شانِ محمدﷺ


اہل مکہ کئی دن سے شدید قحط کاشکار تھے چند پرند بال بچے غرض ہر ذی روح بھوک پیاس سے تڑپ رہے تھے اور بار بار ملتجی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھے لیکن دعائیں قبول نہیں ہو رہی تھیں اہل مکہ شدت سے بارش کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن بارش نہیں ہو رہی تھی ۔ابنِ عسا کر جلہمہ بن عرفطہ سے ناقل ہے کہ میں مکہ آیا تو اہل مکہ شدید قحط میں مبتلا تھے ایک بولا لات و عزی بتوں کے پاس چلو ۔دوسرا بولا منات بت کے پاس چلو۔ تو کسی بوڑھے نے کہا تم کہاں الٹے جا رہے ہو حالانکہ تمھارے درمیان باقیہ ابراہیم و سلالہ اسماعیل موجود ہیں وہ بولے تمھاری مراد ابو طالب ہیں پس تمام لوگ حضرت ابو طالب کے گھر پہنچے دروازے پر دستک دی۔ ابو طالب باہر نکلے تو سب کہنے لگے ۔جنگل قحط زدہ ہو گیا ۔زندگی خطرے میں ہے چل بارش مانگ توابو طالب گھر سے نکلا تو اس کے ساتھ ایک خوبرو لڑکا تھا۔ جو گویا آفتاب تھا۔ بچہ ابرآلو د سورج معلوم ہوتا تھا، اس کے گرد اور بھی بچے تھے۔ابوطالب نے اِس بچے کو لیا اور اِس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے لگا دی اِس بچے نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور التجایہ نظروں سے دیکھا ۔اسے بچے کا آسمان کی طرف دیکھنا اور انگلی کا اشارہ کرنا تھا اشارے سے پہلے آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہیں تھا لیکن اشارے کے بعد چاروں طرف سے بادل دوڑ دوڑ کر آنے لگے ۔ایسی دھواں دار بارش ہوئی کہ وادی اور جنگل میں سیلاب آگیا آبادی اور وادی سر سبز و شاداب ہو گئے ۔اِسی بارے میں ابو طالب نے کہا ۔ترجمہ وہ خوبصورت گورے چہرے والے جن کی ذات کے وسیلہ سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے یتیموں کے ملجا ماوی اور بیواں کے محافظ ہیں یہ بچہ آمنہ کالال حضرت عبداﷲ کا بیٹا محمد ﷺ تھا۔ جو پوری انسانیت کے لیے سید عرب و عجم ، باعث ِ تخلیق کائنات ، فخر موجودات ،ساقی کوثر ، شافع محشر، محسن انسانیت سردار الانبیا ، سرور کونینؓ اور باعث نجات ہیں۔نبوت کے بعد جب قریش آپ کو ستا رہے تھے تو ابو طالب نے آپ کی شان میں یہ قصیدہ لکھا جو سیرت اِبن ہشام میں دیا ہے ۔ سرورِ دوعالم واقعی رحمت دو عالم ہیں خالقِ کائنات نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد ِ ربانی ہے ، اور ہم نے (اے رسول ) آپ کو تمام جہانوں کے لیے(سراپا) رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے سید دو جہاں کی آمد سے کسری کے محل کے کنگرے ہی نہیں ٹوٹے بلکہ ساری کی ساری بساطیں الٹ گئیں ظلم و بربریت کے علمبردار حکمرانوں نے جو انسانیت کے سینے پر بچھا رکھی تھیں وہ سارے کے سارے ظالم ہاتھ شل ہو گئے جو ہزاروں سالوں سے انسانیت کے گریبان سے الجھے ہوئے تھے ۔آپ کی حیات ِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ نا صرف امت ِ مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے ۔آپ کی اِس دنیا میں آمد ایک ایسا انقلاب عظیم تھا ۔ جس کے انتظار میں سسکتی تڑپتی انسانیت صدیوں سے ترس رہی تھی کہ کوئی عظیم مسیحا آئے اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو روشنی بخش دے ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ خالقِ بے نیاز کے پہلے آنے والے تمام انبیا مرسلین رحمت تھے مگر وہ رحمتہ للعالمین نہیں تھے وہ صرف اپنی قوم ، علاقے دور اور اپنے زمانے تک ہی محدود تھے جبکہ شہنشاہ ِ مدینہ ﷺ کی رحمت و شفقت کا دائرہ ہر عہد ، ہر زمانے ، ہر قوم اپنے پرائے تمام مخلوقات بلکہ تمام جہانوں اور دنیا اور آخرت کے لیے ہے رحمت کے اِس عظیم خزانے اور مجسم رحمت کے دربار میں اپنے پرائے ، دوست دشمن، آقا غلام ، عورت مرد، مسلم غیر مسلم ، بچے بوڑھے ، جند پرند ، انسانوں حیوانوں ، پوری کائنات اور تمام جہانوں ذرہ ذرہ حصے دار ہے ۔