میری ذاتی ڈائیری سے انتخاب
ہمیں زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے کا کافی شوق تھا۔ اپنی ڈائیری میں خاص
خاص واقعات لکھتے رہتے تھے۔ یہ واقعات جو ہم بیان کرنے جارہے ہیں وہ
1965-66 ء کے درمیان لکھے گئے تھے۔ ان میں سے ہم نے چند کا انتخاب کیا ہے۔
6 ستمبر 1965ء تا 23 ستمبر 1965 ء
جَــــنْگِ سِـــتَـــمْـــبَرْ 1965ء کے دوران ہم پر کیا بیتی
جنگ کے دوران ایک گھر کی سچ مچ کی سچی کہانی
جَــــنْگِ سِـــتَـــمْـــبَرْ 1965ء
(حصہ اول)
اس موضوع پر اکثر حضرات نے کچھ نہ کچھ لکھ دیا ہے۔ لیکن ہم اس موضوع پر صرف
اپنے گھر کے حالات لکھ رہے ہیں کہ ہم پر ان سترہ دنوں میں کیا بیتی۔ ہمارے
ہاں سیاست پر عام بحث ہوتی رہتی تھی اور جنگ چھڑنے کے بعد ہمیں ایک اور ہی
اچھا موضوع مل گیا تھا۔ جس پر دن رات بحث ہوتی رہتی تھی۔ ہم لوگ رہتے بھی
لاهور کے کچھ ایسے علاقے میں ہیں جہاں سے ہمیں جنگ کے شعلے صاف نظر آتے
تھے۔ 6 ستمبر کی صبح بھی عام صبحوں کی طرح تھی۔ صبح معمول کے مطابق ناشتہ
کیا، چھوٹے بھائی اسکول چلے گئے، ہمارا کالج ابھی نہیں کھلا تھا اس لیے ہم
ابھی گھر میں ہی تھے۔ کوئی آٹھ بجے کا وقت تھا کہ ہمارے ہاں ایک محترمہ
تشریف لائیں۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ آج صبح صبح یہ کیسے تشریف لے آئیں۔
کہنے لگیں کہ انہیں اسکول فون کرنا ہے جنگ شروع ہوگئی ہے مجھے اپنے بچے کو
لینے جانا ہے۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی معلوم ہورہی تھیں۔ ہمیں یقین ہی نہیں
آرہا تھا لیکن یقین کرنا پڑا۔ جب ہم نے باہر سڑک پر نکل کر دیکھا شور مچا
ہوا تھا۔ بچے اسکول سے واپس آرہے تھے، کچھ عجب سا عالم تھا۔ ہم نے بھی اپنے
ڈرائیور کو اسکول بھیج دیا تاکہ بچوں کو لے آئے۔ اسکول کا پہلا دن تھا اور
اسی دن سے دوبارہ چھٹیاں ہوگئیں۔ خیر، ہم بڑے پریشان تھے اور سوچ رہے تھے
کہ کیا کرنا چاہیے۔ شہر کی طرف گئے گڑھی شاہو کے قریب پہنچے تو کچھ شور سا
سنائی دیا۔ جب نزدیک گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمی ٹرکوں پر سوار
تھے اور جی ٹی روڈ کی طرف جارہے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے جھنڈے اٹھائے
ہوئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند کررہے تھے۔ ہمیں بھی جوش آگیا سوچا کہ معلوم
کرنا چاہئے کہ آخر یہ لوگ کہاں جارہے ہیں۔ یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ جنگ
شروع ہوچکی ہے۔ پتا چلا کہ یہ لوگ بارڈر پر جارہے ہیں ہندوستان سے مقابلہ
کرنے کے لیے۔ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈے تھے اور کسی کے ہاتھ میں کدال۔ غرضیکہ،
کچھ نہ کچھ ہتھیار ہر ایک کے پاس تھا۔ سوچا کہ ہمیں بھی جانا چاہیے۔ خیر
صاحب، ہم بھی روانہ ہوگئے۔ شالامار باغ کے پاس پہنچے تو سب لوگوں کو روک
دیا گیا۔ ایک فوجی آفیسر لوگوں سے التجائیں کررہا تھا کہ ”خدا کے لیے آپ
