بھکمری کی دوڑ میں تشویشناک پیش رفت

وزیر اعظم نریندر مودی ’اچھے دن آنے والے ہیں‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ۔ عوام نے سوچا کہ ان کے برے دن جانے والے ہیں لیکن پانچ سال بعد بھی ایسا نہیں ہوا تو مودی جی سمجھ گئے کہ یہ ناممکن ہے۔ اس لیے انہوں نے فرد کے بجائے ملک کا ہدف متعین کیا اور یوم آزادی کے موقع پر پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کا اعلان فرمادیا ۔ یہ کام آئندہ انتخاب سے پہلے ہوجانا چاہیے تھا مگر کورونا کی وجہ سے اس تاریخ کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوبھی جائے تو بھی کیا ملک سے بھکمری ختم ہوجائے گی؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں پندرہ فیصد لوگ بھوکے پیٹ سونے پر مجبورہوتے ہیں۔ایسے میں اگر یہ ملک پانچ کے بجائے دس ٹریلین ڈالر کی معیشت بھی بن جائے تو کیا ان فاقہ کش لوگوں کی حالت میں کوئی بہتری آئےگی؟ ان کی تعداد گھٹے گی یا بڑھے گی؟ امکان تو یہ ہے کہ غریبوں کے لیے حالات ابتر ہوں گے کیونکہ پچھلے سال 19.4 کروڈ لوگ غذائی قلت کا شکار تھے اور اب یہ حالت مزید بگڑ گئی ہے ۔ مودی یگ کے اندر بھکمری کی دوڑ میں ملک اس مقام پر پہنچ گیا جہاں پہلے کبھی نہیں تھا۔

جرمنی کی غیر منفعت بخش تنظیم ویلٹ ہنگرہائی لائف ہر سال اکتوبر میں آئر لینڈ میں مقیم کنسرن ورلڈ وائڈ کے اشتراک سے گلوبل ہنگر انڈکس نامی رپورٹ شائع کرتی ہے۔ اس کو دنیا بھر میں بڑی اہمیت دی جاتی ہےاورسبھی اخبار و رسائل اسے شائع کرتے ہیں ۔ اس کے ذریعہ بھوک اور لوگوں کو فراہم کردہ خوراک کی بنیاد پر دنیا بھر کے ممالک میں فاقہ کشی کی صورتحال کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس سال(2022 ) کی رپورٹ میں وطن عزیز کی حالت تشویشناک ہے کیونکہ 121 ممالک میں وہ 107 ویں نمبرپر ہے۔ پچھلے سال کے 101 ویں مقام کے مقابلے اب کی بار مزید 6 پائیدان نیچے چلا گیا ہے۔ اس کے باوجود ملک حکمرانوں کو انتخاب لڑنے اور مخالف سیاسی طاقتوں کو کمزور کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ ان کے خیال میں بھوک سے پریشان یہ لوگ اگرووٹ نہ دیں تب بھی ان کا اقتدار قائم رہ سکتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ان کے خلاف ووٹ دینے لگیں تو سرکاری خزانے پر عیش کرنے والے سیاسی رہنما بھوکے مرنے لگیں گے۔

امسال سری لنکا میں اقتصادی بدحالی کے سبب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن بھکمری کی فہرست (گلوبل ہنگر انڈیکس )میں اس کی حالت بھی ہندوستان سے بہتر ہے۔ سری لنکا فی الحال 64 ویں پوزیشن پر ہے ۔ اقتصادی طور پر ہندوستان دنیا کا 5 واں بڑا ملک ہےجبکہ پاکستان پہلے 40 اور نیپال تو ٹاپ 100ملکوں میں بھی شامل نہیں ہے مگرگلوبل ہنگر انڈیکس میں نیپال 81 ویں اور پاکستان 99 ویں نمبرپرہے۔ بنگلہ دیش کہ جس کو بڑے گھمنڈ سے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مسکین ملک قرار دیا تھا 84 ویں نمبرپرہے۔ حکومت ہند کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ہے کہ آخر اس معاملے میں پڑوسی ممالک آگے کیسے نکل گئے؟ لیکن ہٹ دھرمی کے ساتھ حقیقت کو سازش قرار دینے کا مزاج یہ سوچنے ہی نہیں دیتا کہ آخر سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان سے یہ وشو گرو بننے کا خواب دیکھنے والا ملک کیسے پچھڑ گیا؟ افغانستان کی حالت خراب تو ہے مگر بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ وہ ملک چالیس سال تھا بیرونی حملوں سےنبرد آزما رہا ہے۔ اس کے باوجود بہتری کی جانب مائل ہے جبکہ ہندوستان روبہ زوال ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد بھوک کےحوالے سے بیداری پیدا کرنا ہے مگر کوئی حکومت جان بوجھ کر آنکھیں موند لے تب تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔

