ملک کی کئی ریاستوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے
دفاتر پر این آئی اے اور ای ڈی وغیرہ کے چھاپے ، اس تنظیم کے سینکڑوں
عہدیداروں ،ممبران کی گرفتاری ، اتر پردیش میں اسلامی مدارس کے سروے، آسام
میں اسلامی مدرسوں پر چلنے والے بلڈوزر ، نصاب تعلیم میں تبدیلیاں،
مسلمانوں کے نام پر موجود شہروں اور دیگر عمارتوں کے ناموں کی تبدیلی کے
منصوبے کے ساتھ ساتھ ریاست بہار میں بی جے پی کو نتیش کمار کے ذریعہ دئے
گئے جھٹکا اور آر جے ڈی و کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کئے جانے کا
قومی سطح پر خیر مقدم ، نتیش کمار کا 2024ء کے عام انتخاب میں تمام سیکولر
پارٹیوں کے ساتھ مل کر بی جے پی کو پچاس سیٹوں پر محدود کئے جانے کا بیان ،
نتیش کمار کا ملک کی مختلف ریاستوں کے وزیر اعلیٰ اور سرکردہ سیاسی رہنماؤں
سے ملاقات اور ان ملاقاتوں میں گرم جوشی ، سماج،سیاست اور صحافت کو زہر
آلود کئے جانے والوں کے خلاف محاذ آرا ئی ، کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا
میں زبردست عوامی حمایت ،بڑھتی مہنگائی ، بے روزگاری اور تیزی سے گرتی ملک
کی معیشت کے خلاف بڑھتے احتجاج وغیرہ جیسی اہم خبروں کے درمیان اچانک سامنے
آنے والی دو خبروں نے نہ صرف ملک کے مسلمانوں کو بلکہ ان تمام لوگوں کو جو
آئین ،جمہوریت ، سیکولرازم اور ملک کی سا لمیت پر یقین رکھتے ہیں ،انھیں
چونکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پہلی خبر یہ ہے کہ گزشتہ 22؍ اگست کو دہلی میں واقع آر ایس ایس کے دفتر میں
شاہد صدیقی (سابق راجیہ سبھا ممبر ، اور ہفت روزہ اخبار ’ نئی دنیا‘ کے
مدیر)، نجیب جنگ ( سابق لفٹننٹ گورنر ، دہلی ) ، ایس وائی قریشی ( سابق چیف
الیکشن کمشنر ) ، ضمیر الدین شاہ ( سابق وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی ) اور سعید شیروانی(تاجر) جیسی شخصیات نے آر ایس ایس کے سربراہ
موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی ۔ان شخصیتوں نے موہن بھاگوت سے ملنے سے قبل
اور نہ ہی ملنے کے بعد ایسا کوئی بیان دیا تھا کہ یہ لوگ ملک میں بڑھتی
فرقہ پرستی ، تشدد، مذہبی منافرت ، عدم رواداری ،مسلمانوں پر مسلسل ہورہے
ظلم و ستم پر بہت فکر مند ہیں یا تھے اور ان مسائل کے تدارک کے لئے آر ایس
ایس کے چیف سے ملنے گئے تھے یا مل کر آئے ہیں ۔شاہد صدیقی اور نجیب جنگ کے
مطابق اگر ان کی موہن بھاگوت سے ملاقات ملک میں فرقہ وارانہ خیر سگالی اور
ہندو مسلم کے درمیان بڑھتی دوری ختم کرنے کے عزم کے ساتھ تھی تو پھر پورے
ایک ماہ تک اتنی خاموشی کیوں چھائی رہی ؟ ذرائع ابلاغ اور گودی میڈیا تک کو
اس اہم ملاقات کی بھنک تک نہیں لگی ۔ اب جب کہ ملاقات کی خبر طشت از بام ہو
گئی تب چند باتوں کو تراش خراش کر پیش کی جا رہی ہے ۔ شاہد صدیقی کو پورے
آٹھ برسوں بعد یہ خیال آیا کہ ’’ہمیں غلط فہمی کو دور کرنا چاہئے تاکہ
ماحول اچھا ہو سکے ‘‘ ۔ حالانکہ اسی طرح دلوں کے دروازے کھولنے اور ماحول
اچھا بنائے رکھنے کی توقع کے ساتھ وہ 2014 ء میں ہونے والے عام انتخابات سے
قبل احمد آباد جا کر نریندر مودی سے ایک انٹر ویو لے کر بھی ظاہر کی تھی
۔جس کے تاریخی اثرات جس شدت سے ملک اور عوام کو دیکھنے کو ملے، یہ بتانے کی
ضرورت نہیں ہے ۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ مودی سے لئے گئے شاہد صدیقی کے
سابقہ انٹرویو کی اشاعت کے بعد اس زمانے میں بھی طوفان اٹھا تھا ۔
اب جب کہ آر ایس ایس اور مودی حکومت کو اس امر کا شدت سے احساس ہو رہا ہے