آپ ﷺ کا ابر رحمت ہر طبقے پر جھوم جھوم کر برسا ہے ۔آپ ﷺ کی سیرت ِ طیبہ اور اسوہ حسنہ کا وہ امتیاز ہے جس میں خدا کاکوئی بر گزیدہ پیغمبر اور رسول بھی آپ ﷺ کا شریک نہیں آپ یتیموں ، غلاموں ، بیواں ، مسکینوں ، لاچاروں ، بے سہاروں ، بے آسروں کا ٹھنڈا آسمان ہیں سب سے بڑے غم خوار ہیں انسانوں کو ہر طبقہ خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا، جوان ہو یا بوڑھا ،عورت ہو یا مرد، کمزور ہو یا طاقتور یا معذور سب آپ ﷺکے احسان مند ہیں ۔آپ ﷺ کی شان رحمت سب پر محیط ہے ۔ نبوت سے پہلے کی زندگی میں بھی آپ ﷺ کے مزاج میں مظلوموں کی داد رسی خدمت خلق اور دکھی انسانوں کی مدد تھی آپ ﷺ کا دربار رحمت و شفقت کا مظہر تھا یہاں اپنے پرائے سب ہی فیض یاب ہوتے تھے کوئی بے سہارا ، بے آسرا اور مظلوم ایسا نہ تھا جسے آپ ﷺ کی شان وحمت سے ہمدردی نہ ملی ہو آپ ﷺ کسی صحرا میں چشمے یا حوض کی مانند تھے جس پر کوئی خالی جام لے کر ٹوٹ پڑا اور بھر بھر کر اتنا پیا کہ صدیوں کی پیاس بجھ گئی ۔یقینا آپ ﷺکی ذات حوض کوثر کی مانند ہے جہاں سے اپنے پرائے سب فیض یاب ہو سکتے ہیں ۔ام المومنین سیدہ عائشہ آپ ؓ کے اخلاق اورشانِ رحمت کے متعلق فرماتی ہیں ۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اگر کسی نے آپ ﷺ پر ظلم و زیادتی کی ہو تو آپ ﷺ نے اس سے انتقام لیا ہو، جب تک کوئی شخص اﷲ کی حدود میں سے کسی حد کو نہ توڑتا نبی کریم ﷺ نے جہا د فی سبیل اﷲ کے سوا کبھی کسی پر ہا تھ نہیں اٹھا یا نہ کسی خادم کو مارا نہ کسی عورت کو۔دشمن کے حق میں بد دعا کرنا انسانی فطرت ہے لیکن آپ ﷺ نے کبھی اپنے بد ترین دشمن کو بھی بد دعا نہیں دی ہجرت سے پہلے مکہ کے مشرکین نے آپ ﷺ پر ظلم کی انتہا کر دی، تو جب صحابہ کہتے یا رسول اﷲ ﷺ جو لوگ آپ ﷺ کو تنگ کرتے ہیں اِن کے لیے بد دعا کر دیں تو آپؓ کا چہرہ انور سرخ ہو جاتا اور آپ ﷺ کہتے میں زحمت نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں مشرکین مکہ نے جب آپ ﷺ اور آپ ﷺکے خاندان کو تین برس شعب ابی طالب میں محصور رکھا اور ہر ممکن کوشش کی کہ آپ ﷺ تک غلے کا ایک دانہ بھی نہ پہنچ پائے مشرکین کے اِ س ظلم کی وجہ سے مکہ میں اس قدر شدید قحط پڑا کہ لوگ مردار کھانے پر مجبور ہو گئے تو ابو سفیان دعا کے لیے آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا محمد ﷺ تمھاری قوم بھوک و پیاس سے ہلاک ہو رہی ہے اﷲ سے دعا فرمائیں تاکہ یہ قحط دور ہو تو محسن انسانیت نے بلا عذر ہاتھ اٹھائے تو اﷲ تعالی آپ ﷺ کے طفیل اہل مکہ کی مصیبت اور قحط دور کر دیا ۔آپ ﷺکے کردار کی شان دیکھیں کہ مشرکین مکہ بھی آپ ﷺکی دعا کے قائل تھے ۔غزوہ احد میں جب آپ ﷺ پر پتھر پھینکے گئے تیر برسائے تلواریں چلایں آپ ﷺکے جسم اقدس کو لہولہان کر دیا آپؓ کے دندان مبارک شہید کر دیے لیکن اِن مظالم پر آپ نے جو کیا وہ آپ کی شان اور مقام کے لائق تھا ۔اے اﷲ میری قوم کو ہدایت فرما کہ یہ نادان ہیں۔