آج 12 ربیع الاول 1444ﮪ بروز اتوار بتاریخ19اکتوبر 2022ء
کو دنیا کی ایک ایسی شخصیت کی پیدائش کا دن ہے۔جس کو دنیا آج محمدﷺ کے نام
سے جانتی ہے حضرت محمدﷺ کی پیدائش 570 عیسویمیں مکہ شہر میں پیدا
ہوئے۔مختصرا یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیا کام کیا جو آج 1400(چودہ سو سال)
بعد بھی ان کا نام باقی ہے۔وہ ہے انقلاب جس کے ذریعے انہوں نے بنی نوع
انسان کو تباہی سے نکال کر ایک ایسی راہ پہ لگا دیا جو انسان کی اصل قدرتی
نفسیاتی ,حقیقی اور اصل راہ ہے۔جس راہ کے زریعے برائی سے نکال کر فلاح پر
لگایا اور ایسے افراد تیار کیے جو ایسے کارنامے انجام دیے گئے جن کی مثال
آج تک دور میں ملنا ممکن نہیں۔دنیا آپﷺ کو محسن انسانیت کے نام سے یاد کرتی
ہے اور آج کے دور میں دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب
)مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب 100 عظیم لوگ(
((The Great 100 People Book by Michael H.Hart
میں آپ کو دنیا کے سب سے بڑے رہنما کے طور پر اول درجہ دیا گیا ہے برعکس اس
بات کے کہ یہ نہیں ہے کہ ہم اُن کی تعریف کرنے پر ہےہی مانیں گے کہ ہمارے
نبی عظیم رہنما ہیں ہم ان کے محتاج نہیں بس بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپﷺ کا
کام جو وہ سر انجام دیں گۓ اتنا اہم ،ضروری اور کار آمد تھا کہ انسان ششدر
رہ جاتا ہے کہ یہ کوئی عظیم انسان ہی کرسکتا ہے یہ کسی عام انسان کے بس کی
بات نہیں تو واقعی ہی میں مسلمان یہ جانتا ہے کہ وہ عظیم انسان کون ہے؟اور
یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے ہاں ان کا کیا مقام ہے مسلمانوں کو ان کے نبی
حضرت محمد مصطفیﷺ خاتم النبیین ان کو ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ان پر
اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں ۔آپﷺ کو اللہ تعالی نے اپنانبی بنا کر
اُس دور جہالت میں رحمت بنا کر بھیجاکہ ڈوبتی انسانی کشتی کو سہارا دے کر
اس کو کنارے پر لگایا جا سکے آپ نے محض چند سالوں میں ایسا انقلاب برپا کیا
کہ اس دور کی عالمی طاقتوں کو اِن کے پیروکاروں نے اپنے قدموں میں روند کر
رکھ دِیں اور انسانیت کو مظلومیت سے بچا کر اسلام کے سنہری نظام میں امان
دی ۔ ایسے افراد پیدا کیے کہ وہ جہاں جاتے تو لوگ انکے ہی ہوکر رہ جاتے جب
کسی علاقے سے مسلمان کسی علاقے کو چھوڑ کرحکومت اُن کے حوالے کرنے کے بعد
لوٹ کر جا رہے تھے تو وہاں کے لوگ جھولیا ں اُٹھا اُٹھا کر خدا سے فریاد
کرتے تھے کہ اے خدا اِن کو پھر سے بھیج دے۔ ہمارے اپنے آپ پر بہت ظلم کرتے
تھے اور اب پھر کریں گے۔ ایسے افراد جنہوں نے زندگی کے ہر شعبہ(فیلڈ) میں
ایسے کارنامے انجام دیے جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وماارسلناکا
الارحمت اللعالمین
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا آپ کے
پیروکاروں نے خواہ وہ ریاضی ہو ،جنگ ہو، فلسفہ ہو، فلکیات ہو، سائنس ہو نیز
ہر طرح کی مہمات میں ایسے کارنامے انجام دیے جو آج تک کوئی نہ کر سکا آپ کے
پیروکاروں نے ثابت کیا کہ آپ کو واقعتاً رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا آپ کی
وہ ہر بات کی پیروی کرتے تھے اور اپنی زندگی کا واحد مقصد رضائے الہی کا
حصول رکھتے۔وہ وما ارسلناک اللہ رحمت اللعالمین کی عملی تصویر تھے۔اگر اس
بات کو آج کے تناظر میں دیکھا جائے کہ وہ امت جس کے پاس اتنا عظیم رہبر و
رہنما موجود ہے وہ پستی کا شکار کیوں ہے تو جواب آسان ہے اور آج کے ہر
مسلمان کو معلوم بھی ہے کے تباہیِ امت کا اصل سبب دین سے بغاوت وہ انحراف
اور اپنے نبی کی اطاعت نہ کرنا ہے _
فرمان تعالی ہے کہ
ترجمہ:" جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی وہ فلاح پا گیا"۔
اور ایک اور جگہ فرمایا گیا کہ ترجمہ "بہترین ہدایت محمد ﷺ کی ہدایت ہے"
اور اللہ تعالی نے بھی کتاب ہدایت قرآن مجید نازل کی تاکہ ہم فلاح پا سکیں
اگر ہم ان سے انحراف کر چکنے کے بعد فلاح کی تلاش میں رہے تو ہم بھٹکتے ہی
رہیں گے اور ہر وہ دروازہ کھٹکھٹائیں گے جو یہ کہیے گا کہ فلاح میرے پاس ہے
اور آج ہم بحیثیت امت یہی کر رہے ہیں ہمیں مصطفوی بننا ہو گا۔کردار کے ساتھ
گفتار بھی مصطفوی کرنا ہوگا اگر ہم فلاح چاہتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ ہم