کہ ترقی و خوشحالی کے لئے ان لوگوں نے لفاظی کے سوا کچھ نہیں کیا اور ملک
کے عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے ۔ حکومت کے خلاف غم و غصّہ اور
احتجاج کی بازگشت تیز ہوتی جا رہی ہے اور حذب مخالف پارٹیاں دن بہ دن بہت
تیزی سے متحد ہوتی جا رہی ہیں اور انھیں عوام کی زبردست حمایت بھی مل رہی
ہے۔ ایسے حالات میں 2024 ء میں بی جے پی اورا ن کی حلیف پارٹیوں کی کامیابی
مشکوک ہوتی جا رہی ہے ۔ موہن بھاگوت سے ملنے والے یہ پانچ مسلم ’’دانشوروں
‘‘ نہ جانے یہ کیسے باور کر لیا کہ جس آر ایس ایس اور بی جے پی نے ملک کو
ہندو راشٹر بنانے کے لئے ملک کے مسلمانوں پر جتنے ظلم و ستم کئے ہیں ۔ ان
کے خلاف ان آٹھ برسوں میں نہ جانے کتنی بار ملک کے سینکڑوں باوقار سیکولر
شخصیات کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور بیرون ممالک کی سرکردہ شخصیات اور
تنظیموں کے ذریعہ ملک میں مذہبی منافرت اور تشدد پر قد غن لگانے نیز ملک کی
شاندار انسانی اور جمہوری قدروں کو پامالی سے بچانے اور ملک میں امن وامان
قائم کئے جانے کی گزارشات کو ٹھکرا چکی ہے۔ وہ آر ایس ایس ان پانچ دانشوروں
کی خیر سگالی کی بات مان لے گی ؟۔یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ آر ایس ایس کا
اپنا خاص ایجنڈا یعنی مسلم مکت بھارت یا ہندو راشٹر بنائے جانے پر تیزی سے
گامزن ہے ۔ آر ایس ایس کے بانیوں میں گرو گوالکر اپنی ایک کتاب ’وی آر آور
نیشن ہُڈ ڈیفائنڈ ‘ میں واضح کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو رہنے
کی اجازت ہوگی مگر ہماری شرطوں پر ۔ ایسے مسلمان کو ہندو محمدیہ کہا جائے
گا ۔ اس ضمن میں موہن بھاگوت کا بھی نظریہ بہت صاف ہے کہ ہندوستان میں رہنے
والے سارے لوگوں کا ڈی این اے ایک ہے اور یہاں رہنے والے سارے لوگ ہندو
ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کی اپنے قیام کے روز اوّل سے آئیڈیالوجی
ہندوتوا پر مبنی ہے ۔ ان کے مطابق ہندو مذہب کے سوا دوسرے تمام مذاہب غیر
ملکی ہیں ۔ یاد کیجئے کہ بابری مسجد کے ملبہ پررام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے
ہوئے موہن بھاگوت نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ ’آج محض ایک مندر کی
تعمیر کی بنیاد نہیں رکھی جا رہی ہے بلکہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں بدلنے
کا آغاز ہے ۔‘ ان تمام باتوں سے بہت ہی واضح پیغام کے بعد بھی ہمارے یہ
پانچ ’دانشور‘ کن مقصد اور توقع پر موہن بھاگوت سے ملنے گئے تھے ۔ یہ بڑا
اہم سوال ہے ۔
چند لمحوں کے لئے یہ مان لیا جائے کہ ان دانشوروں نے ملک کے مسلمانوں کی
محبت میں موہن بھاگوت سے ملنے گئے تھے اور بقول نجیب جنگ '' A complete
need for reconcilation between Hindus and Muslims..." یعنی ملک کے ہندوؤں
اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی ضرورت ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
مفاہمت کن شرطوں اور مدعوں پر ممکن ہے ؟ جس انتہا پسند تنظیم نے 97 سال کی
تاریخ میں کبھی بھی ہندو مسلم مفاہمت کی بات نہیں کی اور ہمیشہ مسلم مکت
بھارت اور ہندو راشٹر جیسے ایجنڈوں پر نہ صرف قائم رہی اور اس وقت جب کہ وہ
اقتدار میں ہے وہ اپنے خاص ایجنڈے سے منکر کیوں ہو جائے گی ۔ تعجب ہے کہ ان
’’دانشوروں ‘‘ کو اتنی موٹی سی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ دانشور تو وہ ہوتا
ہے جو نوشتۂ دیوار پڑھ لیتا ہے ۔
یہ دانشور واقعی ملک کے مسلمانوں کے اتنے ہی بہی خواہ اور ہمدرد ہیں تو جب
