تحریر: ایچ۔این۔ایس
یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستان میں صحافت ایک معتبر پیشہ اور صحافی
ایک آزاد انسان ہے۔عام خیال کیا جاتا ہے کہ صحافی ایک نڈر اور بے باک آسان
ہوتا ہے جو ملک کے کرپٹ اور دشمن پسند عناصر کو بےنقاب کرنے میں اپنا کردار
ادا کرتا ہے لیکن موجودہ دور میں پاکستان اس قدر نازک صورتحال سے دوچار ہے
کہ اگلے لمحے میں کیا ہونے والا ہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔کبھی کسی صحافی
پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ تو پیسے لےکر
مار کھاتے ہیں۔کبھی کسی صحافی کو سیاسی پارٹی سے منسلک کرکے الزام لگایا
جاتا ہے کہ یہ بک چکا ہے۔کبھی کسی صحافی کو قتل کرکے الزام لگایا جاتا ہے
کہ بھئی یہ سچ بولتا تھا۔
گزشتہ چند دنوں کے اندر پاکستان نے دو عظیم جانوں کو کھویا ہے جو صحافت
جیسے پیشے سے منسلک تھیں۔ارشد شریف صاحب کا قتل اور صدف نعیم صاحبہ کے
حادثے نے پاکستانی عوام کو ایک صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ہر کوئی ان واقعات
کی شدید مذمت کرتا نظر آتا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر وفاقی وزراء تک، اپوزیشن
ارکان سے لےکر میڈیا انڈسٹری تک سب افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔کیا یہ کافی ہے؟
کیا محض افسوس کرنے سے قیمتی جانوں کے کھونے کا ازالہ ممکن ہے؟ کیا افسوس
کرنے سے ارشد شریف کے بچوں کو ان کا باپ واپس مل سکتا ہے؟ کیا صدف نعیم کے
بچوں کو ان کی ماں واپس مل سکتی ہے؟اس کا جواب یقیناً نفی میں ہی ملے گا۔
سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم ان لوگوں کو بدنام کرتے ہیں
جو ہمیں سچ دیکھانے کی قیمت اپنی جانیں گنوا کر چکاتے ہیں‘جو اپنے پیشے سے
انصاف کرتے ہیں‘جو محض ایک سچ بولنے کی وجہ سے کینیا جیسے ملک میں دھکے
کھاتے پھرتے ہیں‘جو محض ایک لائیو کوریج کرنے اور تین مہینوں کی تنخواہ مل
جانے کےلئے کنٹینر کے ساتھ دوڑتے ہیں۔ کیا صحافیوں کو اس طرح بدنام کرنا
اچھا ہے؟جو اپنے پیاروں کو چھوڑ کر صرف سچ آپ تک پہنچانے کی کوشش میں مر
جاتے ہیں یا مار دیے جاتے ہیں۔ آزاد میڈیا اور آزاد صحافت کے نعرے لگا کر
ناجانے آج کی دنیا میں کونسی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ پاکستانی عوام خوب جانتے ہیں کہ یہاں کا میڈیا کس قدر آزاد ہے
اور کس قدر کسی کے اشارے پر چل رہا ہے۔
ارشد شریف ایک ایسے صحافی کا کردار ادا کر رہے تھے جو کسی صورت نہ بکنے کی
گولی کھا چکے تھے۔ وہ کسی سیاسی پارٹی سے منسلک نہیں تھے۔وہ اتنا جامع اور
پختہ دلائل کے ساتھ آتے کہ ان کو کراس اوور کرنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔
پہلے اس آواز کو بند کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور پھر آواز ہی بند کردی
گئی۔حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ شہید کی والدہ حکومتی تحقیقاتی کمیٹی کو
ماننے سے انکار کر رہی ہیں کیونکہ انھیں حکومت سے شفاف تحقیقات کی امید
نہیں ہے اور اصول بھی یہی ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس سلسلے میں آگے آئیں
اور جائے وقوعہ پر جاکر تحقیقات کریں اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروائیں
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے عالمی سطح پر پاکستان کا کردار منفی ہے۔ اقوام
متحدہ اور امریکہ نے بھی کینیا کو حقائق سامنے لانے کا کہا ہے لیکن کچھ بھی
کرلیا جائے ارشد شریف شہید واپس نہیں آسکتے اور عوام چند دن گزرتے ہی اس
سانحے کو بھول جائیں گے۔
دوسری جانب صدف نعیم کی افسوس ناک موت کا سانحہ ہے جن کے مالی حالات ایسے
تھے کہ لانگ مارچ میں جاکر ڈیوٹی کرنی ہی پڑی اور پھر وہاں وہ کنٹینر کے
نیچے آکر وہ حادثے کا شکار ہوکر خالق حقیقی سے جا ملیں۔ مرحومہ کے شوہر نے
کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی سے انکار کردیا اور اپنی اہلیہ کی موت کو
حادثہ قرار دیا۔سیاسی اراکین آئے تعزیت کی اور اگلے ڈن پھر چلے لانگ مارچ
کرنے۔
کیا مذکورہ بالا صحافیوں کے گھر والے ان لوگوں سے انصاف مانگ سکتے ہیں جن
کی خاطر اتنے مشکل پیشے سے وابستہ رہے؟ جناب ارشد شریف ملک کے نامور اور
سینیئر اینکر تھے۔ ان کے لاکھوں چاہنے والے ان کی آواز کو دبنے نہیں دیں گے
لیکن کیا کوئی اسی طرح صدف نعیم کی بہادری کے قصے بھی سنائے گا؟کیا اس
بہادر ماں کا تذکرہ کتابوں‘اخباروں میں اسی طرح کیا جائے گا جس طرح ایک نڈر
اور محنتی انسان کا ہونا چاہیے؟ کیا مستقبل میں صحافیوں کو کسی ایسے حادثے
سے بچانے کی کوئی حکمت عملی اس ملک میں بنائی جائے گی؟ کیا اس ملک میں مزید
کسی صحافی کو صدف نعیم جیسی موت سے بچانے کی کوشش کی جائے گی؟
امید ہے ملک پاکستان میں فوراً سے ایسے کورسز یا ورکشاپ متعارف کروائی
جائیں گی جو صحافیوں کو اس قسم کی صورتحال سے بچنے کی تربیت دیں گی کیونکہ
دنیا نے اتنی ترقی ضرور کرلی ہے کہ صحافیوں کو جنگوں پر جاکر بھی رپورٹنگ
کرنی پڑتی ہے اور ایسی صورتحال میں زندہ رہنے کے لیے انھیں مہارت یافتہ
بنایا جاتا ہے۔ امید ہے پاکستان میں صحافیوں کو آزادی رائے کا حق دینے سے
پہلے جینے کا حق دیا جائے گا تاکہ کوئی بچہ یتیم ہونے سے بچ جائے اور
حکمران بہت سے مظلوموں کی بددُعاؤوں سے بچ جائیں۔
اللہ نگہبان!
|