امسال دسہرہ کے موقع پرآر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن
بھاگوت نے اپنی خطاب میں فرمایا کہ’ اقلیتوں میں خوف پھیلایا جاتا ہے کہ
ہندوؤں کی وجہ سے ان کے لیے خطرہ ہے‘۔بات تو درست ہے مگر یہ خوف کون
پھیلاتاا ہے ؟ اس سوال کا جواب موصوف کی تقریر کے ہفتہ بھر میں وشوہندو
پریشد نے دے دیا۔ اتفاق سے وی ایچ پی سنگھ پریوار کا حصہ ہےیعنی بھاگوت کی
نگرانی میں کام کرتی ہے۔موہن بھاگوت کے بیان کو غلط ٹھہراتے ہوئے
دارالخلافہ دہلی کے اندر وشوہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں کے جلسۂ عام
میں موجود کئی ہندو مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کے ہاتھ
اور سر قلم کرنے کی اپیل کردی۔ جس کا اپنا پریواران کے اپدیش(نصیحت ) کی
پرواہ نہ کرتا ہو تو دوسرے کیسے کریں ؟ دہلی میں جگت گرو یوگیشور آچاریہ نے
فرمایا ،"اگر ضرورت پڑے تو ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کے سر کاٹ دو۔ زیادہ سے
زیادہ کیا ہوگا، آپ کو جیل جانا پڑے گا، لیکن اب ان لوگوں کو سبق سکھانے کا
وقت آگیا ہے۔ ان لوگوں کو چن چن کر مارو۔" جگت گرو کے مشورے پر عمل درآمد
کی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے مہنت نول کشور داس نےحاضرین سے سوال کیا کہ کیا
ان کے پاس لائسنس یا بغیر لائسنس والی بندوقیں ہیں؟ اگر نہیں تو حاصل کرو،
لائسنس نہ ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ کیا جو لوگ آپ کو مارنے آتے ہیں ان کے
پاس لائسنس ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کو بھی کسی لائسنس کی ضرورت نہیں۔
پولیس سے جب ان منافرت آمیز تقریروں پر کارروائی سے متعلق پوچھا گیا تو اس
کا جواب تھا کچھ نہیں کیا گیا کیونکہ کسی نے ان کے خلاف رپورٹ درج نہیں
کرائی ۔ یہی بات نول کشور نے کہی تھی کہ اگر ہم متحد رہیں گے تو پولیس کچھ
نہیں کرے گی، بلکہ دہلی پولیس کمشنر ہمیں چائے پلائیں گے اور ہم جو کرنا
چاہتے ہیں کرنے دیں گے۔ ویسے پولیس نے کوئی کارروائی اس لیے بھی نہیں کی
وہاں موجود مرکزی وزیرپرویش سنگھ ورما نے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "اگر
انہیں سبق سکھانا ہے اور ایک ہی بار میں مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کا ایک
ہی علاج ہے، ان کا مکمل بائیکاٹ۔" انہوں نے شرکاء کے ساتھ حلف لیا، "ہم ان
سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، ہم ان کی دکانوں سے سبزیاں نہیں خریدیں گے۔
سرسنگھ چالک کو اگر معلوم ہوتا کہ ایک ہفتہ میں ان کے دعویٰ کی قلعی کھلنے
والی ہے تو یہ نہیں کہتے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا، نہ مستقبل میں ہو گا۔
یہ سنگھ اورہندوؤں کی کی فطرت نہیں ہے۔یہ بات اگر درست ہے تو ماننا پڑے گا
کہ وشو ہندو پریشد، سنگھ کا حصہ نہیں ہے نیز جلسہ میں موجود جگت گرو
یوگیشور اورمہنت نول کشور ہندو نہیں ہیں ؟
موہن بھاگوت کے مطابق ہندو سماج دھمکی دینے کا قائل نہیں ہے ۔ مذکورہ جلسۂ
عام میں جو کچھ کہا گیا اس کو سر سنگھ چالک دھمکی سمجھتے ہیں یا نہیں یہ
انہیں بتاناہوگا ۔ ویسے موہن بھاگوت نے اس طرح کی صورتحال پر قابو پانے کا
طریقہ کار بھی بتایا ۔ وہ فرماتے ہیں :’’نفرت پھیلانے، ناانصافی اور ظلم