دادری کے اخلاق احمد سے لے کر جھارکھنڈ کے تبریز انصاری اور میوات کے آصف
جیسے سینکڑوں معصوم اور بے گناہوں کو حیوانیت کے ساتھ تڑپا تڑپا کر قتل کیا
گیا ، کٹھوعہ کی معصوم ننھی سی بچی آصفہ کا اجتمائی زنا کیا گیا اور اسے
بھی درندوں نے بڑی بے رحمی سے ہلاک کیا تھا اور ان درندوں کی حمایت میں بی
جے پی نے جلوس نکالاتھا ، اہانت رسولﷺ کی مرتکب نپور شرما کو گرفتار کئے
جانے کے بجائے اس کی حفاظت کے لئے اس کی سیکوریٹی بڑھائی گئی ،بلقیس بانو
کے زانیوں اور اس کے رشتہ داروں کے قاتلوں کو’’ مہذب ‘‘قرار دے کر قید خانے
سے آزاد کیا گیا ، مسلمانوں اور مسلمانوں کی حمایت میں بولنے اور لکھنے
والوں کو جیلوں میں مسلسل بھرا جا رہا ہے ،شہریت قانون ،گھر واپسی ،لو جہاد
، وندے ماترم ، گؤ رکچھا ، تبدیلیٔ مذہب ، مساجد ، اذان ، نماز ، حجاب ،
حلال جیسے مدعوں پر ملک کے مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا گیا ۔ ایسے سینکڑوں
نہیں ہزاروں واقعات اور سانحات ہیں جو ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے نہ
صرف تشویشناک بلکہ شرمناک ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ان واقعات اورسانحات پر ان
دانشوروں نے کبھی کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا نہ ہی کبھی ان کے تدارک
کے لئے کسی طرح کا عملی ثبوت پیش کیا اور اب جب کہ 2024 ء کے عام انتخابات
کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں ۔ حذب مخالف کی صفوں میں اتحاد کی کوششیں تیز
اور کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں ۔ایسے میں بی جے پی کو ایک بار پھر اقتدار
میں لانے کے لئے آر ایس ایس کئی طرح کی حکمت عملی کے تحت کئی منصوبے بنا نے
میں مصروف ہے ۔ایسے مشکل وقت میں ماضی کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے یہ
دانشور حذب مخالف سیکولر پارٹیوں کے اتحاد میں اپنی سرگرمی کا مظاہرہ کرتے
تو بات سمجھ میں آتی ۔ کہنے کو تو ہمارے درمیان عارف محمد خاں ، سید شہنواز
حسین ، مختار عباس نقوی،ایم جے اکبر وغیرہ جیسے بہت سارے نام نہا دمسلمان
بھی ہیں ، لیکن ان کا ملک کے مسلمانوں کے تئیں کیا رویۂ اور کردار ہے ، یہ
بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ اسی قبیل کے ایک مسلمان ڈاکٹر امام عمر احمد
الیاسی ،جو دہلی کے کاستوربا گاندھی مارگ مسجد کے امام ہونے کے ساتھ ساتھ
اکھِل بھارتیہ امام سنگھ کے سربراہ ہیں ۔ جن کے خاندان سے آر ایس ایس کے
سابق چیف کے ایس سدرشن سے پرانے اور دیرینہ تعلقات ہیں اور ان کے خاندان کا
ایک فرد اپنی غیر مسلم بیوی کے قتل کے الزام میں ملوث بھی ہے ۔ وہ بھی ان
دنوں سرخیوں میں ہیں ۔ ان کے ماضی سے جو لوگ واقف ہیں ،وہ ان کے ’’حال‘‘ پر
متعجب نہیں ہیں کہ انھوں نے اپنی مسجد میں موہن بھاگوت ، اندریش ،رام لال
اور کرشن گوپال کو مدعو کیا ، ان کا والہانہ استقبال کیا اور اعلانیہ طور
پر موہن بھاگوت کو ’راشٹر پتا‘ کے خطاب سے نواز کر انھیں خوش کرنے کی ممکنہ
کوشش بھی کی ۔ اس لئے ایسے خود ساختہ امام سے ملک کے مسلمانوں کے رستے
زخموں پر مرہم رکھنے کی توقع نہ ہی کبھی تھی اور نہ ہے۔ اب تو یہ عالم ہے
کہ آر ایس ایس کی بے شمار ذیلی تنظیموں میں کئی ایسی تنظیمیں ہیں ،جو
مسلمانوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہیں اور افسوسناک پہلو یہ
ہے کہ بڑی تعداد میں بے روزگار مسلم نوجوان پیسے اور سیاسی پہنچ کے لئے
شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔یہ نوجوان اپنے تمام تر مذہبی ، تہذیبی ،انسانی
اقدار کو فراموش کرکے اپنے زمینی آقاوں کو خوش کرنے میں منھمک ہیں ۔ آر ایس
ایس کی ایسی ایک ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ بھی ہے ، جس کے سربراہ اندریش
ہیں ۔ جو ملک کے مسلمانوں کو بی جے پی میں شامل کئے جانے کی کوششوں میں ہمہ
وقت مصروف رہتے ہیں ۔ اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے ضلع سہارن
پور کے کنوینر کوئی مشرف علی ہیں ، جنھوں نے حال ہی میں اتر پردیش کے مذہبی
مدرسوں کے خلاف زبردست زہر اگلا ہے اور سوال کھڑا کیا ہے کہ اس ریاست میں
مدرسوں کو چلانے کے لئے پیسے کہاں سے آتے ہیں ۔اسلامی مدارس میں کٹر واد کی
تعلیم دی جاتی ہے ، یہاں اورنگ زیب اور محمد بن قاسم جیسے حملہ آوروں ،
لُٹیروں اور ظالموں کو ہیرو بنا کر طلبا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔ ان
مدارس میں دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نفرت کی تعلیم دیتے ہیں ۔اس مشرف علی کا
یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہے اور پانچ وقت کا نمازی
بھی ہے ۔ اس مشرف علی کے سلسلے میں کیا کہا جائے سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔
شاید ایسا ہی کوئی مسلمان علّامہ اقبال کے تصور میں رہا ہوگا ، جس کے بارے
میں انھوں نے کہا تھا کہ
وضع میں تم نصاریٰ ٗ تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں ٗ جنھیں دیکھ کر
شرمائیں یہود
اب اس پورے منظر نامہ کو سامنے رکھا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ
دانشوروں کا موہن بھاگوت سے ملنا ، بھاگوت کا ’’ امام‘‘ سے ملنا وغیرہ کچھ
یوں ہی نہیں ،جس کی پردہ داری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 2024 ء کے عام انتخابات
کا یہ سب حصّہ ہے اور مسلمانوں سے بظاہر اور وقتی قربت بڑھانا ایک منظم اور
منصوبہ بند کوشش کا ایک حصہ ہے ، ٹھیک ویسے ہی جیسے 2004 ء میں اٹل بہاری
واجپئی کے دور اقتدار میں اگلے عام انتخابات میں کامیابی کے لئے شائننگ
انڈیا کا دلفریب نعرہ دے کر کروڑوں روپئے خرچ کر لوگوں کو لُبھانے کی کوشش
کی گئی تھی اور بڑے بڑے دانشوروں کو شائننگ کے دام فریب میں لانے کی سعی
ہوئی تھی اور افسوس کہ اس دام فریب کے سید احمد بخاری ، مولانا وحید ا لدین
خان ، بشیر بدر وغیرہ جیسے لوگ شکار ہوکر کھل کر بی جے پی کی حمایت میں
سامنے آئے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت ملک کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی
بصیرت کا ثبوت دیا تھا اور شائننگ انڈیا کے جھانسے میں نہیں آئے تھے جس کی
وجہ کر بی جے پی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہم اس حقیقت سے انکار
نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو ہر انتخاب
میں Decisive قوت کی حامل ہے ، بشرطیکہ اسے مختلف خانوں میں منقسم نہیں کیا
جائے، جس کی کوشش بہت تیزی سے ہمارے درمیان کے نام نہاد مسلم رہنما اور بی
جے پی کے اشاروں پر ڈانس کرنے والی سیاسی پارٹیاں کر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے
ملک کے مسلمانوں پر ان دنوں طرح طرح سے ڈورے ڈالے جا رہے ہیں ٗ تاکہ بی جے
پی کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے ۔ لیکن یہ وقت ہے مسلمانوں کی حکمت عملی
اور سیاسی بصیرت کے ساتھ لائحہ عمل تیار کرنے کی اور اپنی صفوں میں چھپے
دوست نما دشمنوں کی پہچان اور نجات حاصل کرنے کی ۔
٭٭٭٭٭
|