتھ اس بل میں جی ایس ٹی کے
نام سے باالکل الگ کوئی ساڑھے تین ہزارروپے بھی لگے تھے۔جس ملک میں کھانے
پربھی ہزاروں روپے ٹیکس ہووہاں کے عوام کے بارے میں کیسے یہ کہاجاسکتاہے کہ
عوام ٹیکس نہیں دیتے۔یہ جوٹول پلازوں پرگھنٹوں گاڑیاں رکتی ہیں
اورہرڈرائیورآتے جاتے جوپیسے دیتاہے کیا یہ ٹیکس نہیں۔؟شناختی
کارڈاورپاسپورٹ بنانے کے لئے ہفتوں اورمہینوں خواری کے ساتھ عوام سے جوپیسے
بٹورے جاتے ہیں کیایہ بھی ٹیکس نہیں۔؟بجلی اورگیس کے بلز میں جوسوسواقسام
کے پیسے لگائے جاتے ہیں کیاوہ بھی ٹیکس نہیں۔؟پانچ ہزارکاجوموبائل عوام
کودس ہزارمیں خریدناپڑتاہے کیاوہ بھی ٹیکس سے خالی ہے۔؟موبائل
کارڈپرجوکٹوتی کرکے تھوڑاسابیلنس موبائل میں بھیجاجاتاہے کیا اس کٹوتی
کانام بھی ٹیکس نہیں۔؟ پراپرٹی کے لین دین،پٹرول ،منرل واٹر،کوک،سپرائٹ،
پیپسی،ادویات،ہاؤس ٹیکس،نکاح نامہ رجسٹرڈ،فارم ب،ڈرائیونگ واسلحہ لائسنس،
برتھ وڈیتھ سرٹیفکیٹ اورجوتے وکپڑوں کی خریداری پرجوجی ایس ٹی اورغنڈہ ٹیکس
کے نام پرعوام کوجوٹیکے لگائے جاتے ہیں کیااسی کانام ٹیکس نہیں۔؟نیلم وچیلم
سرچارج سمیت ایک ایک چیزپردرجنوں وسینکڑوں سرچارجزکانام بھی اگرٹیکس نہیں
توپھراس ٹیکس پرایک نہیں ہزاربارلعنت ہو۔اس ملک میں عوام کے لئے توتعلیم
،صحت سمیت بنیادی سہولیات وضروریات بھی فری نہیں۔یہاں سرکاری
سکولز،کالجزاوریونیورسٹیوں میں تعلیم کے لئے بھی قارون کاخزانہ چاہئیے
ہوتاہے۔یہاں توجب ایک غریب گھرسے نکلتاہے تواس پرٹیکس لگنے کاسلسلہ شروع
ہوجاتاہے۔وہ غریب زمینداراورکسان جواپناخون پسینہ بہاکراپنی زمینوں سے اپنے
لئے کچھ حاصل کرتاہے وہی زمینداراورکسان جب منڈی جاتاہے تواس غریب کوبھی
ٹیکس کاٹیکہ لگائے بغیرمعاف نہیں کیاجاتا۔ گاڑیوں کے ٹوکن اورلائسنس رینیول
فیسزتوالگ یہاں توعوام سے گھراوردکانوں کے ٹیکسزبھی پابندی کے ساتھ وصول
کئے جاتے ہیں۔ اس ملک میں عوام جب تک ٹیکس نہ دے اس وقت تک
بجلی،گیس،ٹرانسپورٹ،ہسپتال اوردیگرسہولیات کا استعمال کیا۔؟عوام کھاناتک
بھی نہیں کھاسکتے۔یہاں توپانی کے چندگھونٹ حلق سے نیچے اتارنے کے لئے بھی
جی ایس ٹی یاجی ٹی روڈسے گزرناپڑتاہے۔گیس اوربجلی کے بلزپرٹیکسزکی کہانی
توالگ یہاں کوئی غریب جب صرف بجلی وگیس کنکشن کاارادہ کرتاہے تو اس
کااپنامیٹرگھومناشروع ہوجاتاہے۔ سرسے پاؤں تک ٹیکس میں ڈوبے عوام کے بارے
میں جویہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے۔ایسے نمونوں اورعجوبوں
کواقتداروحکومت نہیں کسی عجائب گھرمیں رکھناچاہئیے۔عجائب گھرمیں ان کے
رکھنے سے اورکچھ ہویانہ۔کم ازکم ان کودیکھ کران جیسے نمونوں اورعجوبوں کی
آنکھیں توٹھنڈی ہوں گی۔ یہ ملک عوام کے ٹیکس پرچلتاہے یانہیں لیکن ان کرپٹ
سیاستدانوں اورہردورکے ظالم حکمرانوں کے شب وروزآج بھی عوام کے انہی ٹیکس
کے پیسوں پرگزررہے ہیں۔خون پسینہ عوام بہاتے ہیں،محنت مزدوری عوام کرتے
ہیں،بھوک،افلاس اورفاقے عوام برداشت کرتے ہیں لیکن ان کے ہی ٹیکس کے پیسوں
پرعیاشیاں اورمزے یہی سیاستدان اورحکمران کرتے ہیں۔عوام کے ٹیکس کے پیسوں
پرپلنے والے سیاستدانوں،حکمرانوں اور افسروں کویہ زیب نہیں دیتاکہ وہ عوام
کے بارے میں ہی کہیں کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے۔عوام اگرٹیکس نہ دیتے تویہ
سیاستدان،یہ حکمران اوریہ افسراس طرح موج مستیاں اورمزے نہ کرتے۔عوام توسال
دونہیں بلکہ سالوں سے ٹیکس دے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ عوام کواس ٹیکس کے
بدلے میں کیاملا۔؟یااب کیامل رہاہے۔؟کیااس ملک میں عوام کے لئے صحت،تعلیم
اورپانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات اورسہولیات مفت وفری ہیں۔؟تعلیم وصحت کی
مفت سہولیات تودورعوام توگھرکے نلکوں میں آنے والے پانی کے بھی پیسے دیتے
ہیں۔عوام تواس جرم اورگناہ کے بھی پیسے وٹیکس دیتے ہیں جوانہوں نے کئے ہی
نہیں ہوتے۔اس ملک کے بدقسمت عوام کی ٹیکس سے شروع ہونے والی زندگی کفن دفن
اورقبرکے ٹیکس پرجاکرختم ہوتی ہے،برتھ سرٹیفکیٹ سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ تک اس ملک
کے ایک ایک شخص اورایک ایک فردکا پوراسفرٹیکس ہی ٹیکس کے سائے میں گزرتاہے
لیکن پھربھی ایک دونہیں بہت سے نادان یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ عوام ٹیکس
نہیں دیتے۔کیاسچ میں عوام ٹیکس نہیں دیتے۔؟اگرواقعی عوام ٹیکس نہیں دے رہے
توپھریہ سیاستدان،یہ حکمران اوریہ افسراس غریب ملک میں بادشاہ بن کرکیسے جی
رہے ہیں۔؟
|