ذرائع ابلاغ کے روشن ستارے

ذرائع ابلاغ کو اپنے قابو میں رکھنے کی خاطر حکومت ’چارہ اور چابک ‘ کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ چارے کی بات کریں تو امسال جولائی میں وزیر اطلاعات و نشریات نے ایوان پارلیمان میں بتایا کہ 2019کے بعد سے مودی سرکار نے اشتہار بازی پر 900 کروڈ روپیہ خرچ کرچکی ہے۔ اتر پردیش کی حکومت نے اس سال کے لیے 410.08 کروڈ کا بجٹ مختص کیا ہے اس میں مزید سو کروڈ کے اضافے کی گنجائش ہے۔ ایسا سبھی ریاستی سرکاریں کرتی ہیں۔ یہ عوامی ٹیکس کا پیسہ ہے جو ان کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ پارٹی کی تجوری سے جو کالا اور سفید دھن بانٹا جاتا ہے اس کا حساب کتاب رکھنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں بےضمیر صحافیوں کی خاطر اپنے ایمان کو بچانا ایک بہت بڑی آزمائش ہے اور اس میں اچھے اچھے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس جال میں گرفتار ہونے سے بچ جانے والوں پر سرکاری عتاب نازل ہوتا ہے۔ دہلی کا معروف ادارہ’دی وائر‘ فی الحال سرکاری غیض وغضب کا شکار ہے۔ اس سے قبل کیرالہ کا میڈیا ون، این ڈی ٹی وی، نیوز کلک اور دیگرکئی چینلس کو پریشان کیاجا چکا ہے ۔ اس کے علاوہ بلاواسطہ طور پر شمس تبریز قاسمی کےملت ٹائمز اور عباس حفیظ کے لائیو ٹی وی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

سرکار اس دوہری چال کا شکار ہونے والے صحافیوں نے مال و دولت تو خوب کمائی مگر عزت و تکریم سے محروم ہوگئے ۔ اس کے برعکس عزت انہیں کو ملی جنھوں نے سرکاری مراعات کو ٹھکرا کر اور خوف وخطر کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ذمہ داری ادا کی ۔ ان میں جہاں رویش کمار کا نام سرِ فہرست ہے وہیں رعنا ایوب بھی موجود ہے۔ سدھارتھ ورداراجن کے شانہ بشانہ عارفہ خانم شیروانی بھی کھڑی نظر آتی ہیں۔ ابھیسار شرما کے ساتھ عبدالسلام پتیگی بھی دکھائی دیتے ہیں۔اس میدان میں ایک طرف پرتیک سنہا اپنی موجودگی درج کراتے ہیں تو ان کے دو قدم آگے محمد زبیر نظر آتے ہیں۔ ثنا ارشاد مٹو اور دانش صدیقی کو مشکل ترین حالات میں بہترین صحافتی فوٹو گرافی کے لیے عالمی سطح پر جو پذیرائی ملتی ہے اس کا تو تصور بھی گودی میڈیا کا کوئی صحافی نہیں کرسکتا ۔ سدھیر چودھری ، دیپک چورسیا ، انجنا اوم کشیپ ، ارنب گوسوامی اور امن چوپڑا جیسے لوگوں کی حیثیت صحافی کی نہیں بلکہ نوٹنکی باز بھانڈ کی ہوکر رہ گئی ہے اور کوئی انہیں پوچھ کر نہیں دیتا۔

باضمیر اور دلیر صحافیوں پر جاری و ساری حکومت کی زیادتی کا ایک نمونہ گزشتہ ماہ اس وقت پھر سے سامنے آگیا جب کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو امیگریشن حکام نے کوئی وجہ بتائے بغیر دہلی ہوائی اڈے پر روک دیا۔ وہ نیرو مودی یا وجے مالیا کی مانند ملک کو لوٹ کر فرار نہیں ہو رہی تھیں بلکہ قوم کا نام روشن کرنے کی خاطر گراں قدر پلٹزر انعام لینے کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔ اس روکے جانے پر ثنا نے بتایا تھا کہ ان کے پاس امریکہ کا باضابطہ ویزا اور سفری ٹکٹ بھی موجود تھا۔اس کے باوجود جانے اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح کے تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کا موقع زندگی میں کبھی کبھار ہی ملتا ہے اور اس سے بھی مسلم خواتین سے ہمدردی کا ڈھونگ کرنے والی حکومت نے روک کر اپنی اسلام دشمنی کو بے نقاب کردیا۔ پچھلے ایک برس کے اندر دوسری مرتبہ انہیں بیرون ملک جانے سے روکا گیا ہے۔ جولائی میں ایک کتاب کے اجراء اور تصویروں کی نمائش میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے بھی ان کو روک دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مودی سرکار نے یہ حماقت کرکے دنیا بھر میں اپنی مذمت کا سامان کیوں کیا ؟

دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) کی جنرل سکریٹری سجاتا مدھوک کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ ، "یہ صرف پریس کی آزادی پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی ہندوستانی شہری کی آزادی پر حملہ ہے۔ آپ اپنے کسی شہری کو باہر جانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟"انہوں نے مزید کہا، "وہ(ثنا) ایک ایوارڈ یافتہ فوٹو گرافر ہیں، وہ انعام لینے جارہی تھیں۔ انہیں بار بار روک کر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ صرف کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہی نہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ حکومت پہلے بھی ایسا کرتی رہی ہے۔"حکومت کے اس اقدام کی وجہ بتاتے ہوئے سجاتا مدھوک نے کہا کہ ، "اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کسی کشمیری صحافی کو باہر جانے سے روک کر کشمیر کے معاملات اور اصل حقائق کو دنیا سے چھپایا جا سکتا ہے تو یہ بالکل بے معنی فعل ہے۔ جب آپ کسی کو روکتے ہیں فوراً خبر بن جاتی ہے۔ آپ حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔" حکومت اپنے کرتوتوں سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ اس کی سمجھ میں اتنی آسان سی بات بھی نہیں آتی اور وہ حماقت پر حماقت یا بدنامی پر بدنامی کرتی چلی جاتی ہے۔

