گذشتہ روز تھا نہ کاہنہ میں تعینات ایس ایچ او عاصم حمید
سے میجر ریٹائرڈ عاطف مد ثر کے ہمراہ آفیشل ملاقات ہوئی ،راقم نے کچھ وقت
ان کے آفس میں گزارا جن میں ایس ایچ او صاحب عوام الناس کے مختلف ایشوز پر
مسلے مسائل سن رہے تھے اور انکا حل نکال رہے تھے ۔ہماری باری پر انہوں نے
پانچ منٹ نماز پڑھنے کے لیے نکالے۔عوام الناس کے بھاری بھرکم مسائل اور
انکے متبادل وسائل نہایت کم دیکھنے کو ملے۔ایس ایچ او صاحب سے طویل گفتگو
کے دوران ایک معصومانہ شکوہ سننے کو ملا کہ پنجاب پولیس کے اچھے اقدامات
نظر انداز کیوں ؟راقم یہ جملہ سن کر بر ملا سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ
ایک تلخ حقیت ہے جس کا اجاگر ہونا اشد ضروری ہے جیسا کہ پاکستان میں میچز
کا شور ہے۔ ان میچز کے انعقاد کا کریڈٹ سب کو جاتا ہے۔ یہ پرامن پاکستان کی
جانب عملی قدم ہے۔ آخر ہمیں دنیا کو بھی بتانا ہے کہ ہم پر امن ہیں۔جہاں
ملک میں میچز کی خوشیاں ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان
خوشیوں کے لیے ہمارے جوانوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں فوج
کے ساتھ ساتھ پولیس نے بھی دی ہیں۔دیگر ادارہ جات کو سکون مہیا کر کے پتنگ
بازی جیسی اہم ذمہ داری بھی پولیس پر ڈال دی گئی ہے ،اتنے اتنے بڑے علاقے
میں اتنی کم نفری ہونے کے باوجود پولیس عملہ دن رات محنت کرتا ہے اور
وارداتوں سمیت دیگر اہم مسائل کے حل کے لیے پیش پیش نظر آتا ہے ۔اور اب
پتنگ بازی جیسی ذمہ داری نے انکے تمام معاملات کو متاثر کے رکھ دیا ہے ۔ یہ
امر نہایت افسوسناک ہے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس کی قربانیوں کو اس طرح
قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس طرح دیکھا جانا چاہیے۔ ہمیں معاشرے میں
یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ پولیس کے جوان کی قربانی بھی کسی طرح کم نہیں
ہے۔ خون پھر خون ہے۔تاہم میرے نزدیک افسوس کی بات یہ ہے کہ میچیزکی رونق
میں ہم امن کی خاطر شہید ہونے والے پولیس جوانوں کی قربانی کو بھول گئے، ان
شہدا کے خاندانوں کو بھول گئے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ پولیس کے اندر صورتحال
اس حوالے سے بہتر ہوئی ہے۔ تاہم بطور معاشرہ صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
پولیس کو ہمارے معاشرہ میں محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ پولیس کے بارے
میں عمومی تاثر درست نہیں ہے۔ لوگ پولیس سے خوفزدہ بھی ہیں اور نالاں بھی۔
تھانہ کلچر کی بھی بات کی جاتی ہے۔ یہ درست ہے اس ضمن میں کافی اصلاحات بھی
کی گئی ہیں۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تھانہ کلچر بالکل ٹھیک ہو گیا
ہے،اس ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔سہولیات کے فقدان کو ختم کرنے کی
اشد ضرورت ہے۔وسائل کی وافر فراہمی ضروری ہے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ
بدلتے زمانے کے ساتھ جرم کی نوعیت بدل رہی ہے۔ بچوں کے ساتھ ہونیوالے جرائم
نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ زینب کے واقعہ نے ہم سب کو پریشان کر
دیا۔ اسی تناظر میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام بھی پولیس نے اپنے ذمے لے
لیا ہے حالانکہ یہ کام پولیس کا نہیں ہے تاہم حالات کے تناظر میں پولیس نے
یہ کام بھی شروع کر دیا ہے۔گذشتہ ایک دوبرس کا ہی جائزہ لیں تو بچوں کی
حفاظت کے حوالے سے عظیم الشان سیمینار منعقد کروایا جس میں انھوں نے والدین،
اساتذہ، صحافیوں، دانشوروں اور انسانی حقوق سے وابستہ مختلف اسٹیک ہولڈرز
کو اکٹھا کر کے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے حوالے سے سب کی ذمے داریوں
کا تعین کیا اور اس سنگین صورت حال سے بچوں کو بچانے کے لیے پالیسی میکرز
کا کردار ادا کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی فورس کے اچھے نتائج حاصل کرنے
ہوں تو اس فورس کی ویلفیئر پر توجہ دینی لازم ہے اسی طرح فورس کے مسائل حل
کرتے ہوئے جوانوں کے جتنے مسائل کم کیے جائیں اتنا ہی وہ چاک و چوبند نظر
آتے ہیں۔ اس وقت پنجاب پولیس پورے ملک میں سب سے بہترین اور جدید ٹیکنالوجی
کا استعمال کر رہی ہے اور پولیس ویلفیئر کے حوالے سے بھی دیگر صوبوں کی
پولیس پنجاب پولیس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن پنجاب پولیس کا المیہ
یہ ہے کہ اس کے حوالے سے سیاسی سطح پر تعریفی انداز نہیں اپنایا گیا۔یہی
وجہ ہے کہ یہاں ہونے والے کارنامے دب جاتے ہیں اور انھیں ملکی منظر نامے پر
جگہ نہیں مل پاتی حالانکہ وہی پراجیکٹ پنجاب پولیس کے بعد دیگر کسی صوبے کی
پولیس اپناتی ہے تو اسے ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔یہ افسوس کی
بات ہے کہ عمران خان پولیس کے محکمہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے
استعمال کر رہے ہیں۔ان کی جانب سے پنجاب پولیس کو ٹارگٹ بنانا پولیس کے
مورال کو ڈاؤن کر رہا ہے۔ یہ دو رنگی اب ختم ہونی چاہیے ، ہم جہاں پولیس پر
تنقید کرتے ہیں وہیں پولیس کے اچھے کاموں اور کارکردگی کو سراہنا بھی ہمارا
فرض ہے۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ آج بہترین سیکیورٹی انتظامات لاہور
پولیس نے ہی کیے ہے اور عالمی کرکٹ کو پاکستان کے حوالے سے مطمئن کیا
ہے۔کوئی بھی فوجی یا ریاستی اہلکار اپنی جان اس لئے قربان نہیں کرتا کہ اسے
جان قربان کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ بلکہ وہ اس جذبے سے سرشار ہو کر دشمنوں
کے خلاف لڑتا ہے کہ اگر ملک کی حفاظت کے لئے جان بھی دینی پڑی تو پروا نہیں۔
یہ جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے، اسے برقرار رکھنے کا کیا طریقہ ہے اور کون سے
ایسے اقدامات کئے جائیں کہ یہی جذبہ تمام سکیورٹی اداروں کے ہر اہلکار میں
موجزن رہے۔فوج میں تو شہدا کے لئے ایسے کئی پروگرام موجودہیں مگر پولیس اور
دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار اگر دہشت گردوں سے نبردآزماہوتے ہوئے جام
شہادت نوش کر جائیں تو ان کے خاندان کو فقط چند لاکھ روپے معاوضہ ملتا
ہے۔اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ًً! |