برسراقتدار طالبان نے افغانستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کااعلان کردیا۰۰۰

افغانستان میں پھر ایک مرتبہ شرعی قوانین پر سختی سے عمل آوری کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اسلام ہی ایک ایساعظیم الشان مذہب ہے جس نے شرعی قوانین کے ذریعہ انسانیت کی حفاظت کی ہے ، ظلم و بربریت کو روکنے ، حق دار کا حق ادا کرنے اور مجرم کو جرم کی سزا دینے کے احکامات بتائے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے کہاہیکہ چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کرنے والے کی فائلوں کا بغور جائزہ لیا جائیگا۔افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اﷲ اخواندزادہ نے ججوں کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہیکہ ملک میں شرعی قوانین مکمل طور پر نافذ کئے جائیں جن میں سرعام پھانسی دینا، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور چوروں کے اعضا کاٹنا شامل ہیں۔سپریم لیڈر نے یہ حکم ججوں کے ایک گروپ سے ملاقات کے بعد جاری کیا ہے۔واضح رہیکہ گذشتہ سال اگسٹ میں امریکی اور نیٹو افواج اپنی بیس سالہ ناکام جنگ سے راتوں رات راہِ فرار اختیار کی اور اسکے فوراً بعد صدر افغان اشرف غنیجلا وطن ہوگئے ،اور پھرطالبان کا بیس سال بعد دوبارہ افغانستان پر اقتدار حاصل کرنا۔ سمجھا جارہا تھا کہ طالبان اس مرتبہ ملک میں سخت قوانین نافذ نہیں کرینگے اور عوام میں اعتماد پیدا کرنے اور طالبان کاجو خوف عوام میں بیٹھا ہوا ہے اسے دور کرنے کی کوشش کرینگے۔ لیکن لڑکیوں و خواتین کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کے معاملہ میں اجازت نہ دیئے جانے کے بعد عالمی سطح پر طالبان انتظامیہ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں تھیں ۔ امریکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے تمام اثاثہ منجمد کردیئے تھے جس کی وجہ سے افغانستان میں شدید معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ ان سب حالات کے باوجود طالبان حکمراں ملک میں سخت قوانین لاگو کررہے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ملک میں شرعی قوانین پر عمل در آمد سے ہی جرائم پر قابو پایا جاسکتاہے ۔ طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اخوندزادہ کے حکم کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کرنے والے کی فائلوں کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ فائلیں جن میں حدود اور قصاص کی تمام شرعی شرائط پوری کی گئی ہیں، تمام لوگ ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں، یہ شریعت اور میرا حکم ہے جو سب پر واجب ہے۔واضح رہے کہ اسلامی قوانین کے تحت حدود سے مراد ایسے جرائم ہیں جن کی سزائیں لازمی ہیں جبکہ دوسری جانب قصاص سے مراد ’بدلہ‘ ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر ایک شخص نے دوسرے شخص کی آنکھ ضائع کردی ہے یا نقصان پہنچایا ہے تو بدلے کے طور پر جرم کرنے والے شخص کی بھی آنکھ ضائع کی جائے گی۔ حدود کے جرائم میں زنا، کسی پر جھوٹا الزام عائد کرنا، شراب پینا، چوری، اغوا، ڈکیتی، انحراف اور بغاوت کرنا شامل ہے۔قصاص کے جرائم میں قتل اور جان بوجھ کر زخمی کرنا یا چوٹ پہنچانا شامل ہے لیکن یہ متاثرین کے اہل خانہ کو سزا کے بدلے معاوضہ قبول کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔اسلامی اسکالرز کا کہنا ہے کہ حدود کے جرائم میں ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، مثال کے طور پر زنا کے جرم میں ملزم کا جرم کرنے کا اقرار کرنا یا چار بالغ مرد مسلمانوں کا گواہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔کئی ممالک میں اسلامی قوانین لاگو ہیں اور سزائیں بھی دی جاتی ہیں البتہ حجاب کے معاملہ میں افغانستان میں سختی سے عمل کرنے کا حکم ہے ۔ اور کیوں نہ ہو حجاب میں اسلام نے خواتین کو جو عزت و احترام کا مقام دیا ہے اس کا اندازہ انہیں ہی ہوتا ہے جو اپنے خالقِ حقیقی اور نبی مکرم ﷺ سے سچی محبت رکھتی ہیں۔ایران میں کئی ہفتوں سے حجاب کے خلاف احتجاج جاری ہے جبکہ ایران کی حکومت حجاب پر سختی سے عمل آوری چاہتی ہے۔بے پردگی کے عام ہونے سے ہی فسق وفجور کی راہیں کھلتی ہیں اور اسی سے خواتین کی عزت عصمت پامال ہوتی ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان میں شرعی قوانین پر سختی سے عمل آوری دوسرے مسلم ممالک کیلئے ایک مثال ثابت ہوگی۔ سمجھا جارہا ہے کہ طالبان اس سے اپنی مذہبی شناخت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