لوگ جایئے ابھی ہم لوگ زندہ ہیں۔ ملک و قوم کو ابھی تمہاری ضرورت نہیں۔ جب
تمہاری ضرورت ہوگی تمہیں بلالیا جائے گا“۔ لیکن عوام تھی کہ ایک بہتا ہوا
سیلاب۔ وہ نعرے بلند کررہے تھے اور خدا سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ ہماری
فوجوں کے حوصلے بلند تھے اور وہ ہمارے شہریوں کو دیکھ کر پھولے نہ سماتے
تھے۔ جس قوم کے شہریوں کا یہ حال ہو، اس کے فوجیوں کے حوصلے کتنے بلند نہ
ہونگے۔ صبح نو بجے کے قریب گھر واپس آئے۔ اتفاق سے ہماراایک دوست وسیم
گجرانوالہ سے اسی وقت آیا تھا۔ پھر ہمیں اس کی زبانی معلوم ہوا کہ دشمن کے
ہوائی جہازوں نے وزیرآباد اسٹیشن پر کھڑی ہوئی ایک ٹرین پر حملہ کردیا ہے
اور کئی مسافر مارے گئے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ان طیاروں میں سے ایک
کو گرا بھی لیا ہے۔ خیر، ہم لوگ چائے وغیرہ پی کر سمن آباد روانہ ہوگئے۔
جہاں ہمیں ایک اور دوست سرور محمود سے ملنا تھا۔ ہم لوگ سائیکلوں پر جارہے
تھے ۔ دس بجے کا وقت تھا کہ مال روڈ پر لارنس گارڈن کے پاس گاڑیاں بڑی تیز
رفتاری سے گزر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ایک بہت زور دار دھماکے کی آواز
آئی، جیسے کوئی بم گرا ہو۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ کوئی کہہ
رہا تھا کہ چئیرنگ کراس میں بم گرا ہے اور کوئی کہتا تھا گورنر ہاوس پر گرا
ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لوگ بے تحاشہ اپنی اپنی موٹروں میں بھاگے
جارہے تھے۔ مال روڈ کی تمام دکانیں بند ہوگئیں تھیں۔ ابھی ہم راستے ہی میں
تھے کہ معلوم ہوا کہ صدر پاکستان جنرل ایوب خان قوم سے خطاب کریں گے۔ ہم
لوگوں نے سائیکلیں تیز تیز چلانے شروع کردیں تاکہ جلد سے جلد سمن آباد
پہنچیں اور صدر کی تقریر سنی جائے۔آخر کار ہم اپنی منزل پر پہنچ ہی گئے۔
وہاں پہلے سے ایک اور صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ اوپر سے ہم بھی پہنچ گئے۔ صدر
صاحب نے جو تقریر کی اس نے ہم لوگوں میں ایک جوش و ولولہ پیدا کردیا۔ کوئی
تقریر لکھنے والے کی تعریف کررہا تھا اور کوئی کرنے والے کی۔ یہ کسی کو
معلوم نہ تھا کہ آیا وہ تقریر صدر نے خود ہی لکھی تھی یا کسی سے لکھوائی
تھی۔ ہمارا خیال ہے کہ خواہ کسی نے تقریر لکھی ہو جب تک اسے پڑھنے والا
اچھے انداز میں نہ پڑھے وہ اچھی تقریر معلوم ہی نہیں ہوتی یہ تو دونوں کی
مہارت پر مبنی ہوتا ہے اگر تقریر اچھی لکھی ہو لیکن اسے پڑھا اس طریق سے نہ
جائے جس سے پڑھنا چاہیے تو کوئی بھی اس کی تعریف نہ کرے گا۔ لیکن اگر لکھی
بھی اچھی طرح نہ جائے تو پھر اچھا پڑھنے والا بھی اس میں خوبی پیدا
نہیںکرسکتا۔ ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اشخاص میں اپنی اپنی خوبی
ہونی چاہئے۔
دو بجے کے قریب ہم جب گھر واپس پہنچے تو سب لوگ ہم پر ناراض ہونے لگے کہ جب
معلوم تھا کہ جنگ شروع ہوگئی ہے تو گھر سے باہر کیوں گئے تھے۔ خیر جی، جب