بحیثیت مسلم کیا کریں؟ کہاں سے آغاز کریں ؟ کہ ہم اپنی ملت کی تقدیر بدل
سکیں ۔ تو سب سے پہلے ہمیں اپنے رہبر و رہنما نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ کو اپنی
زندگی میں لانا ہوگا۔آپ ﷺ کی سیرت روشن کتاب کی طرح ہے جہاں سے ہم ہر
(Feild) اور شعبہ ہائے زندگی کے ہر میدان کے لیے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں
اگر آپ طبیب (ڈاکٹر) بننا چاہتے ہیں تو آپ کو آپ ﷺ کی ذات کو بطور ماہر
طبیب جیسی صفات کا حامل پائینگے۔ماہر نفسیات دان چاہیے تم بطور ماہر نفسیات
دان، بطور وکیل ،بطور منصف،بطور تاجر سے بطور استاد بطور سپہ سالار بطور
حکمران،بطور ریاستی سربراہ ، بطور حکمران ،بطور یہ ہیت دان (سائنس دان) نیز
ہر زندگی کی (Feild) شعبہ کے لئے جس میں آپ کام کرنا چاہتے ہیں آپ ﷺ کی
سیرت سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔بطور ہم مسلمان ہم اپنی کتاب قرآن مجید
کو بھی سمجھنا چاہے تو بغیر سیرت محمد ﷺ کے علم کے نہیں سمجھ سکتے آپ ﷺ کی
سیرت کی بہترین کتاب قرآن ہی ہے لیکن ہمیں کم از کم 10 سیرت کی کتابیں
پڑھنی چاہیے اور پھر سیرت کے ذریعے اپنے کردار و گفتار اور اعمال کو بدل کر
آپ ﷺ کے امتی ہونے کی صحیح دعویدار ہو سکتے ہیں ہمارا شمار آپ ﷺ کے ماننے
والوں میں تب ہوگا جب ہم
وماارسلناک الا رحمت اللعالمین
کی عملی تصویر پیش کرسکے۔بس سیرت محمد ﷺ کو اپناؤ اور دین کا پیغام لے کر
اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ۔دین کا پیغام یہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں دین
ایک مکمل سسٹم نظام کا نام ہے اس کے قیام کے بغیر ہم دنیا پر چھا جانے کا
خواب پایا تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے ہمیں اپنی زندگی کے ہر میدان میں نبی ﷺ
کا کردار لانا ہوگا عمل کرنا ہوگا ۔ ہمیں ﷺ کے صحابہٌ اور بعد کے پر کاروں
کی طرف عمل کرنا ہو گا ہمیں حضرت ابو بکر صدیق( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی سی
صداقت ،حضرت عمر (رضی اللہ تعالی عنہ )سی عدالت حضرت عثمان (رضی اللہ تعالی
عنہ) جیسی دولت جو انہوں نے اللہ کے دین کے لیے وقف کردی حضرت علی (رضی
اللہ تعالی عنہ) جیسی شجاعت وعلم پیدا کرنا ہوگا الرازی، ابن سینا،الکندی
،الہیثم ،الجزری ،ابن خلدون اور امام غزالی وغیرہ جیسی خدمات انجام دینا
ہوں گی اگر ہم بطور امت چھانا چاہتے ہیں تو وحدت پیدا کرنا ہوگی مسلکی
اختلافات کو ختم کرنا ہوگا تب ہی آپ کا خواب ہوگا جس کی تعبیر کے لیے آپ دن
رات خرچ کریں گے۔ کیونکہ دین کا غلبہ کرنا ہر مسلمان کی اولین ترجیح اور
فرض ہے_
اقبال فرماتے وحدت امت کیلۂے:
فریاد از افرنگ و دلآویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
اور دوسری جگہ فرمایا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
اس لیے اب ہم اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے سچے دل سے عہد کرتے ہیں
کہ ہم اقامت دین کے لئے خود کو تیار کریں گے خود کو ہر طرح سے قابل بنائیں
گے
واماارسلنک الا رحمۃ اللعالمین
کی تصویر بنیں گے۔اور اللہ کے اس قول کو پھر سے پوری دنیا پر ثابت کریں گے
کہ وما ارسلناکا الا رحمت اللعالمین ۔اقامت دین کی یہ ہماری ذمہ داری ہے
ہمارے نبی ﷺ آخری ہیں اور ان کے بعد اقامت دین کی جدوجہد ہمارے ذمہ ہے۔آپ ﷺ
رحمت اللعالمین خاتم النبیین نے فرمایا
ترجمہ:"توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسےاس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں"
تو بہ کرنے اور عہد کے بعد ہم اپنے نبی ﷺ کو اپنا نبی اور اپنا رہبر و
رہنما مانتے اور اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ دوسرے رہنماؤں سے بڑھ کر ہمارے
لئے ہمارے نبی ﷺ ہوں گے جو کہ مومن کی بنیادی صفت ہے کہ "
مومن کے لئے نبی ﷺ ان کے لیے ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں ۔
ہر مسلمان کا ماننا یہ ہی ہے کہ میرے نبی ﷺ میرے رہنما
بس ماننے سے بڑھ کر اب عملی قدم اٹھانے کا وقت آ چکا ہے اور ثابت کرنے کا
وقت آ چکا ہے ۔
واقعتاً ہی ہم اپنے نبی ﷺ کو ہی اپنا رہنما مانتے ہیں۔
اور ہم یہ عملی طور پر ثابت کریں گے کہ
" میرے نبی ﷺ میرے رہنما "
"وما ارسلنا کا الا رحمت اللعالمین"
..............….……………………………
|