جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
راحت اندوری کی شاعری کا یہ مصرہ ہمارے سیاست دانوں اورسیاسی انجنیر نگ
کرنےولوں پر منوعن پورا اترتی ہے ہماری سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری
پڑی ہے جب آمریوں اور سیاست دانوں نے جھوٹے بیانیہ سے حکومت حاصل کی پھر
کیا ہو ا سب جانتے ہیں ۔پاکستان میں فوجی آمریت ہو یا جمہوریت عوام نےہی اس
جھوٹے بیانیہ کا نتیجہ بگتا ہےایوب خان سے لیکر اب تک کوئی نہ کوئی جھوٹا
بیانیہ عوام کےسامنے رکھ کر حصول ا قتدار میں کامیاب ہوئے۔ ایوب خان نے
پاکستان کی تاریخ کے دوسرے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور محترمہ فاطمہ
جناح نے جب جنرل ایوب خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا تو ان پر کئی
الزامات لگائے گئے، انھیں غدار ، انڈین اور امریکی ایجنٹ تک کہا گیا عجیب
بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا
تھا انہوں نے کئی علما عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔ایوب
خان کی کابینہ کا رکن ذوالفقار علی بھٹو نے ا پنے سیاسی سفر کا آغاز یہی
سے کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا’اسلام ہمارا مذہب، سوشلزم ہماری معیشت،
جمہوریت ہماری سیاست، اور طاقت کا سرچشمہ عوام‘ ہے یہ منشور لے کر تیس
نومبر سنہ انیس سو سڑسٹھ کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بناکر ‘روٹی
کپڑا اور مکان’ کا نعرہ لگایا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے انتخابات
میں یہ نعرہ لگایا، روٹی ،کپڑ،مکان اور اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں
لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی ۔ ان سوشلسٹ نعروں نے بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز
پارٹی کی بنیادیں تو مضبوط کر دیں لیلکن ان نعروں سے عام ادمی کو کیا فائدہ
ہو ا ؟جنرل ضیا الحق نے خود کو ملک کا صدر بنوانے کے لیے 1984 کو ایک
ریفرینڈم کا انعقاد کیا جس میں انھوں بیانیہ جو اپنایا کہ پاکستان کے
قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے، نظریہ پاکستان کے تحفظ اور استحکام
کرناہے جنرل ضیا الحق کو لگا ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا تو ایک ملک گیر
تماشہ لگا کر ریفرینڈم کرایا گیا۔ پوچھا گیا کہ اسلام چاہتے ہو تو میں پانچ
سال اور بیٹھوں گا ۔
اب ذرا موجودہ سیاسی جماعتوں کے بیانیے پر آتے ہیں جمہوریت کے نام پہ تو
عوام ہمیشہ سے بے وقوف بنتی آئی ہے لیکن اس کےمختلف جماعتوں کےسیاسی
نعروںاور بیانیوں نے عوام کو بےوف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کسی نے
نیا پاکستان ،دو نہیں ایک پاکستان ،کسی نے روٹی ،کپڑا اور مکان ، تو کسی نے
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تو کسی نےمذہب کا منجن بیچا اقتدارکی حصول
کیلئے ۔ پیپلز پارٹی کا بیانیہ ہمیشہ سے یہ رہا کہ وہ غریب اور مزدور کی
پارٹی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان پاکستان کی تاریخ کا سب سے کامیاب سیاسی
نعرہ تھا۔ بےنظیر کی ’شہادت‘ اور بھٹو کاعدالتی قتل کو بھی پیپلزپارٹی نے
اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھر پوراستعمال کیا۔ مگر اب شاید اس بیانیہ کی مدت
پوری ہو چکی۔ پیپلز پارٹی وفاق میں کثیر الجماعتی اتحادی ہےاور سندھ میں
مسلسل تیسری مرتبہ حکومت میں ہے۔کراچی سمیت پورےسندھ کی تباہی کی ذمہ داری
بھی پیپلز پارٹی کے کندھوں پر ہے ساتھ ساتھ کرپشن کے الزامات بھی ان کا
پیچھا نہیں چھوڑتے۔ سندھ میں تعمیر و ترقی خوراک کا نہ ملنا، اچھی سہولتوں
کا فقدان ، صحت کے بہتر نظام کا نہ ہونا عوام کو ان سمیت بیش بہا مسائل کا
سامنا ہے جب تک سردار، زمیندار، وڈیرے،خان،پیر اور میر سیاست پہ چھائے رہیں
پیپلز پارٹی غریب کی پارٹی تو نہ رہی بلکہ امیر ہی قابض رہے
تحریک انصاف کا بیانیہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا جا رہا ہے کھبی تبدیلی
