مغرب ہونے والی تھی ۔ سورج اپنی کرنیں سمیٹے غروب ہونے کو
تھا ۔ مغرب کی جانب سورج کی مرجھاتی کرنیں کرہ ارض کو اندھیرے کے سپرد کرنے
کو تیار تھیں۔ اندھیرے کے آثار نمایاں ہو رہے تھے اور ہر فرد اپنے اپنے
گھروں کی طرف گامزن تھا۔ کھیل کے میدانوں میں بچے اپنے کھیلوں کے سامان کو
سمیٹنے میں مصروف تھے ۔ سردی اپنے مد مقابل سورج کو ڈوبتے دیکھ کر اپنا زور
دکھا رہی تھی۔ گھروں اور محلوں میں لائیٹیں اندھیرے سے نپٹنے کیلئے چلائی
جا رہی تھیں۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں مغرب ہوتے ہی دنیا کی رونق
مدھم ہو جاتی ۔ اور دور دور تک سناٹا چھا جاتا ۔ اس گاؤں کے ایک نکڑ پر ایک
چھوٹی سی کریانے کی دکان تھی۔ یہ دکان گاؤں والوں کیلئے رونق کا باعث تھی ۔
جہاں صبح کا آغاز تلاوت ِقرآن پاک سے ہوتا ۔ اس کے بعد گاہکوں کا رش لگا
رہتا کوئی صبح سویرے سکول جانے سے پہلے یہاں اسٹیشنری خریدتا تو کوئی ناشتے
کا سامان ۔ دکان کے سامنے ایک بڑی چارپائی پر بزرگ اخبار سے اپنا دل بہلاتے
اور پھر ملک کے حالات اور بالخصوص سیاست پر کافی بحث و تقرار ہوتی۔ المختصر
صبح اس دکان پر بزرگوں اور رات کو نوجوانوں کی محفلیں لگتیں ۔
مغرب کی آذانیں فضا میں گونج رہی تھیں اور کچھ لوگ آذان سنتے ہی دکان سے سو
میڑ کے فاصلے پر مشرق کی جانب مسجد میں نماز قائم کرنے جا رہے تھے اور کوئی
آذان کی پروا کیے بغیر دکان کے سامنے بچھائی چارپائی پر اپنی جگہ بنانے میں
مصروف تھے۔ اسی اثنا ء میں موٹر سائیکل پر سوار ایک شخص دکان کے سامنے اپنی
موٹر سائیکل کھڑی کرتا ہے اور چارپائی پر بیٹھے لوگ اس کو ملنے کیلئے کھڑے
ہوجاتے ہیں ۔ سلام دعا کے بعد وہ چارپائی کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا
ہے۔اس کی عمر تقریبا پچیس سے اٹھائیس بر س ہے ۔ وہ اسلام آباد میں قومی
اسمبلی کے میڈیا سیل میں انٹرن شپ کر نے کے ساتھ ساتھ میڈیا سٹڈیز ز میں
ایم فل کا طالب علم ہے۔ چارپائی پر بیٹھاایک لڑکا پرجوش انداز میں کہتا ہے
کہ آج ہماری محفل میں شفیق صاحب جو کہ نہ صرف ایک اچھے صحافی ہیں بلکہ
سیاست دانوں کو بہت قریب سے جانتے ہیں ، چار چاند لگائیں گے۔ اس پر شفیق
ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتا ہے آ ج سوشل میڈیا
کا دور ہے ۔ آپ سب مجھ سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں کہ سیاست دا نوں اور ملکی
مسائل کو باخوبی نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ اس کا اچھا تجزیہ کر سکیں ۔ وہ مزید
کہتا ہے بلکہ آج میں آپ لوگوں کی قیمتی رائے اور سیاسی تجزیے سے مستفید
ہونا چاہوں گا۔ اتنے میں ان میں سے ایک شخص موبائل پر کسی نجی چینل کی
ہیڈلائینز لگائے اونچی آواز میں کہتا ہے ۔ بن گیا چیف ، مک گیا تیرا شو
نیازی رو نیازی رو نیازی ۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا لڑکا کہتا ہے رکو ذرا صبر
کرو ، ابھی ہماری منظوری باقی ہے۔ جب تک ہم منظوری نہیں دیں گے تب تک کچھ
نہیں ہو سکتا۔ اس پر پہلے والا لڑکا کہتا ہے : بھائی جو مرضی کر لو چیف تو
بن گیا ۔ اب روتے رہو ۔ اس پر بیک وقت دو تیں مختلف آوازیں فضا میں بلند
ہوتی ہیں اور بے ہنگم آوازوں کی بنا پر کچھ سمجھ نہیں آتا۔ دکاندار اپنی
دکان سے نکل کر باہر آتا ہے اور کہتا ہے۔ تم لوگ چلا تو ایسے رہے ہو جیسے
