وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں بلدیاتی اداروں کا ماضی کبھی
بھی تابناک نہیں رہا۔ تاریخ ِ ماضی کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
جمہوری یا غیر جمہوری حکومیتں، ان سب ادوار میں بلدیاتی اداروں کیساتھ
ہمیشہ سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا۔ ماضی اور حال میں تمام وفاقی اور صوبائی
حکومتوں نے اپنی پالیسیوں اور برے رویوں سے نہ صرف مقامی حکومتوں کی تشکیل
کی حوصلہ شکنی کی بلکہ ان مقامی حکومتوں کو چلانے میں بہت سی رکاوٹیں بھی
کھڑی کیں۔ کبھی صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی جنگ تو کبھی
صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کو مالی وسائل فراہم نہ کیا جانا۔
جبکہ پاکستان کا آئین مقامی حکومتوں کے بارے میں واضح ہدایات و رہنمائی
مہیا کرتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 32 کیمطابق ''ریاست(پاکستان) متعلقہ
علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی
کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی
دی جائے گی''۔ اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 A کے تحت ''ہر صوبہ، بذریعہ
قانون، ایک مقامی حکومت قائم کرے گا۔ حکومتی نظام اور سیاسی، انتظامی اور
مالی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو سونپنا۔ اور
مقامی حکومتوں کے انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کرائے گا''۔جبکہ موجودہ
حالت زار یہ ہے کہ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی عوام مقامی حکومتوں سے عرصہ
دراز سے محروم ہیں۔ آئین پاکستان میں درج واضح ہدایات و رہنمائی کے باوجود
پاکستان کی جمہوری پارٹیوں / صوبائی حکومتوں کی جانب سے عرصہ دراز سے صوبہ
پنجاب اور صوبہ سندھ کی عوام کو بلدیاتی اداروں سے محروم رکھنا انتہائی ظلم
ہے۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو ختم کردیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ چھ ماہ کے
بعد قانون سازی کر کے نئے انتخابات کروائے جائیں گے اور پھر ایک آرڈیننس کے
تحت اس مدت میں مزید سوا سال کی توسیع کردی گئی۔ یاد رہے پنجاب میں بلدیاتی
انتخابات سنہ2016 میں ہوئے تھے اور ان اداروں کی پانچ سال کی مدت دسمبر
2021 میں پوری ہوئی، مگر 2018 کے بعد پی ٹی آئی نے جہاں 10 کروڑ سے زائد
آبادی کے صوبہ پنجاب کو عثمان بزدار جیسے نالائق شخص کے حوالے کئے رکھا۔
وہیں پر صوبہ کی عوام کو مقامی حکومتوں سے محروم رکھا، جسکی بظاہر سادہ سی
وجہ صوبہ پنجاب کے تقریبا تمام ضلعوں کی مقامی حکومتوں کے سربراہوں کا مسلم
لیگ ن سے تعلق تھا۔رواں ہفتہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے پنجاب
حکومت کے رویے کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا۔ اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر
کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا جائزہ لیا
گیا۔ اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن کے اجلاس میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی
نے لوکل گورنمنٹ بل یکم نومبر کو منظور کرلیا ہے۔الیکشن کمیشن کے اعلامیے
کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے ڈرافٹ رولز موصول ہوئے ہیں۔ اعلامیے کے
مطابق پنجاب حکومت سے دیگر دستاویزات اور نقشہ جات تاحال نہیں ملے، معاملے
کا نوٹس لیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق پہلے بھی الیکشن کمیشن پنجاب میں 2
بارحلقہ بندیوں کی تکمیل کرچکا ہے، ان حلقوں پر آنے والے اخراجات قومی
خزانہ پر بوجھ ثابت ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق پنجاب حکومت کا
رویہ غیرسنجی77777د7ہ ہے، بار بار قانون میں ترامیم کے باعث پنجاب میں
الیکشن کا انعقاد نہیں ہوسکا۔ اعلامیے کے مطابق اب الیکشن کمیشن کو پنجاب
میں تیسری بار حلقہ بندیاں کرنی پڑیں گی، الیکشن کمیشن لوکل گورنمنٹ الیکشن
120 دن کے اندر کرانے کا پابند ہے۔ اعلامیے کے مطابق وزیر لوکل گورنمنٹ،
چیف سیکرٹری اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب کو طلب کیا جائے گا۔ دوسری طرف
صوبہ سندھ (خصوصا کراچی ڈویژن) کی عوام بھی عرصہ دراز سے مقامی حکومتوں سے
محروم ہے۔ حیرانی اس بات پر زیادہ ہے کہ پاکستانی آئین کی خالق جماعت
پاکستان پیپلز پارٹی بھی بلدیاتی اداروں کے قیام میں حیلے بہانے تلاش کرتی
دیکھائی دیتی ہے۔ صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے راہ
فرار کے لئے سیلاب کی تباہ کاریوں کا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے تو کبھی
انتخابات کے انعقاد کے لئے مطلوبہ سیکورٹی کی عدم دستیابی کا بہانہ منظر
عام پر آتا ہے۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی صوبائی حکومتوں کے رویوں سے
بظاہر ایسا ہی محسوس ہورہا ہے کہ ان صوبوں میں بلدیاتی انتخاب کا انعقاد
اور مقامی حکومتوں کا قیام مستقبل قریب میں بھی ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا۔
ایک طرف صوبائی حکومتوں کی مقامی حکومتوں کے قیام میں سست روی تو دوسری طرف
ان صوبوں کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے خواب خرگوش میں پڑے رہنا بھی
انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ مسلم لیگ ن وفاقی حکومت سنھبالنے اور حمزہ شہباز
کی صوبائی حکومت ملنے اور ملنے کے بعد کھو جانے کی وجہ سے یا تو ابھی تک
صدمے سے دوچار ہے یا پھر بظاہر ستو پی کر سو رہی ہے۔ صوبہ پنجاب میں
اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف سمیت اپوزیشن کی کسی بھی قدآور شخصیت کی جانب
سے بلدیاتی اداروں کے قیام کے لئے آواز نہ اُٹھانا ان جمہوری جماعتوں کی
نام نہاد جمہوری سوچ و اقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری جانب صوبہ سندھ میں
ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی اتنی شدو مد
سے صوبائی حکومت کو بلدیاتی انتخاب منعقد کروانے کے لئے پریشر ڈالتی
دیکھائی نہیں دیتی۔یاد رہے پاکستان کے سب سے بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں
مقامی حکومتوں کا قیام نہ ہونا سنگین آئین شکنی کے مترادف ہے۔ عوام اور
حکام کے درمیان حائل خلیج میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دنیا جہاں
کی ترقی یافتہ جمہوری مملکتوں کی ترقی کی ایک وجہ انکے ہاں مضبوط مقامی
حکومتوں کا قیام ہے۔ جس میں عوام الناس کو اپنے مقامی مسائل حل کروانے کے
لئے صوبائی یا وفاقی حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔ الیکشن کمیشن کی
جانب سے صوبائی حکومتوں کیساتھ معاملات اُٹھائے جانے سے بظاہر یہ امید پیدا
ہورہی ہے کہ کہ ان صوبوں میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کی راہ ہموار
ہوجائے گی۔
|