کرنے والوں اور معاشرے کے خلاف غنڈہ گردی اور دشمنی کی کارروائیوں میں ملوث
ہونے والوں کے خلاف اپنا دفاع ہر ایک کا فرض بنتا ہے۔ ' تو کیا وی ایچ پی
کی اس نفرت انگیزی اور غنڈہ گردی کے خلاف سنگھ سویم سیوک کچھ کریں گے ؟ کیا
ان کے ذریعہ کم ازکم ایف آئی آر کی بھی توقع کی جاسکتی ہے؟ کیونکہ ان کے
مطابق اس طرح کا ہندو سماج۔ موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔ یہ (منظم ہندو سماج )
کسی کے خلاف نہیں ہے۔ مذکورہ بالا جلسے میں دئیے جانے والے اشتعال انگیز
بیانات اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں ۔ موہن بھاگوت کے بیان کی روشنی میں اس
ظلم و زیادتی کے خلاف اپنا دفاع کرنا ہر ایک فرض ہے تو مسلمانوں کا کیوں
نہیں ؟ سچ تو یہ کہ جیسے اس طرح کا ہندو سماج وقت کی ضرورت ہے تواسی طرح کا
مسلم سماج بھی اہم حاجت ہے۔
سر سنگھ چالک کے دعویٰ ’’ ماضی میں ایسا نہیں ہوا، نہ مستقبل میں ایسا ہو
گا‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا حکومت ہندکی مذہبی اقلیتوں اور خاص طور
سےمسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں نہ صرف ناکام ہونے کو صرف
تسلیم کرتی ہے بلکہ شراکت دارمانتی ہے۔ امریکہ اور دیگر عالمی اداروں کی
رپورٹس اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔دنیا بھر میں ملک کے مختلف شہروں بشمول
قومی دارالحکومت میں ایسی نفرت انگیز تقریروں کی مذمت پہلے بھی ہوتی رہی
ہیں اور اب بھی ہورہی ہے۔رواں برس امریکہ نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی
سالانہ رپورٹ میں ہندوستان کو چین، پاکستان اور افغانستان سمیت"خصوصی تشویش
والے ممالک" کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا پر بحث
کے دوران حکومت ہند کا چراغ پا ہوجانا ’’چور کی داڑھی میں تنکہ ‘‘ جیسا تھا
۔ ہندوستان اگر اس کی زد میں نہیں آرہا ہوتا تو حمایت کرتا یا کم ازکم غیر
جانبدار ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مودی سرکار نے محسوس کرلیا کہ یہ اشارہ
کس کی طرف ہے اس لیے سراپا احتجاج بن گئی لیکن اس کی ایک نہیں چلی ۔
اقلیتوں میں خوف پھیلانے کے حوالے سے موہن بھاگوت کے بیان کوایک اور تناظر
میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان ایک اقلیتوں کا ملک ہے۔ اس میں سب سے
بڑی اقلیت مسلمان اور ایک بہت ہی چھوٹی اقلیت برہمن ہے۔ برہمنوں نے کئی
صدیوں تک اس ملک کی دیگر اقوام پر ایسے غیر انسانی مظالم ڈھائے جن کا تصور
بھی کسی مہذب سماج میں نہیں کیا جاسکتا ۔آزادی کے بعد وہ مظلوم اقوام اب
ان کے چنگل سے سیاسی طور پر آزاد ہوگئی ہیں ۔ برہمنوں کو خطرہ لاحق ہے کہ
کہیں وہ انتقام نہ لینا شروع کردیں ۔ اس لیے انہیں مسلمانوں سے خوفزدہ کرکے
رکھنا برہمن نواز سنگھ پریوار کی مجبوری ہے۔ مسلمانوں سے ملک کی دیگر اقوام
کو ڈرانے کا سب سے زیادہ کام آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں کرتی ہیں۔
دہلی میں نشر ہونے والی مذکورہ تقاریر اس کا حصہ ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں
کو سنگھ سے ڈرانے کا کام بھی نادانستہ طور پر کچھ مسلمان گوں ناگوں وجوہات