مخصو ص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکارہے؟۔جسٹس عائشہ ملک
’’آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں، کیا کبھی باقی احتجاجیوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟‘‘۔ یہ سوال ہے سپریم کورٹ پاکستان کی جسٹس عائشہ ملک کا ۰۰۰ جنہو ں نے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کا لانگ مارچ روکنے کیلئے درخواست پر سماعت کے دوران کہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کا’’حقیقی آزادی‘‘ لانگ مارچ روکنے کیلئے جے یو آئی ایف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ میں سماعت کی ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کیلئے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ بینچ نے عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو حکم دیا کہ وہ آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کریں کہ پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد میں کس مقام پر احتجاج کرے گی۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت میں پیش ہوکر بینچ کو بتایا کہ وزیر آباد میں فائرنگ کے واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کیلئے پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا تھا، اور انتظامیہ نے تاریخ، وقت اور جگہ کے متعلق پوچھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ اس دوران جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا؟ جسٹس اطہر من اﷲ نے کہا کہ کیا انتظامیہ اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کرسکتی؟ یہ ایگزیکٹو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں، غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کرسکتی ہے، انتظامیہ کے پاس صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں، پھر عدالت مداخلت کیوں کرے؟

سینیٹر کامران مرتضیٰ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو سپریم کورٹ کے ذریعہ رکوانے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ انہو ں نے عدالت میں کہاکہ بات اب بہت آگے جاچکی ہے ،پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی ،جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے ، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجو کیا ہے؟ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں ، آئینی حدود سے مشروط ہے، کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہوجائے تو عدالت مداخلت کرسکتی ہے؟سہ رکنی بنچ کے جسٹس اطہر من اﷲ نے سینیٹر کامران مرتضیٰ سے کہا کہ آپ ایک سینیٹر ہیں پارلیمنٹ کو مضبوط کریں، کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں آیا ہوں، جسٹس اطہر من اﷲ نے کہاکہ کیسے مان لیں آپ حکومت کا حصہ ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے۔ سہ رکنی بنچ کے تینوں ججوں کے سوالات نے آخر کار کامران مرتضیٰ اپنی حکومت کی نااہلی بتانے پر مجبور کردیا یعنی انہوں نے کہاکہ ’’بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کرسکتی‘‘۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملک میں ہنگامہ نہیں امن و امان چاہتے ہیں، بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو قبل از وقت ہو ،اور درخواست گزار کامران سے جسٹس اطہر من اﷲ نے کہاکہ آپ چاہ رہے ہیں سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔آخر میں بینچ نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کا موقف سننے کے بعد درخواست غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی۔ عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل کے موقف کے بعد سپریم کورٹ کے حکم جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہوتو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ درخواست گزار نے کہا کہ درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کا حوالہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کیلئے معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے، عدالتی حکم ، عمل درآمد کیلئے ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ اسلام آباد کب پہنچتاہے اور شہباز شریف کی وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کوجس طرح روکنے کی کوشش کررہی ہے اس میں وہ کامیاب بھی ہوپائے گی یا نہیں ۔ اگر لانگ مارچ کو روکنے کی کوشش کی گئی تو حالات بگڑسکتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ انکا قانونی حق ہے اور وہ تمام آئینی دائرے اور حدود میں رہ کر حقیقی آزادی مارچ کو انجام تک پہنچائے گی۔اس سلسلہ میں 16؍ نومبر کو عمران خان نے کہا کہ راولپنڈی میں جمع ہونے کے بعد آئندہ کی حکمت عملی تشکیل دیں گے مگر جو بھی منصوبہ ہوگا پرامن ہوگا، آئینی حدود میں ہوگا اور ہم کسی قسم کی قانونی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان وزیر آباد میں ناکام قاتلانہ حملے میں گولیاں لگنے سے زخمی ہونے کے بعد لاہور میں اپنے گھر زمان پارک میں قیام کئے ہوئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پی ٹی آئی کا لانگ مارچ جہلم پہنچ چکا ہے ، عمران خان لانگ مارچ کے شرکاء سے روزانہ ویڈیو خطاب کررہے ہیں۔

