ہمارے بابا جی بہت پہنچی ہوئی شخصیت ہیں، نام ان کا حکیم
گل خان ہے تاہم کبھی کبھار ہی وہ عقل و حکمت کی باتیں کرتے ہیں، موجودہ
سیاسی حالات پر بلا وجہ ان سے مشورہ مانگ لیا، جس پر انہوں نے اِدھر اُدھر
کی باتیں شروع کردیں، سمجھ گیا کہ وہ بھی میری طرح سیاست سے نابلد ہیں۔
حکیم صاحب کا کمرہ مریضوں سے بھر رہا تھا حکیم صاحب باری باری ایک ایک مریض
کی نبض دیکھتے، شاگرد سے نسخہ لکھوا دیتے، مریض آگے بڑھ جاتا اور شاگرد
اسے نسخہ بھی دے دیتا اور ترکیب استعمال بھی سمجھا دیتا۔ انہی میں سے ایک
خاص مریض جب نسخہ لے کر جانے لگا تو حکیم صاحب نے خصوصی انسیت کو ملحوظ
خاطر رکھتے ہوئے خاص طور پر پوچھا کہ ترکیب استعمال سمجھ لی ہے، اس نے کہا
جی ہاں گرم پانی میں اچھی طرح جوش دیکر،چھان کر، سوتے وقت پی لینا ہے، ایک
ہی مرتبہ۔ حکیم صاحب نے سر ہلایا اور کہا کہ ہاں! احتیاط سے پینا اور کل
صبح آکر اطلاع دینا۔ مرض معمولی نہ سمجھنا کیونکہ مریض حکیم صاحب کا بہت
خاص الخاص تھا اس لئے اس پر خصوصی نوازش کی کیونکہ حکیم صاحب اپنے اس مریض
سے کچھ خاص ہی انسیت رکھتے تھے۔
دوسری صبح جب مریض ان کے پاس دوبارہ آیا تو حکیم صاحب نے نبض پر ہاتھ رکھ
کر پوچھا کہ ہاں کہو کچھ فرق محسوس ہوا؟ مریض نے کہا، نہیں حضور، کچھ فرق
نہیں بلکہ آج تو تکلیف اور بڑھ گئی ہے۔ حکیم صاحب گہری سوچ میں پڑگئے
ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا، ایک گہری لمبی سانس لی اور کچھ یاس آمیز لہجہ میں
کہا، اچھا نسخہ لاؤ۔ مریض نے کہا حضور نسخہ تو میں نے جوش دے کر پی لیا،
نسخہ کہاں سے نکالوں؟ حکیم صاحب نے گھبرا کر آنکھیں اٹھائیں، کیا کہانسخہ
پی لیا؟۔ جی حضور نسخہ جوش دیکر چھان کر پی لیا چھوٹے چھوٹے ٹکڑے چھلنی میں
رہ گئے تھے۔ انہیں میں نے پھینک دیا تھا حکیم صاحب کا چہرہ غصے سے تمتا
اٹھا جوش غضب میں بولے، ارے بد بخت ایسا احمق، نسخہ کو جوش دے کر پی گیا،
مریض حیران تھا کہ اس سے کیا خطا ہو گئی، اس نے تو بالکل ایسا ہی کیا تھا
جیسا اس سے کہا گیا تھا، حکیم صاحب نے پھر چلا کرکہا؟ ارے بے وقوف! کبھی
نسخہ کو جوش دے کر بھی پیا کرتے ہیں؟،مرض ابھی تک ششدر تھا اس کی سمجھ میں
نہیں آرہا تھا کہ معمہ کیا ہے۔ حکیم صاحب نے اپنی ڈانٹ کو جاری رکھتے ہوئے
کہا۔ پاگل نسخہ میں جو دوائیاں لکھی تھیں انہیں دوائی خانہ سے لینا تھا اور
وہ دوائیاں جوش دے کر پینی تھیں، نہ کہ اس ٹکڑے کو جوش دینا تھا جس پر وہ
دوائیاں لکھی تھیں مریض کو اب معلوم ہوا اس کے مرض میں ا فاقہ کیوں نہیں
ہوا۔ مریضوں کے ہجوم میں ہر شخص اس مریض کی حماقت پر ہنستا ہوا واپس گیا۔
شام تک شہر کے گلی محلے میں اس انوکھے استعمال کا چرچا ہونے لگا۔ جو سنتا،
قہقہے لگاتا لیکن نہ سمجھتا کہ اس مریض پر نہیں خود اپنے آپ پر ہنسنا ہے۔
اب حکیم گل خان کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی کیونکہ پوری طرح
سمجھ چکا تھا کہ موجودہ حالات میں مریض کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے۔ اسے آپ
لطائف کا ایک سرسری قصہ سمجھ لیں، حقیقت سے دور لیکن در حقیقت مسئلہ یہی ہے