ہم نے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ ہم اپنے دوست کے گھر بیٹھے ہوئے تھے اور
کہیں گھوم پھر نہیں رہے تھے تب کہیں جا کر ہماری جان چھوٹی۔ اس طرح 6 تاریخ
کا دن ختم ہوگیا۔
بلیک آوٹ کی راتیں شروع ہوگئیں اور کچھ عجیب سا منظر ہوتا تھا۔ ہر طرف
اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ہمیں کچھ یوں محسوس ہونے لگا گویا کہ آج سے ہزاروں
سال پہلے کا زمانہ آگیا ہو۔ ہم نے سوچا تھا کہ اس زمانے کے لوگ کتنے بدقسمت
تھے کہ بلب کی روشنی سے محروم تھے۔ لیکن انکی بینائی تو بہت تیز ہوتی ہوگی۔
اسی رات سے ہم لوگوں کو دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشن سننے کا موقع ملا۔ بی بی
سی، واشنگٹن، پیکنگ، آل انڈیا ریڈیو اور پھر پاکستان کی خبریں تو روزانہ ہی
سنتے تھے۔ زاہدان بھی باقاعدگی سے پاکستان کی خبروں کے فوراً بعد سنا جاتا
تھا۔ ہر جگہ سے پاکستان و بھارت کی جنگ کی خبریں نشر ہوتی تھیں۔ برطانیہ کے
وزیر اعظم نے تو صاف صاف بھارت کو حملہ آور قرار دے دیا تھا۔ ہم لوگ سب گھر
والے صرف ایک کمرے میں جمع ہوجاتے تھے۔ تمام بتیاں بجھی ہوتی تھیں۔ صرف
ریڈیو کی لائٹ سے کمرہ روشن رہتا۔ چائے کا دور چلتا اور سب لوگ اپنے اپنے
خیالات کا اظہار کرتے۔ بعض اوقات گفتگو اتنے زور و شور سے شروع ہوجاتی جیسے
باقاعدہ جنگ ہورہی ہو اور ہم ہی لوگ میدان جنگ میں لڑنے والے ہوں۔ جب
ہندوستان نے جھوٹ کا پلندہ کھولنا شروع کیا تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا
کہ اب آئندہ ہندوستانی خبریں کوئی نہ سنے گا۔ لیکن کوئی کہتا کہ نہیں ہمیں
دونوں ملکوں کی خبریں سننا چاہیں تاکہ صورت حال کا صحیح اندازہ ہوسکے۔خیر
صاحب، کچھ دن تک تو ہم نے خبریں نہ سنیں۔ لیکن آہستہ آہستہ پھر سب لوگ سننے
لگے۔ ہوا اس طرح کہ جب دن میں سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں ہوتے تو چپکے
چپکے ہندوستان کی خبریں سننے کی کوشش کرتے۔ آخر سب لوگ دوبارہ کھلے عام
خبریںسننے لگے۔ ہماری حکومت نے ہم پرہندوستان کی خبریں (آل انڈیا ریڈیو)
سننے کی پابندی تو نہیں لگائی تھی لیکن پھر بھی ہمیں اس مکار ہندوستان کی
خبریں پسند ہی نہ تھیں جو کہ جھوٹ کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں
ریڈیو پاکستان لاہور نے خوب کارنامے دکھائے۔ شام شروع ہوتے ہی تجمل حسین کی
باتیں سنتے اس کے بعد خبریں ہوتیں اور پھر اعجاز حسین بٹالوی کی گرج دار
آواز سنائی دیتی۔ جس سے ہمیں دن بھر کے حالات معلوم ہوجاتے۔ شاعروں و
ادیبوں نے جو کام دکھائے انکو قوم کبھی نہ بھولے گی۔ ”تلقین شاہ“ اور
”ندائے حق“ بھی ناقابل فراموش رہیں گے۔ ایک رات ایسی گزری جسے لاہور کے
شہری کبھی فراموش نہ کرسکیں گے۔ اس رات چھاونی کے علاقے میں جو کچھ ہواباقی
پوری جنگ کے دوران نہ ہوا ہوگا۔ رات کو نو بجے کے قریب یہاں مشین اور سٹین
گنیں چلنے لگیں۔ کوئی کہتا کہ ہندوستان کے چھاتہ بردار اتر آئے ہیں اور وہ
