آج کی ہماری شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں- جیسے ہی 'زیرو
پوانئٹ" کا نام لیا جائے ذہین میں ایک ہی شخصیت سامنے آتی ہیں وہ ہے جاوید
چودھری صاحب- آپ کا شمار پاکستان کے نامور کالم نگاروں میں ہوتا ہے- آپ نہ
صرف ایک اچھے کالم نگار، صحافی، بلکہ آپ مائنڈ چینجر،لائف ٹرینراور
موٹیویشنل سپیکر بھی ہے-
آپ کی شخصیت اور کالم لکھنا کا انداذ انتہائی متاثر کن ہے- آپ کا کالم ایک
بار پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا- آپ کے
کالم میں افسانوی انداز پایا جاتا ہے- جو پڑھنے والے کو انتہائی حد تک
متاثر کرتا ہے- اس انداز سے آپ جو بات اپنے صارفین تک پہنچانا چاہتے ہیں وہ
ان تک پہنچ جاتی ہے
آپ یکم جنوری1968 کو لالہ موسیٰ ڈسٹرکٹ گجرات میں پیدا ہوئے-آپ نے میٹرک
لالہ موسی ڈسڑکٹ گجرات سے کیا- آپ کو شروع سے ہی کتابیں پڑھنے کا تھا- آپ
کے کہنے کے مطابق آپ اپنی کتابیں بستر میں جا کر پڑھا کرتے تھے- کیوں کہ آپ
کے والدین کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ کتابیں بچوں کا ذہن خراب
کرتی ہیں-آپ کے والدین نے آپ کی کتابوں کو جلا دیا- آپ بسترمیں کتابیں رکھا
کر کم روشنی میں پڑھا کرتے تھے اسی لئے آپ کی نظر خراب ہونا شروع ھو گئی-
میٹرک کے بعد آپ نے ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن ناکام ہوگئے- پھر آپ نے
ایف اے کیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی- 1991ء میں اپنے اسلامیہ یونیورسٹی
بہاولپور سے ماس کمیونیکیشن میں ڈگری حاصل کی-
آپ ایک مستقل مزاج انسان ہیں آپ کی مستقل مزاجی آپ کی کامیابی کی سب سے بڑی
کنجی ہے - آپ کی مستقل مزاجی پر ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ ہے- آپ نوائے وقت
کے دفتر پر گئے اور وہاں پر آپ نے receptionist سے پوچھا کہ کوئی نوکری ہے-
اس نے کہا صاحب، یہاں پر کوئی نوکری نہیں ہے- آپ کے پاس ایک بیگ تھا- اس
میں ایک کتاب تھی- آپ نے اس سے پوچھا کہ میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں-تھوڑی دیر
کے لئے- اس نے کہا جی ضرور- آپ بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگے- اگلے دن آپ پھر
نوائے وقت کے دفتر پہنچے اور آپ نے پوچھا کوئی نوکری ہے- اس نے کہا نہیں-
کئی دن تک، آپ اسی طرح کرتے رہے-receptionist آپ کومجید نظامی کے پاس لے
گیا- آپ کا ٹیسٹ لیا گیا اور آپ کچھ الفاظ دیے گئے- جن کا آپ نے اردو میں
ترجمہ کرنا تھا-آپ نے ترجمہ کچھ اچھا نہ کیا- آپ وہاں سے چلے گئے- اگلے دن
آپ پھر گئے آپ سے دوبارہ ٹیسٹ لیا گیا مگر وہ بھی اچھا نہ ہوا- اگلے دن پھر
چلے گئے- انہوں نے پوچھا آپ دوبارہ پھر آگئے- آپ نے کہا میں ایک بارفارغ
آدمی ہوں- نوکری کی تلاش میں ہوں انہوں نے کہا- آپ اپنا نمبر لکھ جاؤ جیسے
کوئی نوکری آئے گی ہم آپ کو کال کر لیں گے- اگلے دن آپ پھر وہاں پہنچ گئے-
انہوں نے کہا کہ نوکری آئے گی ہم آپ کو کال کرلیں گے- آپ نے کہا، سرمیں
ہوسٹل میں رہتا ہوں اور اس کا نمبر اکثر بیزی رہتا ہے- آپ مجھے کال کریں
اور نمبر بیزی ہو اور نوکری ہاتھ سے نکل جائے- پھر آپ وہاں روزجاتے اور
وہاں پربیٹھا کرکتاب پڑھتے، اور واپس آ جاتے- یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ تک
چلتا رہا-
ایک دن انہوں نے آپ کو اندر بلایا اور ایک عظیم جرنلسٹ کوجو اس وقت نوائے
وقت کے لیے لکھتے تھے-ان کو بھی اندر بلوایا اور کہا میں جارہا ہوں مگر آپ
کو ایک ایسا ہیرا دے کرجا رہا ہو-اس کی بدولت آپ مجھے بعد میں یاد رکھیں
گے- وہ ہیرا کوئی اور نہیں جاوید چوہدری صاحب تھے-
آپ کے مطابق کامیاب کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے مستقل مزاج ہونا
ضروری ہے-
1997 میں آپ نے کالم لکھنے شروع کیے- آپ کچھ سال روزنامہ جنگ کے ساتھ منسلک
رہے- اس کے بعد آپ نے روزنامہ ایکسپریس کو جوائن کیا-" زیرو پوائنٹ" کے نام
سے اب تک کالم لکھ رہے ہیں- آپ کے ہفتے میں تین دفعہ کالم روزنامہ ایکسپریس
پر شائع ہوتے ہیں- آپ نے 2008 میں ایکسپریس پروگرام "اب تک "سے میزبانی کا
آغاز کیا- آپ کے پروگرام کا شمارمقبول ترین پروگرام میں ہوتا ہے-
آپ کی کتب میں "گئےدن کے سورج"، "کل تک" اور"زیروپوائنٹ' شامل ہیں- 1998ء
میں حکومت پاکستان نے آپ کو ایکسیلنسی ایوارڈ سے نوازا-
اللہ آپ کو صحت تندرستی اور لمبی زندگی عطا فرمائے اوردن دگنی رات چوگنی
ترقی عطا فرمائے-( آمین )
|