فساد کی سیاست اور سیاست کا فساد

مظفر نگر فرقہ وارانہ فساد میں ملوث بی جے پی رہنما اور کھتولی کے رکن اسمبلی وکرم سینی کے خلاف عدالت کا فیصلہ بہت تاخیر سے آیا۔ ان کو سزا بہت معمولی ہوئی اور جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ضمانت بھی ہوگئی اس کے باوجود عدلیہ کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ اس فیصلے نے بی جے پی کے بھارتیہ دنگا پارٹی ہونے پر مہر ثبت کردی ۔ عدالت کا یہ فیصلہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بی جے پی فساد کی سیاست میں یقین رکھتی ہے۔ وہ فرقہ واریت کی آنچ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہے ۔ وہ فسادیوں کو قانون ساز بنا کر ان کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ تو فساد کی سیاست ہے لیکن سیاست کا فساد یہ ہے کہ ایسے مجرم یکے بعد دیگرے دوبار انتخاب میں اپنی کامیابی درج کرواتے ہیں ۔ جمہوری نظام سیاست ان کو اقتدار کے گلیارے میں داخل ہونے سے روک نہیں پاتا ۔ مادر پدر آزادجمہوریت میں اقتدار پر قابض ہونے کے لیے سارے سیاسی حربے جائز اور مستحب ہیں ۔ یہاں فسادیوں کو روکنے والا کوئی ٹھوس ضابطۂ اخلاق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس نظام کی بدولت وکرم سینی جیسے نہ جانے کتنے مفسد ومکار اقتدارکی کرسی پر فائز ہوجاتے ہیں۔

مظفر نگر کا فساد 2013؍ میں ہوا۔ اس وقت مرکز میں کانگریس اور اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی ۔ مظفر نگر فساد کے بعد وکرم سینی کو تشدد کے کئی معاملوں میں جیل بھیج دیا گیا تھا اور ان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔ ایک سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد وکرم سینی ضمانت پر باہر آئے ۔ اس وقت انہوں نے مظفر نگر فساد کے لیے سماجوادی پارٹی کو قصوروار ٹھہرایا تھا کیونکہ وہ برسرِ اقتدار تھی۔ اب بھی وہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں پولیس کے ذریعہ رسی کا سانپ بنا کر پیش کرنے کی وجہ سے سزا ملی ہے ۔ پہلے عوام کے لیے اس بہتان پر یقین کرنا آسان تھا لیکن اب مشکل ہے کیونکہ پولیس کا محکمہ ریاستی حکومت کے تابع ہے اور صوبے میں بی جے پی کی سرکار ہے۔ یوگی سرکار کو کوئی دودھ پیتا بچہ بھی غیر جانبدار نہیں کہہ سکتا ۔ پولیس کے محکمہ پر یوگی کی پکڑ کے سبھی قائل ہیں کیونکہ وزارت داخلہ کا قلمدان انہیں کے پاس ہے ۔ اس لیے ماضی میں اگر پولیس سے کوئی بھول چوک ہوئی تھی تو اس کی اصلاح کا اس سے بہتر موقع اور کون سا ہوسکتا تھا ؟ اس میں شک نہیں کہ انتظامیہ نے سینی کی مدد کی مگر اس کے باوجود سزا کاسنایا جانا اس بات کا ثبوت ہے ان کے خؒاف پیش ہونے والے شواہد کو نظر انداز کرنا عدلیہ کے لیے ناممکن ہو گیا ۔

جمہوری سیاستداں عام طور پر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ اصل فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا ۔ اس کا حال یہ ہے کہ پچھلی بار جیل سے رہا ہونے کے بعد سینی نے ضلع پنچایت کی رکنیت کا انتخاب لڑا اورالعوام کل النعام نے انہیں کامیابی سے نوازہ ۔ بس پھر کیا تھا بھارتیہ دنگا پارٹی کو وکرم سینی میں اپنے روشن مستقبل کے امکانات دکھائی دینے لگے ۔ اس نے 2017 میں وکرم سینی کو کھتولی اسمبلی حلقہ سے اپنا امیدوار بنایا۔ عوام نے انھیں ترقی دے کرکے رکن اسمبلی بنا دیا ۔ اس وقت تک مغربی اترپردیش کے جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کے شعلے سرد نہیں ہوئے تھے لیکن پھر کسان تحریک نے ہوا کا رخ بدلا۔ہر ہر مہادیو کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگے ۔ سماجوادی پارٹی کے ساتھ جینت چوٹالا کی آر ایل ڈی نے الحاق کرلیا ۔ نقل مکانی کرنے والے بہت سارے مسلمان اپنے علاقوں میں لوٹ آئے ۔ اس کے باوجود بی جے پی نے 2022 میں پھر سے وکرم سینی پر داوں لگایا اور وہ کامیاب ہوگئے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے فساد کی وجہ سے فساد کی سیاست پھلتی پھولتی ہے اور اس کا بھی علاج ہونا چاہیے۔