گولیاں چلارہے ہیں۔ کوئی کہتا کہ یہ ہمارے رینجرز ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی
باتیں تھیں۔
ہمارے کچھ رشتہ دار جو سنگھ پورہ میں رہتے تھے، ہمارے گھر آگئے تھے۔ کیونکہ
ان لوگوں کے مکانات بالکل کمزور تھے۔ جب توپ چلتی تھی تو انکے گھر لرز
اٹھتے تھے۔ اب ہمارے گھر میں کافی چہل پہل ہوگئی تھی۔ جب مشین گنوں اور
سٹین گنوں کے چلنے کی آوازیں قریب تر آتی جارہی تھیں تو ہم لوگ جلدی جلدی
چھت پر چڑھ گئے اور چاروں طرف گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا کہ سفید
کپڑے اتار دو، کیونکہ یہ رات میں چمکیں گے۔ اس لیے فوراً اتار دیے اور صرف
ایک نیکر پہنے کھڑے آوازیں سن رہے تھے۔ ہمارے گھر میں تین چار بندوقیں بھی
تھیںوہ ہم اپنے ساتھ لیے تھے کہ شاید کوئی مقابلے کا موقع آئے تو استعمال
کریں۔ رضاکاروں سے پتہ کیا کہ یہ فائرنگ کیسی ہے، وہ بھی کچھ اطمینان بخش
جواب نہ دے سکے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہندوستان کی فوجیںاندر داخل ہوگئیں ہیں۔
کیونکہ اُس وقت ہماری توپیں بالکل بند ہوگئیں تھیں۔چھت کے چاروں کونوں پر
ہم میںسے ایک ایک آدمی بندوق لے کر بیٹھ گیا کیونکہ ہمارے گھر کے ساتھ ہی
ریلوے لائین گزرتی ہے اور اسکی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض تھا۔ہمیں افسوس کے
ساتھ یہاں پر یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ ہمارے رضاکاروں کے پاس کچھ بھی اسلحہ نہ
تھا، تقریباً سب لوگ خالی ہاتھ تھے۔ صرف لاٹھیاں ہاتھوں میں تھیں۔ جن سے وہ
اپنی حفاظت قطعی طور پر نہیں کرسکتے تھے۔ ابھی ہم لوگ یہ آوازیں سن ہی رہے
تھے کہ ایک صاحب بولے ”ارے دیکھنا وہ سفید قمیض پہنے ہوئے ایک آدمی درخت پر
چڑھ رہا ہے“۔ سب لوگ کہنے لگے ”کہاں ہے ؟ کہاں ہے؟“۔ خیر صاحب، ہمیں بھی
یقین آگیاکہ ہے کوئی شخص ضرور کیونکہ درخت کے پاس کچھ حرکت ہورہی تھی۔ لیکن
وہ حرکت تو مسلسل ہورہی تھی۔ جب ہم نے دوربین لگائی تو معلوم ہوا کہ حضرت
میاں میرؒ کے مزار کے گنبد کا جھنڈا ہے۔ اس پر ہم لوگوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہیں مزار کے قریب ایک فائر ہوا ۔ ہمارا مکان چونکہ حضرت
میاں میر مزار کے قریب ہی واقع ہے اس لیے ہم لوگ فوراً باہر آئے۔ دیکھا تو
ہزاروں آدمی دوڑے چلے آرہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے ’’وہ گیا۔۔۔ پکڑو پکڑو“،
کوئی کہتا ”سب لوگ لیٹ جاؤ وہ گولی مار دے گا“۔ خیر، اتنے ہزار ہا آدمی دوڑ
رہے تھے کہ اگر جاسوس گولی چلاتا تو ضرور کوئی نہ کوئی مارا جاتا۔ لیکن وہ
ہمارے ہی درمیان گھومتا رہا اور لوگ شور مچاتے رہے۔ اسی طرح وہ غائب ہوگیا۔
اس رات جو غدر مچا وہ پھر ہمیں دیکھنے نہ ملا۔ دوسرے دن ڈپٹی کمشنر نے
کرفیو نافذ کردیا۔ جو کہ پہلے ہی سے نافذ کردینا چاہیے تھا۔ لیکن ہم تو ان
گولیوں کی آوازوں کو ترستے رہے۔ اب تو ہمیں صرف گولوں کی آوازیں آتی تھیں