معروف کالم نکارتولین سنگھ نے اس ہفتہ بڑی حقارت سے لکھا تھا کہ اسلام کے سبب کسی مسلم ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے اس کے باوجود ہنگر انڈیکس کے17 سرفہرست ممالک میں (جن کا اسکور 5 سے کم ہے) ترکی اور کویت موجود ہیں ۔ کویت کے پاس تیل کی دولت ہے مگر ترکی میں تو وہ بھی نہیں ہے ۔ اس باوجود وہ اپنے ملک کی بھکمری پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں متحدہ عرب امارات 18ویں، ازبکستان 21ویں، قزاقستان 24ویں، تیونس 26ویں، ایران 29ویں، سعودی عرب 30ویں مقام پر ہے۔ اب سوال یہ ہے اگر وہ آمریت کے باوجود اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کامیاب ہیں اور دنیا کی سب سے وسیع جمہوریت اس میں ناکام ہوجاتی ہے تو کس کا قصور ہے؟ سن 2000 اٹل جی کی سرکار تھی اور چمکتے دمکتے ہندوستان کا نعرہ بلند کیا جارہا تھا مگر ہنگر انڈیکس کے اندر وہ 38.8 کے اسکور کے ساتھ ‘خطرناک’ زمرے میں شامل تھا۔ 2004؍ میں وہ رخصت ہوئے اور منموہن کی سرکار آئی تو اس میں سدھار ہونے لگا۔ 2011میں ہندوستان 67 ویں نمبر پر تھا 2012 میں وہ 65پر آگیا اور 2013 میں 63 تک پہنچ گیا۔ اسی کی حکمت عملی کا اثر تھا کہ 2014 میں ہندوستان میں بھکمری کے معاملے میں 55 نمبر پر آگیا تھا ۔

اس کے بعد مودی یگ کا آغاز ہوا اور اس شعبۂ حیات میں ہوا کا رخ بدلنے لگا کیونکہ حکمرانوں کی توجہ ملک کے غریب عوام سے ہٹ کر مالداروں کی جانب مرکوز ہوگئی۔ پہلے ہی سال یعنی 2015 کی رپورٹ میں ملک ایک بڑی چھلانگ لگا کر 80 پر پہنچ گیا ۔پھر اس کے بعد مودی جی کی مقبولیت کے ساتھ اس میں بھی اضافہ ہونے لگا اور 2016 میں دوسری چھلانگ نے ہمیں 97پرڈھکیل دیا ۔ 2017 کے اندر ہندوستان نے اپنی سنچری پوری کرلی اور وہ 100 کے نشان پر تھا 2018 میں یہ سفر جاری رہا اور ہندوستان 103 پر پہنچ چکا تھا ۔ اس کے بعد الیکشن کا سال آیا اور 2019 میں ملک کے اندر معمولی بہتری آئی ۔اس بار رینکنگ ایک مقام گھٹی یعنی102 پر آگئی۔ اس کے بعد 2020 میں حالت اور بھی بہتر ہوئی اور ہندوستان 94 پر آگیا۔ ایسا لگنے لگا کہ دیر سے سہی اچھے دن آنے والے ہیں مگر 2021 میں پھر سے مودی جی اپنے دوستوں کی جانب متوجہ ہوگئے اور نتیجتاً ہندوستان 101 پر پہنچ گیا۔ اس بار تو 107 تک کی چھلانگ لگا لی۔ 2014 میں ہندوستان کا اسکور گر کر 28.2 تک آگیا تھا مگر اچھے دن والی مودی سرکار نے اسے پھر سے بڑھا کر 29.1 پر پہنچا دیا ہے یعنی پچھلے آٹھ سال میں بھکمری کی شرح ۳ فیصد بڑھی ہے۔