تم سے پوچھ کر انھوں نے آرمی چیف لگانا ہے یہ پھر صدر نے تم سے پوچھ کر
منظوری دینی ہے۔ آہستہ بحث کرو ۔ تمھاری آوازیں لوگوں کے گھروں تک جارہی
ہوں گی۔ ان میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ جی ہاں ہم سے پوچھ کر چیف لگایا ہے۔
جمہوریت ہے ۔ اور ہمارے ووٹ کی طاقت سے ہی تو وزیراعظم چیف آف آرمی سٹاف کی
تقرری کا مجاز ہے۔ اس پر دوسرا لڑکا تنظیہ انداز میں کہتا ہے کہ گھر میں تم
سے روٹی نہیں پوچھتے اور چلے ہیں جناب چیف کی تقرری کرنے۔ شفیق یہ سارا
منظر دیکھ کر مسکرا دیا۔ اتنے میں ایک موٹر سائیکل سوار ساتھ سے گزرتے ہوئے
بولا : لگے رہو۔وہاں بیٹھے مجمعے میں سے ایک لڑکے نے کہا اس موٹر سائیکل
سوار کا مزاق اڑانا شروع کر دیا اور سب اس کی باتیں کرنے لگے ۔ اب ان کی
بحث سیاست سے ہٹ کر موٹر سائیکل سوار کی ذات پر شروع ہو گئی۔ کسی نے اس کے
والد کو ظالم کا خطاب دیا تو کسی نے اس کی ذاتی زندگی کے متعلق باتیں شروع
کر دیں ۔ کافی دیر موٹر سائیکل سوار کی باتیں کرنے کے بعد جس شخص نے اس کی
ذاتی زندگی پر بحث شروع کی تھی یہ کہہ کر بات ختم کر دی چھوڑو یار ہمیں کیا
۔ ایسے غیبت کر کے کیوں گنا ہ اپنے سر لے رہے ہو؟ اور پھر ایک سناٹا چھا
گیا اور ان میں سے ایک شخص نے شفیق سے مخاطب ہو کر کہا۔ شفیق بھائی اب ہمیں
دوٹوک جملوں میں بتائیں پاکستان کا کیا بنے گا۔ شفیق نے ہونٹوں پر مسکراہٹ
لاتے ہوئے کہا دو ٹوک بات یہ کہ ہم سب بطور قوم دوسروں کی ذاتی زندگی کی ٹو
لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اور ہمارا بطور قوم رویہ یہ ہے کہ کیسے
لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنایا جائے اور کیسے کسی کو نیچا دکھایا جا ئے ۔
ہماری سوچ کا زاویہ ہی ایک دوسروں کو نقصان پہنچانے سے شروع ہوتا ہے اور ہم
اصل موضوع پر سیر حاصل گفتکو کر ہی نہیں سکتے ۔ بطور قوم ہمارے کیا مسائل
ہیں اور ان مسائل کا کیا حل ہے ؟ اور ان مسائل کو حل کرنے پر انفرادی سطح
پر ہماری کیا کوششیں ہونی چاہیں ۔ ان سب سوالات سے ہمارا دور دور تک تعلق
نہیں ۔ معاف کرنا دوٹوک کڑوی باتیں کر کے مجھ سے کچھ گستاخی ہو گئی لیکن
میری رائے میں یہی اصل مسائل ہیں ۔ شفیق کی اس دو ٹوک بات سے مجمعے میں
سناٹا چھا گیا۔
شاید شفیق کی دوٹوک بات سے آپ کا اختلاف ہو لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ جہاں
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے مسائل کو حل کرنے میں کوشاں ہیں وہیں دوسری
طرف ہم ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنانے میں سرگرداں ہیں۔ ہم اپنے مسائل کا
حل شاید اس لیے تلاش نہیں کر سکتے کہ ہم ابھی تک اس حقیقت سے بھی آشنا بھی
نہیں کہ ہماری اصل مسائل ہیں کیا؟ اور ہماری حالت اس طالب علم کی طرح ہے جو
پورا سال عیاشی کرتا ہے اور جب امتحان سر پر ہوں تو اسے سمجھ ہی نہیں آتی
کہ کون سی کتا ب کھولے اور کہاں سے تیاری شروع کرے۔ بلکہ وہ امتحان کو قسمت
پر ٹال دیتا ہے اور پھر کوئی بھی اس کی قسمت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اب ہم
دعا بھی نہیں کر سکتے کیونکہ مرض کیلئے پہلے دوا کی جاتی ہے اور پھر دعا ۔
لیکن پھر بھی ہماری اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے رویوں کو مسائل کے
دوٹوک حل کیلئے سنجیدہ کر دے۔ آمین۔
|