اور ہم اس طرح محظوظ ہوتے تھے جیسے بعض لوگ موسیقی سے ہوتے ہیں۔ ہمیں تین
چار دن ہی گزرے تھے اور پاکستانی فوج نے واہگہ اور برکی ہڈیارہ سیکٹر میں
دشمن کا حملہ پسپا کردیا تھاکہ ایک نئی خبر لاہور شہر میں پھیل گئی۔ یہ کہ
پاکستانی فوجوں نے اٹاری پر قبضہ کرلیا ہے اور دشمن کی ایک ڈویژن فوج
گرفتار کرلی گئی ہے۔ ہم نے خود تو نہیں دیکھا البتہ شہر لاہور کے لوگ کہتے
ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بھارتی قیدی جن کی آنکھوں پر
پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ٹرکوں میں کسی نہ معلوم مقام پر لے جائے جارہے تھے۔
جنہوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا انہیں جھٹلانا تو بہت مشکل تھا۔ لیکن اس
کی کوئی سرکاری خبر نہیں ملی۔ البتہ یہ بات تو افواہ ہی نکلی کہ اٹاری پر
قبضہ ہوگیا ہے۔ ان دنوں لاہور تو افواہوں کا شہر بنا ہوا تھا اور گورنمنٹ
نے افواہوں پر سخت پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن پھر بھی لوگ باز نہ آئے۔ کسی
کو کہتے سنا کہ ہڈیارہ سے بھارتی فوجیوں کو بھگا دیا گیا ہے اور پاکستان نے
دوبارہ قبضہ کرلیا ہے۔ اس وقت یہ بھی سننے میں آیا کہ سکھوں نے ہمارے
دیہاتیوں سے اچھا سلوک کیا اور انہیں جانے کے لیے راستہ دے دیا۔ بعض نے
کھانے پینے کا بھی انتظام کیا اور اس طرح انہیں اپنی حفاظت میں لاہور کی
طرف دھکیل دیا۔ معلوم نہیں اس میں کتنی صداقت ہے۔ کیونکہ سکھوں کے برتاو کو
ہم ابھی بھولے نہیں۔ جو انہوں نے 1947ء میں مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔
ہم لوگوں نے ہوائی حملے سے بچاو کے لیے گھر میں ہی خندقیں کھودی ہوئی تھیں۔
لیکن وہ اتنی کم گہری تھیں کہ ایک آدمی جب اس میں بیٹھتا تو اس کا سر باہر
ہی رہتا ۔ ہم لوگوں کو کچھ تجربہ ہی نہ تھا کیونکہ کبھی جنگ سے واسطہ ہی نہ
پڑا تھا۔ دوسری بے وقوفی جو ہم نے دکھائی وہ یہ تھی کہ مکان کے عین نیچے
خندقیں کھودی تھیں۔ حالانکہ مکان سے اتنے دور ہونا چاہیے تھیں کہ اگر مکان
گر بھی جائے تو اس کا ملبہ وہاں تک نہ پہنچے۔ اس وقت ہماری عقل میں یہ
باتیں نہ تھیں ۔ ہم نے ان خندقوں کو محض چند روز ہی استعمال کیا۔ اس کے بعد
جب بھی کوئی سائرن ہوتا ہم مکان کے اندر ہی رہتے۔ کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ
دشمن ہم پر بمباری نہیں کرسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ جتنی شدید لاہور کے
محاذ پر ہوئی اتنی کہیں کسی اور محاذ پر نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود دشمن کے
بمباروں سے ہمارا شہر لاہور محفوظ رہا۔ یہ بات ایک معجزے سے کم نہیں او ریہ
سب ہمارے بزرگانِ دین ہی کی برکت کا نتیجہ ہے۔
کہتے ہیں کہ وزیرآباد یا گوجرانوالہ کی رہائشی ایک میڈیکل کی طالبہ تھی جو
لاہور میں زیرِ تعلیم تھی سب سے پہلے بھارتی گولہ باری سے شہید ہونے والی
پہلی شہیدا تھی۔