تو کبھی نیاپاکستان کبھی دو نہیں ایک پاکستان کے سیاسی نعروں سے عوام کو
بےو قوف بنایاعمران خان نے سچائی، ایمانداری، اصول پسندی اور خود احتسابی
جیسے دلفریب نعروں سے سیاست کا آٖغاز کیا لیکن حصول اقتدار کیلےاہستہ اہستہ
جھوٹ اور پراپیگیڈہ کے اصولوں کو اپنا لیا ، کبھی اس بیانیہ کی تشریح نہیں
کی جب بھی ان سے وضاحت طلب کی تو انہوں نے یہی وضاحت دی کہ دوسرے بڑے کرپٹ
ہیں اور جب ایماندار حکومت میں آئیں گے ملک کا تقدیر بدل جائیگا ۔ لیکن جب
حکومت میں آئے تو پتہ چلا کرپٹ ان کے گرد جمع ہیں اور تبدیلی صرف چہروں کی
ہے۔
تحریک انصاف کذشہ دس سال سے خیبر پختون خوا میں سرا اقتدار ہیں وہاں پر بھی
کوئی خاطر خوا کامیابی حاصل نہ کر سکی نہ تحریک انصاف کے پاس کوئی قابل عمل
پالیسیاں ہیں اور نہ ایک باصلاحیت ٹیم۔ تحریک عدم کامیاب ہو نےکےبعد اور
بعد ازاں حکومت کے خاتمےبعد عمران خان نے بہت کامیاب بیانیہ مارکیٹ میں
لانچ کیے سائفر کا بیانیہ کو پزریائی بھی ملی بیکا بھی خوب اور ساتھ ہی
اِداروں اور شخصیات پر بلاجواز تنقید کی جب پوچھا گیا کہ اگر غدار ہیں تو
رات کی تاریکی میں خاموشی سے بند دروازوں کے پیچھے کیوں ملتے ہیں؟توحیران
کُن طور پر سوال کا جواب نہیں دیا جاتا بلکہ نظر اندازکرتے ہوئے گریز کیا
جاتا ہے۔ ڈیلی میل کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ امریکی سازش
کے بیانیہ والی بات پرانی ہو گئی ہے اور وہ اس کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انھوں
نے کہا ہے کہ جہاں تک میرا تعلق ہے یہ بات ختم ہو گئی ہے،اور اب بہت پیچھے
رہ گئی ہے عمران خان نے امریکا مخالف بیانیہ سے جتنا فائدہ اٹھاناتھا اٹھا
لیا ہے۔ اب وہ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن قوم کو ٹرک کےبتی کےیچھے
لگا یا
اک نعرہ لگانا چاہتا ہوں
دنیا کو بتانا چاہتا ہوں
قاضی کو سنانا چاہتا ہوں
اک نعرہ لگانا چاہتا ہوں
ووٹ کو عزت دو
2018 کے انتخابات سے پہلےمسلم لیگ ن کا بیانیہ ہمیشہ یہ رہا کہ موٹر وے اور
ترقیاتی منصوبے تمام مسائل کا حل ہیں۔لیکن بعد میں ووٹ کو عزت دوایک مظبوط
سیاسی نعرہ بنا یا اور ڈیل نہیں لیں گے بھی اس بیانیہ کا حصہ رہا لیکن اس
بیانیہ سے کبھی قوم کو قائل نہ کر سکے کہ پہلے مشرف اور بعدمیں جنرل قمر
باجوہ سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی!
ایک نعرہ بھی لگایا ،دنیا کو بھی بتا یا ،قاضی کو بھی سنا یا ،عوام کو بھی
بتا یا کہ ووٹ کو عزت دو ، ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو پزیرائی ملی مگر
میاں نواز شریف کے ملک سے جاتے ہی ووٹ کی عزت کا مسئلہ ختم ہو گیا۔خود سابق
وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی جانب سے فوجی قیادت کے
حوالے سے سخت بیانات اور اس پورے نظام کو گرا دینے کی باتوں کے بعد اب
مفاہمت کی سیاست کی کوشش کی ہے اور یہ سب نعرے،بیانیہ محض اقتدار کی حصول
کیلےتھیں نہ کہ عوام ،جمہوریت اورائین کی بالادستی کیلےبلکہ عوام کو سوائے
ندامت یا ان کے سیاسی استحصا ل کے او رکچھ نہیں مل تھا ایسا نہیں کہ سیا سی
قیا دت ملک کو تر قی و خوشحالی نہیں دیسکتا بشرط یہ کہ سیاسی قیادت ایک پیج
پر ہو کو ئی کینچا تانی نہ ہو کسی قسم کی مدد غیر جمہوری قووتو س نہ لیا
جائے مقابلہ بیانیہ کا ہونا چاہیے اور پھر عوام ایک صاف اور شفاف الیکشن
میں فیصلہ کریں کے کون سا بیانیہ انہیں زیادہ پسند ہےجب تک صاف شفاف
جمہوریت نہ ہو تجریبات سے ممالک تر قی نہیں کر سکتا ۔جہاں پر جمہوریت کا
تسلسل برقرار رہی وہا ں کی تر قی ہمار ے سامنےہم سے الگ ہوا بنگلہ دیش آج
کہاں کھڑا ہے؟اور ہم کہاں ہے؟ دفاع کے علاوہ معیشت،تعلیم ،صحت،زراعت ہر
شعبے میں بنگلہ دیش پاکستان سے آگے ہیں جس سکے کو ہم ٹکہ ٹکہ کہہ کر اس کی
تذلیل کرتے تھے، آج وہی ٹکہ ہمارے روپے کے مقابلے میں دوگنی طاقت رکھتا ہے
بنگلہ دیش کہ علاوہ ملائیشاء انڈونیشاء ان تمام ممالک کی تر قی کی راز ایک
سچا بیانیہ او ر جمہوریت کی تسلسل ۔ جب تک ہمار ے ہاں جھوٹےبیانیہ کا سلسلہ
رہےگا اس ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا۔ |