وادی طائف میں جب آپ کو زخمی کیا گیا اور فرشتہ غیب پوچھتا کہ اگر حکم ہو تو اِن پر پہاڑ کو الٹ دیا جائے تو آپ ﷺکی شانِ رحمت ملاحظہ فرمائیں کہ نہیں شاید اِن کی نسل سے کوئی بندہ خدا پیدا ہو جائے آپ ﷺکی شان رحمت کا سب سے عظیم مظہر فتح مکہ کے وقت نظر آتا ہے جب رحمت ِ مجسم ﷺ نے کفار و مشرکین اور بد ترین دشمنوں کو معاف کر دیا کیونکہ فتح مکہ پر آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں پر کامل اختیار تھا ۔وہ دشمن جنہوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنا چاہا آپ ﷺ کو بد نام اور اذیت پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جو آپ ﷺ کے بد ترین تھے فتح مکہ کے دن کعبہ کے صحن میں گروہ در گروہ سر جھکائے کھڑے تھے ۔آپ ﷺ نے جس طرح سب کو معا ف کیا تاریخ انسانی کا دامن اِیسی مثال پیش کرنے سے خالی ہے ۔جس طرح فخرِ دو عالم فتح مکہ کے وقت مکہ میں داخل ہوئے دنیا کا بڑے سے بڑا فاتح ایسی مثال پیش نہیں کر سکا ۔بچوں سے محبت و شفقت کے بے شمار واقعات موتیوں کی طرح سیرت کی کتب میں بکھرے ہوئے ہیں ۔آپ ﷺ سے پہلے عربوں میں بیٹیوں کو زندہ ماردیا ، کسی کے گھر بیٹی ہوتی تو وہ گناہ گاروں کی طرح منہ چھپا تا پھرا آپ ﷺنے عورت کو ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی کا باوقار مقام دیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا جس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی وہ اس کی پرورش کرے لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اﷲ اس کو جنت میں داخل کرے گا آپ ﷺکا تاریخ سازخطبہ حجتہ الوداع جا بلا شبہ حقوق ِ انسانی کے ابدی عالمی منشور کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس میں آپ ؓ نے عورتوں ، غلاموں کے حقوق کی بہت زیادہ نصیحت کی ہے ۔یتیم پروری اور غلاموں سے محبت اور شفقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں اِس طرح نہیں ملتی کہ آپ ﷺ نے فرمایا بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم زیرِ کفالت ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا جاتا ہو۔آپ ﷺ کی محبت و شفقت صرف انسانوں تک محدود نہ تھی ۔بلکہ آپ ﷺ شفقت اور رحمت حیوانات اور بے زبان جانوروں پر بھی سایہ فگن تھی آپ ﷺ کی رحمت کا اندازہ لگائیں جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غم و فکر کے آثار نمایاں ہوتے آپ ﷺ حالت ِ اضطرار میں کبھی آگے کبھی پیچھے ہوتے جب بارش رک جاتی تو آپ ﷺ حالتِ آرام میں آجاتے ہماری ماں حضرت عائشہ نے جب وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ڈرتا ہو کہ مبا را (قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو ۔روز محشر جب حضرت آدم سے لے کر قیامت تک کے تمام انسان بے یار و مددگار ہوں کوئی کسی کا والی وارث نہ ہو گا لوگ شفاعت کے لیے یکے بعد دیگرے تمام انبیائے کرام کے پاس جائیں گے مگر سب عذر پیش کریں گے آخر ایک طرف سے کالی کملی والی سرکار ﷺ شافع محشر آئیں گے تو سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے آپ حمد و ثنا کے بعد سجدے میں گر جائیں گے اﷲ تعالی کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ سر سجدے سے اٹھا لیں جو کچھ مانگئے دیا جائے گا شفاعت کیجئے آپ ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی تو آپ ﷺ عرض کریں گے یا رب امتی امتی اے میرے رب میری امت کو معاف فرما۔ روز محشر اور آج بے آسروں کا آسمان تو صرف آپ ﷺ ہی ہیں آپ ﷺ ہی رحمتِ دو عالم ہیں۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.