کچھ دنوں بعد لاہور والوں نے ایک ایسی گرج دار آواز سنی جس سے وہ ابھی تک
ناواقف تھے۔ رات کا وقت تھا تقریباً دس بجے ہونگے کہ ایک بہت بڑی روشنی
ہوئی۔ ہم لوگ باہر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ رات اندھیری تھی۔ ایسا معلوم ہوا
جیسے چاند نکل آیا ہو اور اس نے اپنا نور چاروں طرف پھیلا دیا ہو۔ ابھی
آدھا منٹ ہی گزرا تھا کہ اتنے زور کی آواز آئی کہ تمام کھڑکیاں اور دروازے
لرز گئے۔ بچے (چھوٹے بھائی) ایک دم اٹھ بیٹھے۔ ہم لوگ سمجھے کہ شاید کوئی
بم گرا ہے۔ سب لوگ سہمے ہوئے تھے۔ لیکن حوصلے بلند تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد
پھر وہی عمل ہوا اور یہ سلسلہ جاری رہا جو کہ آخری دن تک جاری تھا۔ یہ تھی
ہماری توپ جس کا نام لوگوں نے ”رانی“ رکھ دیا تھا۔ اس کی آواز ہم نے پہلے
کبھی نہیں سنی تھی۔ اس موقع پر ایک بہت ہی مزیدار بات یاد آگئی جس کو اگر
لکھ دیا جائے تو آپ بھی محظوظ ہوئے بغیر نہ رہیں گے۔ وہ یہ تھی کہ ہم نے
اپنے چھوٹے بھائیوں کو یہ بتادیا تھا کہ جب بھی سائرن بجیں تو آپ لوگ اپنے
اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لینا اور انگلیوں سے بھی کان بند کرلینا۔ چھوٹے
بھائی بہت سمجھدار نکلے جونہی سائرن بجتے وہ فوراً یہی عمل کرتے۔ ”ایک رات
کیا ہوا کہ سب بچے (چھوٹے بھائی) سو چکے تھے کوئی بارہ بجے کا وقت ہوگا۔ ہم
لوگوں کی نیند تو ایسی ہوتی تھی کہ جیسے ہی سائرن بجتا ہماری آنکھ کھل
جاتی۔ جونہی سائرن بجا ہم نے بچوں کو جگایا تاکہ خندقوں میں جائیں۔ ہم نے
دیکھا کہ بچوں کی نیند لگی ہوئی تھی، آنکھیں بند تھیں، لیکن اٹھ کر بیٹھ
گئے تھے اور انگلیاں باقاعدہ کانوں میں فوراً چلی گئیں تھیں۔ ہم لوگوں کو
بہت ہنسی آئی کہ سوتے میں بھی انکی انگلیاں کانوں میں تھیں“۔
ایک دن ہم نے سوچا کہ شہر کی طرف جانا چاہئے کیونکہ گھرم یں بیٹھے بیٹھے
تنگ آگئے تھے۔ شام کے تقریباً چار بجے تھے، سائیکل پر نکل پڑے، جب ریلوے
اسٹیشن کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمی اپنے اپنے بستر
اٹھائے اسٹیشن سے باہر آرہے ہیں۔ ہم حیران تھے کہ لوگ شہر لاہور سے بھاگنے
کی بجائے یہاں آرہے تھے اور لاہور کی آبادی جنگ سے پہلے کی نسبت بڑھ گئی
تھی۔ لیکن کچھ عجیب سا عالم رہتا تھا۔ سڑکیں کچھ سنسان سی رہتی تھیں۔ لیکن
جب خبروں کا وقت ہوتا تو لوگ ریڈیو کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایک دم جمع
ہوجاتے جیسے نزدیک ہی کہیں چھپے ہوئے ہوں اور بعض اوقات تو پورا ٹریفک ہی
رک جاتا اور دیر میں آنے والے ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کیا کوئی ٹکر ہوگئی
ہے۔ ہم اپنے ایک دوست شہزاد کے گھر گئے جو کہ اسٹیشن کے نزدیک ہی رہتے تھے۔
تاکہ کچھ اپنے علم میں اضافہ کیا جائے۔ ہم نے انہیں اپنے علاقے کے حالات کے
بارے میں بتایا کہ وہاں رات کو فائرنگ ہوئی تھی اور ایک تہلکا مچ گیا تھا۔
وہ ہمیں اپنی باتیں سنانا چاہتے تھے اور ہماری کوشش تھی کہ ہم پہلے اپنے