مودی جی نے جب 2014 میں اقتدار سنبھالا ‘ (5 سال سے کم عمر والے ) بچوں میں شدید غذائیت کی کمی کا شکار صرف 15.1 فیصد بچے تھا لیکن اب ان کی تعداد بڑھ 19.3 فیصد ہوگئی ہے ۔اس کےعلاوہ آبادی میں غذائی قلت کے شکار لوگوں کا تناسب 2014 کے 14.8 فیصد کے مقابلے 2022 میں بڑھ کر 16.3 فیصد پر جا پہنچا ہے۔ فی الحال دنیا میں کل 82.8کروڈ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ان میں سے 22.4کروڑ افراد یعنی ایک چوتھائی سے زیادہ اکیلے ہندوستان میں ر ہتے بستے ہیں جبکہ افغانستان کی کل آبادی ہی 3.89 کروڈ ہے۔ آزادی کی 75؍ویں سالگرہ کا دھوم دھام سے جشن منانے والی سرکا ر کو آئینہ دکھاتے ہوئے راشٹریہ جنتا دل کے رہنما ٰ لالو پرساد یادو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’امرت کا ل کا بھوک کال‘۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 میں سوڈان، روانڈا، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، پاکستان نے ہندوستان کو شکست دے کر بہتر مقام حاصل کیا۔ 121 ممالک کی فہرست میں ہندوستان 107 ویں مقام پر ہے۔ شرمناک! یہ بھاجپائی بچا کھچا ملک اور جائیداد بھی اپنے سرمایہ دار دوستوں کو بیچ دیں گے۔

لالو پرشاد یادو نے تو اس کی وجہ سرکاری املاک کا نجی ہاتھوں میں فروغ بتایا مگر گوا کانگریس کے صدر امت پاٹکر نے اس سے بھی سنگین الزام جڑ دیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے دوست گوتم اڈانی دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بن جانے اور ہندوستان کے ہنگر انڈیکس میں 107 ویں نمبر پر آنے کا گہرا تعلق ہے۔ پاٹکر کا الزام ہے کہ گوا کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر پرمود ساونت کی حکومت نے ٹنوں تور کی دال اور چینی وغیرہ کو جان بوجھ کر ضائع ہونے دیا گیا تاکہ سرمایہ دار اس کی درآمدات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اس درجہ بندی میں اتنا نیچے گرگیا۔ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں بے روزگاری کی شرح کے اندر خطرناک حد تک اضافہ فاقہ کشی کے بڑھنے کا اہم سبب ہے ۔ کانگریس لیڈر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ ‘‘نا کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا’’ ان کی دوسری میعادکے اندر حقیقت میں بدل گیا ۔
 
حکومت گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ کا تو انکار کرسکتی ہے مگر مہنگائی میں دن بہ دن اضافے کو جھٹلا نہیں سکتی ۔ فی الحال آسمان کو چھوتی ارزانی سے پریشان عوام کو ’امول‘ کمپنی نے پھر سے دودھ کی قیمت میں اضافہ کرکے زوردار جھٹکا دےدیا۔ امول ڈیری کے دودھ کی قیمت میں 2 روپے فی لیٹر اضافہ سے فل کریم دودھ کی قیمت 61 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 63 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ اس فیصلے کا غذائی قلت پر براہِ راست اثر پڑے گا کیونکہ چھوٹے بچے پانچ کلو چاول اور ایک کلو چنا کھاکر گزارہ نہیں کرسکتے ۔ماہِ اگست کے بعد امول ڈیری نے یہ دوسری بار دودھ کی قیمتوں میں بڑھوتری کا سبب ہوئی لاگت میں اضافہ بتایا ۔ امول چونکہ مارکیٹ لیڈر ہے اسلیے دوسری ڈیری والے بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدر ڈیری نے بھی دو روپیہ فی لیٹر کے اضافے کا اعلان کردیا۔ اس طرح مغربی ہندوستان کی مانند شمالی ہند میں بھی دودھ کے بھاو بڑھ گئے۔ ویسے بھلا ہو دوماہ بعد گجرات میں ہونے والے انتخاب کا وہاں فی الحال دودھ کے بھاو نہیں بڑھیں گے لیکن الیکشن کے فورا بعد امول کے ذریعہ مہنگائی کا تحفہ ان کو تھما دیا جائے گا ۔ اس طرح کی آنکھ مچولی سے عوام کب تک بہلائے جائیں گے اس کا فیصلہ انہیں خود کرنا ہے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449770 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.