پچھلے سال جولائی میں سری لنکا کے اندر زبردست تاریخی سیاسی خلفشار رونما ہوا۔ اس نے وہاں اقتدار پر قابض حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کردیا ۔ اس غیر معمولی خبر کو کوور کرنے کی خاطر ساری دنیا کے اخبارات نے اپنے نامہ نگار وہاں روانہ کیے۔ برطانیہ کے مشہور اخبار' گارڈین' نے خبر رسانی کی خاطر کشمیری صحافی آکاش حسن کو سری لنکا بھیجنے کے لیے منتخب کیا لیکن حکومتِ ہند نے انہیں بھی دہلی ہوائی اڈے پر روک دیا ۔ اس طرح کی حرکات سے حکومت کا پہلے تو یہ دعویٰ غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ معمول پر آگیا ہے۔ وہاں کے باشندوں کو بھی وہی مراعات حاصل ہوگئی ہیں جس سے ملک کے دیگر حصے میں رہنے والے لوگ فیضیاب ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ سرکارسبھی کو نہ خرید سکتی ہے اور سب کو خوفزدہ کر دینا اس کے بس میں ہے بلکہ وہ خود ان سے ڈر کر اس طرح کے بزدلا اقدامات کرتی ہے۔

ثنا ارشاد مٹوسے قبل مسرت زہرا کو انٹرنیشنل وومین میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے عالمی تمغہ مل چکا ہے۔ ایک جرمن ادارہ سپاس نامہ کے ساتھ دوکروڈ رقم جانباز صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے دیتا ہے۔ صحافت کے شعبے میں معتبر اور اعلیٰ ترین ایوارڈ سمجھے جانے والے 'پلٹزر پرائزز2022 ' کا اعلان ہوا تو اس میں ہندوستان کے چار فوٹوگرافر شامل تھے ۔ ان میں مرحوم دانش صدیقی کا نام دوسری مرتبہ شامل کیا گیا تھا جو گزشتہ برس جولائی میں افغانستان کے اندر جنگ کی کوریج کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ انہیں ہندوستان میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی دوران لی جانے والی تصاویر کے لیے پلٹزر ایوارڈ دیا گیا۔ان کے علاوہ رائٹرز کے فوٹوگرافرز میں عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امت دیو کے نام نامی شامل تھے ۔ یہ کس قدر اعزاز کی بات ہے کہ جس اقلیت کی آبادی ملک میں صرف 15 فیصد ہے اس کی حصہ داری مؤقر ترین ایوارڈیافتگان کی فہرست میں 75 فیصد ہے۔ دن رات امت کو کوسنے اور عار دلانے والوں کو ان حقائق کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔

معروف صحافی اور مصنف رعنا ایوب کے خلاف ای ڈی نےحال میں منی لانڈرنگ کی فرد جرم میں کئی سنگین الزامات لگائے ہیں جن کا انکار وہ پہلے ہی کرچکی ہیں ۔ بی جے پی کے نزدیک رعنا ایوب کا سب اہم قصور مختلف مسائل پر بے باک رائے کا اظہار ہے۔ گجرات فسادات پر مبنی ان کی تحقیقاتی و دستاویزی تصنیف گجرات فائلز وزیر اعظم مودی کی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہےکیونکہ اس مقبول کتاب کے دنیا بھر میں سال 2019 تک 6 لاکھ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے تھے۔ ایسا اعزاز بھلا ملک کے کس صحافی کو حاصل ہوا ہے؟ رعنا ایوب کے مضامین ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ سمیت کئی بین الاقوامی اور قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی حمایت میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک پورا صفحہ شائع کیا تھا۔ رعنا ایوب کو سال 2002 می موسٹ ریزیلئنٹ جرنلسٹ ایوارڈ سے سرفراز کیا جا چکا ہے اوروہ جراْت مندانہ صحافت کے لئے ’میک گیل میڈل‘ سے بھی نوازی جاچکی ہیں۔

مسلم پبلک افیئرز کونسل آف یو ایس اے نے 2020 میں رعنا ایوب کو وائس آف کریج اینڈ کانشئس (دلیری اور باضمیر)ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا جبکہ ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے ان 10 صحافیوں کی فہرست میں جگہ دی ہے، جن کی جان کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ سوشل میڈیا میں انہیں ریپ تک کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں اور ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج کرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اس ملک کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں بزدلوں کو نوازہ جاتا ہے ۔ کنگنا رناوت جیسے چاپلوسوں کو سرکاری سیکیورٹی دی جاتی ہے اور باصلاحیت افراد کی ناقدری ہوتی ہے ۔ ایسے میں نامور لوگ کیسے پیدا ہوں گے؟ ہندوستانی صحافت کا ایک غیر معمولی واقعہ امسال محمد زبیر کا آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا کے ساتھ ٹائم میگزین کے ذریعہ 2022 کا امن کا نوبل انعام جیتنے کے دعویدار کے طور پر درج کیا جانا تھا۔ وہ تو خیر انعام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ورنہ بعید نہیں کہ حکومت ہند انہیں بھی اس کو لینے کے لیے جانے سے روک کر اپنی زبردست بے عزتی کروالیتی۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں پائے جانے والے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ملت کے یہ ستارے روشن چراغ کی مانند ہیں اور ان پر نہ صرف امت کو بلکہ پوری قوم اور عالمی صحافتی برادری ناز کرتی ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450001 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.