2009کے انتخابات میں جی بی ایل اے 13،استور حلقہ 1سے
سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے خوبرو نوجوان جناب خالد خورشید کے بارے میں
کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک وقت آئے گایہی نوجوان گلگت بلتستان کے
وزیراعلیٰ منتخب ہوں گے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے
گلگت بلتستان کے روح رواں ہوں گے ۔ تاریخ عالم نے دیکھا ایسا ہوا ،بہت کم
عرصے میں ہوا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ پہلے مقامی وزیراعلیٰ ہیں۔بطور
وزیراعلیٰ خالد خورشید کو ملکی سیاسی کشیدہ حالات کے باعث قومی سطح پر غیر
معمولی پذیرائی ملی ۔ لانگ مارچ کے دوران ان کا طلسماتی کردار وزارت داخلہ
اور میڈیا میں زیر بحث رہا ۔وفاقی وزیر داخلہ آزادی مارچ کو اسلام آباد تک
پہنچانے میں اہم کردار آپ کو گردانتے ہیں ۔خالد خورشید کا شمار پاکستان کے
اُ ن بانصیب نوجوان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھیں سیاست راس آئی۔یوں تو
پاکستان میں سیاسی میدان میں قدم رکھنا پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا
سفر ہے ۔جہاں ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا ہے ،جہاں سیاست منافقت ہے
جہاں قابلیت ،دیانت اور علمیت معنی نہیں رکھتیں بلکہ رشوت ،سفارش ، مورثیت
،دھندا بامعنی ہوتا ہے ۔خالد خورشیدنے بطور آزا دامیدوار 2009کے الیکشن میں
پہلی مرتبہ اپنی قسمت آزمائی اور چند سو ووٹ حاصل کرپائے ۔ الیکشن 2009میں
انھیں ان کے خاندان والے بیرسٹر کے نام سے یاد کیا کرتے تھے ۔ انتخابی
کمپین کے لیے آویزاں کیے جانے والے بینرز ، پنافلکس اور پوسٹر میں بیرسٹر
خالدخورشید کا نام بڑے حروف میں نمایاں کرکے درج کیا جاتا تھا ۔ خوبصورت
تصویر اور اس کے ساتھ بیرسٹر کا لقب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کا بہترین
ذریعہ تھا ۔بہت سے سادہ لوح لوگ تو تصویر دیکھ کر ان کی طرف راغب ہوتے تھے
اورچند ایک لفظ بیرسٹر سے متاثر ہوکر ہمدردی کا اظہا ر فرمارہے تھے
۔انتخابات 2009ء کے دوران راقم کی اُن سے ملاقات بھی ہوئی اور عوامی مسائل
پر گفت وشنید کے دوران سیاسی ناپختگی کا عنصر ان کی گفتگو سے جھلک رہا تھا
۔ مگر وقت سب سیکھا دیتا ہے ۔انتخابات2009ء سے 2020کے دوران یوں تو بہت سی
تبدیلیاں رونما ہوئی ،جہاں خالد خورشید سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرنے لگے
وہی ان کے نام منسوب بیرسٹر کا فرضی لفظ بھی ہٹادیا گیا ۔انتخابات 2020کی
کمپین کے دوران بیرسٹر کا لفظ نظر نہیں آیا ،بلکہ میدان عمل میں خالد صاحب
اور ان کے بھائی نظر آیے ۔ خالد خورشید کے حلقے کی نامور شخصیات کی اکثر یہ
شکایت کہ رہی خالد خورشید سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر پارہے ہیں،مختلف
وفود سے ملاقاتوں کے دوران خالدخورشید صاحب موبائل میں لگے رہتے ہیں اور
انھیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی ۔حلقے کے لوگوں کا یہ شکوہ ہمیشہ ان سے رہا
ان کی جگہ تمام معاملات کے ان کے بھائی نمٹا رہے ہوتے ہیں ، گھر ہویا پھر
سیاسی کمپین، تمام معاملات خالد خورشید سے بڑھ کرا ن کے بھائی نبھا رہے
ہوتے ہیں ۔الیکشن 2020کے دوران بھی ان کی کامیابی کی اصل وجہ ان کے بھائیوں
کی کوششیں اور دانشمندی ہے ۔2020کے الیکشن میں خالد خورشید کی ٹیم کی حکمت
عملی قابل داد تھی۔ جس بناپر ان کی کامیابی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔پی
ٹی آئی رہنما خالد خورشید کے مد مقابل ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر بلدیات
فرمان علی تھے۔یوں تو حلقے میں کئی امیدوار مد مقابل تھے مگر یہ دونوں
رہنما تگڑے اور سخت مدمقابل ہیں۔ رانا فرمان علی کو مات دینا بہت مشکل کام
تھا مگر خالد خورشید کے بھائیوں کی بہترین حکمت عملی نے اس کام کو آسان
بنایا تو دوسری طرف سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان صاحب خان نے خالد کی
کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے گودائی اتحاد کے نام سے ایک گروپ بنایا اور
ڈنڈے کے طور پر ڈاکٹر عباس کو کھڑے رکھا ۔ جس کے نتیجے میں رانا فرمان کے
ووٹ بینک میں واضح کمی ہوئی ۔ دوسری طرف حلقے کی سب سے بڑی یونین رحمان پور
میں خالدخورشید کی ٹیم نے اپنے جال بچھائے اور رانا فرمان کے گاوٴں چورت سے
محمد شفیع المعروف داد سرکار کو میدان میں اتارا اور انھیں واضح ہدایات دی
کہ آپ اپنی جگہ ڈٹے رہیں اور رانا فرمان کے ووٹ بینک کو شدید زک پہنچائیں
ایسا ہی ہوا ، دوسری طرف تری شنگ و روپل سے بھاری ووٹ کے حامل نوجوان رہنما
نسیم شاہ کو ایک اندھے اور کھوکھلے معاہدے اور چند خواب دکھلا کر اپنے حق
میں بٹھایا اوراسی گاوٴں سے تعلق رکھنے والے ایم ڈبلیو ایم کے سابقہ رہنما
پروفسیرمیر تسنیم اکبرکو اپنی جگہ کھڑے رکھا، اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا
کہ تری شنگ وروپل کے فیصلہ کن ووٹ نے خالد خورشید کی جیت کو یقینی بنایا
اور دیکھتے ہی دیکھتے وزیراعلیٰ بن بیٹھے ۔ الیکشن کے اس تمام مرحلے میں
خالدخورشید کے بھائی عاطف خورشید کا کردار کلیدی رہا ، مرکز سے آیے ہوئے پی
ٹی آئی رہنما زلفی بخاری ، علی امین گنڈا پور نے بھی اہم کردار ادا کیا ،
بہت سے نوجوان سیاسی رہنماوٴں سے جھوٹے وعدے اور دعوے کیے اور الیکشن کے
بعد فرار ہوگئے ۔ الیکشن 2020میں خالد خورشید کی کامیابی کا سارا داردو
مدار تری شنگ و روپل والوں کے ووٹ بینک پر تھا ، نسیم شاہ نے اپنی سیاسی
زندگی کو قربان کرکے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور تاحال مایوسی کفر ہے پر
گرفت مضبوط رکھے ہوئے سی ایم سیکریٹریٹ کے چکر کاٹ رہے ہیں مگر ہنوز دلی
دور است ۔۔۔۔!!اس حکمت عملی کا دو شخصیات کو ذاتی طور پر بہت فائدہ ہوا
۔ایک تو بذات خود وزیراعلیٰ کا جو نہ صرف الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے
بلکہ وزیراعلیٰ کے مسند پر براجمان ہوئے ، خالد خورشید کے وزیراعلیٰ ہوتے
ہی محمد شفیع المعروف داد ا سرکار نے بھی خوب فائدہ اٹھایا ، دادا سرکار کے
بندوں کو گلگت میں اہم مسند وں پر ترقیاں دی گئی جو کہ ریکارڈ کا حصہ ہیں
۔میر تسنیم اکبر تاحال ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی وزیراعلیٰ خالد خورشید
سے کوئی ڈیل ہوئی تھی ، رہی بات مقتدر کے سکندر ،نسیم شاہ کی جن کے مقتدر
میں سی ایم سیکریٹریٹ کے چکر کاٹنا لکھاگیا ہے اور نہ نجانے کس گلی میں شام
ہوجائے ،یہ سفر کب تک جاری رہے گا۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر ضرور کروں گا
کہ وزیراعلیٰ کی عدم توجہی کی وجہ سے حلقے کے لوگ شدید خائف ہیں تو ساتھ ہی
تری وشنگ وروپل کے عوام سے کیے گئے تحریر معاہدے کی عدم تکمیل کی وجہ سے
عوام میں شدید غم وغصہ پایا جاتا اور اس کا اظہار ہونے لگا ہے ۔ نچوڑ یہ کہ
اگر حالات یہی رہے تو آنے والے الیکشن میں وزیراعلیٰ خالد خورشید کا حال
سید مہدی شاہ اور حفیظ سے بھی برُا ہوگا ۔ اگلا کالم وزیراعلیٰ خالد خورشید
کی جعلی ڈگری کے حوالے سے ہوگا ضرور پڑھیے گا
|