حالات سنائیں۔ کافی دیر تک یہی کشمش جاری رہی۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید ہم سے
زیادہ جنگ کی تفصیلات شہر میں اور کوئی نہیں جانتا۔ مگر ہمیں معلوم ہوا کہ
نہیں ہمیں تو بہت سی باتوں کا علم ہی نہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جنگ کے پہلے
دن خود صدر ایوب لاہور کے محاذ پر آئے تھے اور انہوں نے خود کمان کی تھی۔
ہمیں یہ خبر سن کر بہت ہی زیادہ خوشی ہوئی اور ہم نے سوچا کہ کاش یہ خبر سچ
ہی نکلے۔
خیر، بعد میں اسکی تصدیق تو نہ ہوسکی لیکن اس میں شک کی بھی کوئی بات نہ
تھی۔ کیونکہ ہمارے صدرِ محترم خود ایک فوجی ہیں اور افواج کے سپریم کمانڈر
بھی۔ لیکن ایک بات پر تو ہم سرے سے یقین ہی نہ لائے آپ بھی سنئے ہمارا خیال
ہے کہ آپ بھی یقین نہ لائیں گے۔ انہوں نے یہ سنایا کہ لوہاری کے پاس ایک
چھاتہ بردار اترا تھا اور لوگوں نے اسکو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ فرار
ہوگیا۔ ہم تو چھاتہ بردار کے لوہاری میں اترنے پر یقین ہی نہیں رکھتے اور
اگر فرض کرلیں کہ وہ اتر بھی گیا تھا تو بھئی لاکھوں آدمیوں کی بستی سے
کیسے نکل بھاگا؟ اس وقت یہ حال تھا کہ اگر کوئی آدمی آج ایک گپ چھوڑ دے تو
کل دوسرے لوگ اسی کو وہی بات سناتے تھے جس نے یہ افواہ چھوڑی تھی۔ یعنی یہ
صحیح ہے کہ یہاں افواہوں کی فیکٹریاں کھل گئی تھیں اور ہمارے خیال میں صرف
یہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہی یہ حال ہوگا۔ جس کا ثبوت اس بات سے مل
جاتا ہے جو ہم نیچے بیان کرنے جارہے ہیں:۔
”رات کے کوئی آٹھ بجے تھے۔ ہم لوگ سب ایک کمرے میں اکٹھے تھے۔ ریڈیو سے
خبریں سن رہے تھے۔ اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھایا دوسری طرف
سے راولپنڈی سے ہمارے ایک عزیز بول رہے تھے۔ کہنے لگے کہ لاہور کا کیا حال
ہے؟ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر ایک دم بولے کہ یہاں یہ خبر پھیلی ہوئی ہے کہ
ماڈل ٹاون میں ہندوستان کی فوجیں داخل ہوگئی ہیں اور گھمسان کی جنگ ہورہی
ہے۔ ہمیں بڑی ہنسی آئی۔ ہم نے کہا کہ بھئی ماڈل ٹاون یہاں سے صرف چار میل
دور ہے، یہاں تو نہ گولے گر رہے ہیں اور نہ بندوقیں چل رہی ہیں اور اگر فرض
کر بھی لیں کہ ماڈل ٹاون میں فوجیں داخل ہوگئی ہیں تو پھر ہم لوگ ابھی ملبے
کے ڈھیر کے نیچے دبے ہوئے ہوتے اور آپ فون بھی نہ کرسکتے“۔ خیر، اس دن ہم
لوگ اس بات پر خوب ہنستے رہے۔ ہم نے سوچا کہ ان دنوں میں افواہیں پھیلانا
دشمن کے لیے کتنا فائدہ مند ہوتا ہوگا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ دشمن نے اپنے
کچھ ایجنٹ اسی مقصد کے لیے چھوڑے ہوئے تھے۔ اگر پنڈی والے اس بات پر یقین
کرلیتے تو وہ ضرور وہاں سے بھاگنا شروع کردیتے۔ کیونکہ جب لاہور جاتا تو
پنڈی بھی چلا جاتا۔ یعنی پورے مغربی پاکستان کے دو حصے ہوجاتے۔ ہمیں خدا کا