ایران کا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل اور پہلی خلائی لانچ وہیکل کا تجربہ
ایران نے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل بنالیا ہے یہ اطلاع ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم نے پاسداران انقلاب کے ایرو اسپیس کمانڈر امیر علی حاجی زادہ کے حوالے سے بتائی ہے۔بتایا جاتا ہیکہ یہ بیلسٹک میزائل دشمن کے جدید میزائل شکن نظام کو نشانہ بنائے گا، فضا کے اندر اور باہر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے اور میزائل سازی کی صنعت میں ایک بڑا اقدام ہے۔واضح رہے کہ ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا تیز رفتار سے پرواز کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔’یہ کسی بھی میزائل شکن دفاع کے نظام کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘حاجی زادہ نے کہا کہ اسے روکنے کے قابل نظام کو تیار ہونے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنرل حاجی زادہ کا اندازہ درست ہے۔ کئی ممالک نے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے خلاف دفاع کے نظام تیار کیے ہیں، لیکن ہائپر سانک میزائل کو ٹریک کرنے اور اسے مار گرانے کی صلاحیت اب بھی ناپید ہے۔ہائپر سونک میزائل تیار کرنے کے دعوے کے بعد یہ سوال گردیش کرنے لگا ہے کہ ایران نے یہ ٹیکنالوجی کہاں سے حاصل کی۔ویسے گزشتہ برس شمالی کوریا کی جانب سے ہاپئر سانک میزائل کا تجربہ کیا گیا تھا ۔ہائپر سونک میزائل کی ٹیکنالوجی روس، چین اور امریکہ کے پاس بھی ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس میدان میں صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ہائبر سونک بیلسٹک میزائل کے بنائے جانے کے اعلان سے قبل ایران کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے گذشتہ ہفتے ایک خبر جاری ہوئی تھی کہ تین مرحلوں والی پہلی خلائی لانچ وہیکل غایم 100 کا تجربہ کیا گیا ہے جو زمینی سطح سے 500 کلومیٹر مدار میں 80 کلوگرام وزنی سیٹلائٹس کو رکھ سکے گی۔امریکہ نے اس طرح کے اقدامات کو 'غیر مستحکم' قرار دیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ خلائی لانچ وہیکل جوہری وار ہیڈ کو لے جانے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں تا ہم ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی تردید کرتا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ ایران کی جانب سے ہائپر سونک بیلسٹک میزائل کے بنائے جانے کا اعلان اور پہلی خلائی لانچ وہیکل غائم کے تجربے کے بعد عالمی سطح پر کس قسم کا ردّعمل آتا ہے اور پھر سے ایران کے خلاف مزید کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۰۰۰

فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل نے روبوٹک ہتھیار نصیب کردیئے
اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے دو مقامات فلسطینی پناہ گزین کیمپ اور مرکزی فلیش پوائنٹ پر روبوٹک ہتھیار نصب کئے ہیں جو مظلوم فلسطینی مظاہرین پر آنسو گیس ، اسٹن گرینیڈ اور ربڑ کی گولیاں فائر کرسکتے ہیں۔ بتایاجاتاہیکہ مصنوعی ذہانت والے یہ ہتھیار اپنے ہدف کو خود تلاش کرتے ہیں۔ اسرائیل حکومت کا کہنا ہیکہ ان جدید ہتھیاروں کی تنصیب سے اسرائیلی اور فلسطینی جانوں کو بچایا جاسکے گا۔جبکہ ناقدین کے مطابق اسرائیل اپنے فوجیوں کو نقصاندہ راستے سے دور رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو ہر لحاظ سے کنٹرول کرے گا۔ بتایا جاتا ہیکہ روبوٹک ہتھیار دوبڑے ٹاور پر نصب کئے گئے ہیں جہاں دوربین جیسے لینز ہیں اور آٹومیٹک بندوقیں نصب ہیں۔ بتایا جاتاہیکہ مقبوضہ مغربی کناریکے العروب مہاجر کیمپ کے قریب بڑے ٹاور پر جاسوس کیمرے بھی نصب ہیں۔ ان روبوٹک ہتھیاروں کا استعمال ایسے وقت کیا جائے گا جب فلسطینی مظاہرین ظلم و بربریت کے خلاف اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کرتے ہوئے سڑکوں پر آئینگے۔اسی اثناء یہ روبوٹک ہتھیار خودکار طریقے سے ان فلسطینی مظاہرین پر آنسو گیس پھینکنا یا ربڑ کی گولیاں چلانا شروع کردینگے۔واضح رہیکہ حالیہ انتخابات میں سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو والے اتحاد کی کامیابی کے بعد مزید تشدد کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
****

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.