وکرم سینی چونکہ رکن اسمبلی ہیں اس لیے ان کا مقدمہ عام عدالت کے بجائے مظفر نگر ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں چلایا گیا۔ اس سطح پر عام طور پر بہت دھاندلی ہوتی ہے ۔ ویسے اترپردیش میں عدالت کے اندر بی جے پی والوں کی دبنگائی کا یہ عالم ہے کہ امسال ماہ اگست میں یوگی کابینہ کے وزیر راکیش سچان کو کانپور کی عدالت نے ایک معاملے میں مجرم قرار دیا مگراس سے پہلے کہ سزا سناتی وزیر موصوف اپنے وکیل کی مدد سے فائل سمیت حکم نامہ کی اصل کاپی لے کر فرار ہو گئے۔ اس کے بعد مجبوراً عدالت کی پیش کار کو کوتوالی میں راکیش سچان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی پڑی لیکن’ جب سیاں ّ بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا ‘ کی مصداق ان کا کچھ نہیں بگڑا ۔ لکھیم پورکھیری میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے بیٹے ابھیشیک نے دن دہاڑے 5 کسانوں کی موت کے گھاٹ اتار دیا پھر بھی اسے اب تک سزا نہیں ہوئی۔ ایسے میںسینی جیسے رکن اسمبلی اور اس کے 12 ہمنواوں کو 2 سال کی سزا کے علاوہ 10 ہزار روپے جرمانہ حیرت انگیز ہے۔

وکرم سینی اسی کوال گاؤں کے رہنے والے ہیں جس میں 27 اگست 2013 کو ایک تنازعہ کے دوران شہنواز، گورو اور سچن کا قتل ہوگیا تھا ۔ اس واردات کا وکرم سینی نے اسی طرح فائدہ اٹھا جیسے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے گودھرا کے اندر سابرمتی ایکسپریس میں ہلاک ہونے والے رام بھگتوں کی موت کو بھنایا تھا۔ اس واقعہ کے بعد وکرم سینی نے اپنی سرگرمی سے ماحول کا رنگ بدل دیا۔ 29 اگست کو کوال سے دو کلومیٹر دور نگلا مندوڑ کے سرکاری اسکول میں پنچایت کرکے تشدد کی ایسی آگ لگائی کئی کہ اس نے دیکھتے دیکھتے پورے علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ گودھرا فساد کے بعدجس طرح گجرات میں بی جے پی کا اقتدار مضبوط ہوگیا اسی طرح مظفر نگر کا فساد اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی کا سبب بنا۔ قومی اور صوبائی انتخاب میں شاہ اور مودی نے اسے خوب بھنایا اور زبردست کامیابی درج کرائی۔

وطن عزیز میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ مسلم دور حکومت میں مختلف بادشاہوں اور راجاوں کی افواج آپس میں لڑتی تھیں لیکن عوام کو نہیں لڑایا جاتا تھا کیونکہ اس وقت اربابِ اقتدار پر انتخاب جیتنے کی مجبوری نہیں تھے ۔ وہ ایک دوسرے کی سلطنت پر قبضہ کرکے اپنی سرحدیں بڑھانے کے لیے باہم لڑتے تھے۔ ان جنگوں میں کبھی مسلمان بادشاہ دوسرے مسلمان بادشاہ سے برسرِ پیکار ہوتا تو کبھی ہندو راجہ آپس میں بھڑ جاتے ۔ اسی مقصد کے تحت ہندو مسلمان حکمرانوں کی بھی جنگ ہوتی جس میں دونوں جانب ہندو مسلمان فوجی ایک دوسرے لڑتے تھے ۔ اس جنگ و جدال میں ہندو مسلمان کا فرق نہ تو فوج کی سطح پر تھا اور نہ عوام کو اس میں ملوث کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے سب سے پہلے لڑاو اور حکومت کی حکمت عملی اختیار کرکے جنگ آزادی کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔آزادی کے بعد ان کے وفاداروں نے انہیں خطوط پر اپنی سیاسی جنگ جاری رکھی۔

آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں برسرِ اقتدار سیاسی رہنماوں نے دلچسپی لی تو انتظامیہ بھی ان کا معاون بنارہا۔ اس زمانے میں جب کبھی پولیس کے تماشائی بنے رہنے کی خبریں آتی تو ایسے افسران کا ان کی کوتاہی کے سبب سرزنش کی جاتی یا تبادلہ کیا جاتا۔ زمانہ بدلا تو فرقہ واریت پھیلا کر سیاست کرنے والے کچھ صوبوں میں اقتدار پر فائز ہوگئے۔ اسی کے ساتھ اقتدار کی وفادار اور وفا شعار انتظامیہ کا بھی مزاج بدل گیا ۔ اب وہ فساد میں شراکت دار بن گیا۔ فساد پھیلانے کےعوض ڈی جی ونجارہ جیسے افسران کو چھڑا کر انعام و اکرام سے نوازہ جانے لگا۔ گودھرا فساد اس معنیٰ میں منفرد ہے کہ اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے فخر جتایا گیا۔ ریاستی حکومت کے ذریعہ اس کو انتقام کا نام دے کر سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔ اس فساد میں ملوث مایا کونڈنانی جیسےمجرم سیاستدانوں کی پشت پناہی کی گئی۔ فسادیوں کے خلاف بولنے والےہرین پنڈیا کو ہلاک اور سنجیو بھٹ جیسے فرض شناس افسران کو جیل بھیجا گیا۔ اس طرح گویا فرقہ وارانہ فساد اقتدار میں آنے اور اسے قائم و دائم رکھنے کا ایک موثر آلۂ کار بن گیا ۔مظفر نگر فساد اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے بلکہ آئی این ایس نامی معروف خبررساں ایجنسی کے مطابق سہراب الدین شیخ فرضی تصادم مڈبھیڑکے ایک گواہ نے زیریں عدالت کے اندر یہ شہادت دی کہ سہراب الدین نے گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پنڈیا کا قتل کیا تھا۔گواہ نے دعویٰ کیاتھا کہ گجرات کے سابق آئی پی ایس افسر ڈی جی ونجارا نے پنڈیا کے قتل کا حکم دیا تھا۔ہرین پنڈیا کا قتل سال2003میں احمد آباد کے اندر ہوا تھا۔گواہ کے مطابق 2002میں اس کی دوستی سہراب الدین ،کوثر بی(سہرب کی بیوی) اور دست راست تلسی پرجاپتی سے ہو گئی تھی۔عدالت میں گواہ نے کہا تھا کہ سہراب الدین نے اسے بتایاتھا کہ اسے گجرات کے وزیر داخلہ ہرین پنڈیا کو قتل کرنے کے لئے ڈی جی ونجارا سے پیسے ملے تھے اور اس نے وہ کام پورا کیا۔اس گواہ کو سال 2005میں راجستھان پولیس نے گرفتار کیا اور ادے پورجیل میں اس کی ملاقات پرجاپتی سے ہوئی ۔سی بی آئی کے خصوصی جج ایس جے شرما کے سامنے اپنے بیان میں گواہ نے کہاکہ پرجاپتی نےاس سے کہا کہ گجرات پولیس نے سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر بی کوقتل کیا۔ اس گواہی سے معلوم ہوتا ہے آگے چل کر پرجاپتی کا فرضی انکاونٹر کیوں ہوا؟ فساد کی سیاست کا بازار جب اس قدر گرم ہوجائے تو بلقیس بانو کے خاندان کا قتل کرنے والوں کی رہائی اور پذیرائی نہ ہو تو کیا ہوگا؟ آئندہ صوبائی انتخاب میں اس کا بھی فائدہ اٹھایا جائے گا اور یہی دراصل سیاست کا فساد ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450013 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.