جس وقت میں یہ کالم تحریر کر رہا ہوں شام ڈھل چکی ہے،
آفتاب غروب ہوچکا ہے مگر یقین ہے کہ یہ آفتاب صبح پھر سے طلوع ہوگالیکن
پاکستانی صحافت کا وہ آفتاب اب کبھی طلوع نہ ہوگا جس نے جرائت، عزم و ہمت
اور بیباکی کے ساتھ اس قوم کے اذہان کو منور کرنے کی کوشش کی۔ قلب شکستہ
اور نم و بوجھل آنکھوں کے ساتھ ارشد شریف صاحب کو مرحوم تحریر کر رہا ہوں۔
پاکستانی صحافت کے درخشندہ اور تابناک ستارے کو کینیا میں فائرنگ کا نشانہ
بنا کر شہید کردیا گیا۔ صحافت کی مقتل گاہ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے
پہلے بھی کئی صحافیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا صرف اس جرم کی پاداش میں
کہ وہ حق اور سچ کے لئے آواز بلند کرتے تھے۔ صرف اسی سال ہی ارشد شریف سمیت
6 صحافیوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ سی- پی – جے ( کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس)
کے مطابق پاکستان میں 1992 سے 2022 کے درمیان 96 صحافیوں اور میڈیا کارکنان
کو شہید کر دیا گیا ہے جبکہ ارشد شریف کی شہادت سے اس فہرست میں ایک اور
اضافہ ہوگیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت
نیروبی سے کچھ فاصلے پر پولیس نے غلط فہمی کی بنیاد پر فائرنگ کرکے شہید
کردیا۔ ارشد شریف نے ملک کیوں چھوڑا؟ یہ ایک دردناک داستان ہے۔ پی ٹی آئی
رہنما شہباز گل کا انٹرویو کرنے پر ارشد شریف کے خلاف بغاوت سمیت کئی
مقدمات دائر کئے گئے تھے۔ جسکے بعد مجبورا انھیں ملک کو خیر باد کہہ کر
دبئی جانا پڑا۔ انھیں دبئی میں بھی چین سے رہنے نہ دیا گیا اور دبئ کو
چھوڑنے کے احکامات کے بعد کینیا کا رخ کرنا پڑا۔ وہ ایک یوٹیوب چینل بھی
چلا رہے تھے ۔ انکی شہادت کے متعلق کینیا پولیس کا دعوٰی انتہائی بھونڈا
اور ناقابل یقین ہے اور خود کینیائی میڈیا اس پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ اگر
کوئی مطلوب تھا تو گاڑی کے ٹائرز کو نشانہ بنانے کے بجائے نشانہ لے کر
گولیاں کیوں ماری گئیں؟ گاڑی کے ڑرائیور تو محفوظ رہے صرف ارشد ہی نشانہ
کیوں بنے؟ حد تو یہ ہے کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی مطلوب گاڑی سے مختلف تھی
تو پھر کیوں اندھا دھند فائرنگ کردی گئی؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جنکا
جوابدرکار ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے
ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ ارشد شریف کے قتل میں وہ افراد بھی شامل ہیں جنہوں
نے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا اور دبئی میں بھی رہنے نہ
دیا۔پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی فضاء روزبروز سکھڑتی جارہی ہے ۔ ذرا
ذرا سی باتوں پر بغاوت اور غداری کے الزامات عائد کرکے ارشد شریف جیسے محب
وطن پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر یہ سرخی چلتی
ہے کہ وہ شہید کر دیئے گئے لیکن قاتل کون تھا ؟ اسکا سوراخ نہیں ملتا اور
نہ کبھی ملنے کی امید ہے۔ ارشد کا جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں
میں ایک آزادی اسلامی فلاحی مملکت دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک ایسی ریاست جسکے
فیصلے واشنگٹن اور لندن میں نہ ہوں، جو قومی مفاد پر ڈٹ جائے اور ہر قسم کے
اندرونی و بیرونی دباؤ کو نظرانداز کر کے صرف عوام کا سوچے مگر یہ جرم اتنا
بڑا تھا کہ انھیں موت کو گلے لگانا پڑا۔ صحافت کے وظائف میں یہ بھی شامل ہے
کہ ملکی مفاد میں رائے عامہ ہموار کی جائے اور ارشد وہی کچھ کر رہے تھے۔
ایک شہید میجر کا بھائی اور نیوی افسر کا بیٹا بھلا کیوں کر غدار ہوتا ۔
ملک میں آزاد صحافت کا گلہ گھونٹا جارہا ہے۔ حامد میر اور ابصار عباسی پر
گولیاں چلائی گئیں، اقرار الحسن اور ایاز امیر پر تشدد کیا گیا، جمیل
فاروقی اور عمران ریاض خان کو پابند سلاسل کیا گیا جبکہ سمیع ابراہیم، صابر
شاکر اور اوریا مقبول جان سمیت کئی صحافیوں کو زدوکوب کیا جا رہا ہے اور
انکے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ کل تک جنکی باتیںاچھی لگتی تھیں آج انہی
کی باتیں کڑوی لگتی ہیں۔ جنہیں کل تک نور چشم سمجھا جاتا تھا آج وہی خار
چشم بن چکے ہیں۔ آخر اس ملک میں کب تک یہ ڈرامے چلتے رہینگے۔ صحافت جمہوری
ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے لیکن اسی ستون کو روزبروز کھوکھلا کیا جارہا
ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خدانخواستہ صرف ایک ستون ہی نہیں پوری عمارت
زمیں بوس ہوگی ۔ آخر کب تک ہم بےگناہوں کے جنازے اٹھا تے رہینگے؟ اور مزید
کتنے ارشد اپنے ہی لہو سے غسل کرینگے؟ اس ملک میں صحافت اتنی نحیف و ناتواں
ہوچکی ہے کہ اب اسکے نازک کندھوں پر مزید لاشیں اٹھانے کی ہمت نہیں۔ حکومت
اور ادارے کچھ کریں یا نہ کریں اب صحافیوں کو خود اپنے حقوق کی جنگ لڑنا
ہوگی۔ خود ارشد کے قاتلوں کو بےنقاب کرنا ہوگا ۔ ہم سب کا بیانیہ پیش کرتے
ہیں کوئی ہمارا بیانیہ بھی تو پیش کرے۔ ہم سب کے لیے آواز اٹھاتے ہیں کوئی
ایسا بھی تو ہو جو ہمارے لئے آواز اٹھائے ۔ سینئر صحافیوں کو شامل کرکے ایک
آزاد کمیشن بنا کر ارشد شریف کے قاتلوں کو بے نقاب کرنا چاہیے تاکہ کوئی
دوسرا چراغ یوں گل نہ ہو۔ ارشد اپنے رب کے پاس ، اسکی جنتوں میں پہنچ چکے
ہیں۔ انکا لہو بے باکی اور راست گوئی کے کئی چراغوں کو روشن کرے گا۔ سچائی
کا یہ سفر انجام کی پرواہ کیے بغیر یونہی جاری و ساری رہے گا۔ بقول شاعر:-
"تم شب کی سیاہی میں مُجھے قتل کروگے
میں صبح کے اخبار کی سرخی میں ملوں گا "
پاکستان زندہ باد
|