کہ حکیم نے بڑی انسیت کے ساتھ اپنے من چاہے کو نسخہ تھمایا تھا،اب اس قوم
کی بد بختی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے اس نسخے کو اس طریقے سے استعمال
کرنے کے بجائے انوکھا طریقہ مرض دور کرنے کا ڈھونڈ نکالا۔ اب اگر مرض میں
افاقہ نہیں ہوا تو اس کی وجہ مریض کی بے وقوفی ہے۔ اب شہر در شہر، کوچہ بہ
کوچہ دربدر گھومتے رہیں لیکن جب تک نسخے کو درست ترکیب سے استعمال نہ کیا
جائے تو افاقہ کس طور ممکن ہو سکتا ہے۔ مریض بھی پریشان ہے کہ اس سے کیا بے
وقوفی سر زد ہوئی، حکیم صاحب کے پاس تو مریضوں کا رش لگا پڑا ہے۔ اس میں سے
اس پر خصوصی نوازش کی تھی لیکن اپنی بے وقوفی سے حکیم صاحب کو غصہ دلا کر
غضب میں مبتلا کردیا۔ مریض کو سمجھنا چاہیے تھا کہ اب اگر انہوں نے ڈانٹ
پلا بھی دی تو ناراض ہونے کے بجائے اپنی غلطی کی معافی مانگ لینی چاہیے تھی
لیکن اڑیل کھڑے ہو جانا اور ضدی بچے کی طرح رونا دھونا شروع کرنے سے مرض تو
پھر بھی دور نہیں ہوگا۔ حکیم صاحب کے پاس رش ختم ہونے کے بعد دوبارہ رجوع
کرنے کی ضرورت تھی، لیکن بے وقوفی کے تسلسل میں اب بھی خواہش ہے کہ ان پر
پہلے کی طرح خصوصی نوازش کی جائے تو اب یہ ممکن اس لئے نہیں کہ پورے شہر کو
اس احمق کی انوکھی حرکت کی خبر ہو چکی ہے۔ بھلا کس طرح ممکن ہے کہ حکیم
صاحب اپنی ساکھ مزید خراب کریں۔
موجودہ کاروبار سیاسی دنیا کے خاص انداز ہوتے ہیں، جنہیں سیاسی کاروباری
حکمت عملی کہا جاتا ہے، دور ِ حاضرہ میں کسی بھی کاروبار کی خصوصی تکنیک یہ
ہے کہ ’’مال‘‘ خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، اس کی پیکنگ نہایت شاندار ہونا
چاہیے اور اشتہارات کے ذریعے مٹی کو سونا بنا کر پیش کر نے کا ہنر آنا
چاہیے۔ اشتہار میں جدت اور انٹرٹینمنٹ بھی ہونی چاہیے، پرانے، فرسودہ
طریقوں کی مذمت کے بعد بتانا چاہے کہ ہمارا ’’مال‘‘ دور حاضرہ کی جدید
تراکیب کے مطابق تیار کیا گیا ہے، اس لئے یہ بالکل up to date ہے۔ بد قسمتی
سے ہوشیار دکانداروں نے فرسودہ سٹائل کی جگہ نئے صحافتی و سوشل میڈیاسٹائل
کو اختیار کرلیا اور اس طرح اسی پرانے مال کو نئے پیکنگ کا پیرہن پہنا دیا۔
بیانیہ کے دقیانوسی رنگ کے لباس کو بھی نہایت جاذب توجہ تیار کرالیا اس کے
بعد ذرائع ابلاغ کے دستیاب تمام پلیٹ فارموں پر اشتہارات کی باری آئی تو
انہوں نے جامد سیاسی دقیانوسیت کو کوسنا شروع کردیا تاکہ عوام کو معلوم ہو
کہ ان کا مال، پرانا مال نہیں، بلکہ بالکل تازہ اور نیا مال ہے۔ دور حاضر
میں سیاست کی کامیابی میں یہی پولیٹکل بزنس تکنیک کام میں لائی جا رہی ہے
جسے ایک وقت میں میڈیا مینجمنٹ کی اصطلاح سے موسوم کیا گیا تھا، جب غلط کو
صحیح کہنے کا فن متعارف ہوا تھا، اسلوب بیان کو صحافتی انداز میں پیش کرنے
کا انداز بالکل دور حاضرہ کے مطابق ہے، اگر غلطی سے ان کی کورانہ تقلید اور
قبر ستانی جمود کے خلاف آواز اٹھا لی جائے تو طعن و تشنیع کے سو نامی میں
سطح بین نگاہیں فوراََ دام تزدر میں پھنس جاتی ہیں، کیونکہ جب اس حسین و
دلکش پیکنگ کو کھول کر دیکھتے ہیں تو وہی فرسودہ سیاسی ہتھکنڈے اور وہی اس
کی سرانڈ۔
|