کی بناء پر کرنے لگے ہیں ۔ اس سے سنگھ پریوار کو فائدہ پہنچتا ہے اس لیے
موہن بھاگوت کو ان کا مشکور ہونا چاہیے ۔
سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی دسہرہ ریلی میں بہت ساری گھسی پٹی
باتیں کہیں جو میڈیا میں موضوع بحث نہیں بن سکیں سوائے ایک جملۂ معترضہ کے
وہ اس قدر ناقابلِ یقین تھا کئی اخبارات کی شاہ سرخی بن گیا۔ آر ایس ایس
سربراہ نے ناگپور میں کہاکہ’’مندر، پانی اور شمشان سب کے لیے برابر ہونا
چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا نہیں چاہیے۔ ایسی چیزوں جیسے ایک گھوڑے
پر سوار ہو سکتا ہے اور دوسرا نہیں ہوسکتا، معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی
چاہیے اور ہمیں اس سمت میں کام کرنا ہے‘‘۔ پانی تو خیر ہندو مسلمان سبھی
پیتے ہیں مگر مندر اور شمشان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کا مطلب
یہ ہے کہ ہندو سماج کے نام نہاد نچلے طبقہ کو آج بھی اس کنویں یا نلکےسے
پانی پینے کی اجازت نہیں ہے جس کو اونچی ذات کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
بھاگوت جی نے گھوڑے کی مثال دے کر اسے معمولی کہا ہے لیکن موت کے بعد بھی
شمشان گھاٹ میں رائج تفریق امتیاز سے بری بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ دنیا میں
ہندو سماج کے علاوہ ہر مذہب کے پیروکار کم ازکم عبادت گاہ کے اندر اونچ نیچ
بھول جاتے ہیں لیکن یہاں تو مندروں میں بھی چھوت چھات ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے
کہ سو سال کے اندر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہونے والا آر ایس ایس
اس نام نہاد معمولی سماجی برائی کو ختم کرنے میں کیوں ناکام ہوگیا؟ کہیں
اونچ نیچ کی مخالفت مگر مچھ کے آنسو تو نہیں؟
اترپردیش میں فی الحال غیر اعلانیہ ہندو راشٹر قائم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا
ہے۔ وہاں پر پرتاپ گڑھ میں ایک درگا پنڈال کے اندر جگروپ نامی دلت شخص کو
صرف اس لیے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا کیونکہ اس نے ماتا جی کو چھو لیا تھا۔
یہ کون سی ہندوتوا کی فطرت ہے کہ جس میں ایک دلت کو اس طرح قتل کردیا جاتا
ہے۔ اس کے بعدجگروپ کے گھر والوں پر پولیس دباؤ ڈال کر ایف آئی آر میں
قتل کی وجہ بہن کو چھوڑنے کے لیے بائک نہ دینا لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
جگروپ کے داماد شیوپرساد کے مطابق ان کے سسر کو ماتا کا پیر چھونے کی وجہ
سے کلدیپ، سندیپ اور منا پال نے ہاتھوں، لاتوں اور ڈنڈوں سے مارکر ہلاک
کردیا ۔ اب پولیس معاملے کو دبا رہی ہے اور انتظامیہ کچھ زمین کے ساتھ 5
لاکھ روپے معاوضہ دینے کا لالچ دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
کیا یہی وہ فطرت ہے جس پر موہن بھاگوت فخر جتاتے ہیں ۔دوسروں کو نصیحت کرنے
سے قبل سرسنگھ چالک اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور سنگھ پریوار
کے اندرموجود وشو ہندو پریشد وغیرہ کو قابو میں رکھیں تو اس میں ان کی
بھلائی ورنہ ان کے پروچن کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے گا اور اس کی حیثیت
پندرہ اگست کو نشر ہونے والے تفریحی خطاب کی سی ہو جائے گی۔
|