شکر ادا کرنا چاہیے کہ دشمن اپنی چالوں میں کامیاب نہ ہوسکا اور اسے منہ کی
کھانی پڑی۔
جنگ بند ہونے کے آثار نظر نہ آئے تو گھر والوں نے سوچا کہ بچوں اور عورتوں
کو لاہور سے باہر کسی اور شہر بھیج دیا جائے۔ لیکن سب لوگ اس تجویز سے متفق
نہ تھے۔ کوئی کہتا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم بچوں کو باہر بھیج دیں اور
خود یہاں رہیں۔ جہاں ایک ہوگا وہیں سب لوگ ہونگے۔ ہم سب ایک ساتھ مریں گے۔
ہم نے اس موقع پر ججھکتے ہوئے اپنی زبان کھولی اور عرض کیا کہ اگر سچ
پوچھیں تو ہم میں سے کسی کو بھی کہیں نہیں جانا چاہیے۔ کیونکہ دشمن کا حملہ
اب پسپا ہوچکا ہے۔ لاہور پر قبضہ ہونے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور
جہاں تک ہوائی حملے کا تعلق ہے اس سے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ہے۔ ہوائی
جہاز ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ کسی نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا اور کسی نے
سراسر مسترد کردیا اور یہ کہا کہ تم بچے ہو تمہیں کیا معلوم۔ خیر، ہم نے
مانا کہ ہم بچے ہیں اور زیادہ سمجھ نہیں رکھتے لیکن آگے چل کر یہ ثابت
ہوگیا کہ ہماری تجویز زیادہ معقول تھی۔ حالانکہ ہم نے بی اے کرلیا تھا پھر
بھی ہم بچے کہلائے۔ ابھی یہ فیصلہ بھی کرنا تھا کہ گھر والوں کو کس مقام پر
بھیجا جائے۔ کوئی کہتا کہ کوئٹہ بھیج دو، کوئی کہتا کہ پنڈی بھیج دو۔ آخر
فیصلہ ہوا کہ پنڈی بھیج دیا جائے۔ وہاں ہمارے والد صاحب کے ایک دوست جناب
علی شہزاد جعفری صاحب رہتے تھے اور وہ بھی زور دے رہے تھے کہ سب لوگ پنڈی
انکے گھر آجائیں۔ ابھی یہ فیصلہ بھی کرنا تھا کہ بچوں (چھوٹے بھائیوں) کے
ساتھ کون جائے گا۔ ہم سے کہا تو ہم نے کہہ دیا کہ کالج کھلنے والے ہیں اور
ہم نے داخلہ لینا ہے بی اے کے دوسرے سال میں۔ بڑے کزن سے کہا تو کچھ اسی
طرح کا جواب اس نے بھی دے دیا۔ ہم لوگ دراصل اس لیے پس و پیش کررہے تھے کہ
محلے والے ہماری بے عزتی کریں گے کہ یہ لوگ بزدل ہیں اور ڈر کر بھاگ گئے
ہیں اور دوسرے یہ کہ ہمیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی بھاگیں گے۔ اس طرح ہمارے
فوجیوں پر بہت برا اثر پڑے گا۔
آخر کار، ہمارے چچا جان کو ساتھ جانا پڑا۔ ٹکٹ وغیرہ لے لیے تھے اور صبح
پانچ بجے کی ریل کار سے روانہ ہونا تھا۔ لیکن صبح ساڑھے پانچ بجے تک کرفیو
لگا رہتا تھا اور کوئی شخص بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ گھر والوں
کو ایک ترکیب سوجھی اور وہ یہ تھی کہ رات کو کرفیو لگنے سے پہلے اپنے پرانے
مکان میں جو کہ آسٹریلیا بلڈنگ لاہور میں اسٹیشن کے نزدیک تھا منتقل ہوگئے
تاکہ صبح اسٹیشن پہنچنا آسان ہو۔ جب ہم گھر والوں کو اسٹیشن چھوڑنے جارہے
تھے تو کوئی پوچھتا کہ”کیا بات ہے کہاں جارہے ہو“؟ اور کوئی پوچھتا کہ
”حالات گڑبڑ تو نہیں ہیں“؟ یہ باتیں وہ لوگ پوچھ رہے تھے جو خود دوسرے
شہروں سے لاہور آرہے تھے۔ ہمیں بڑی شرم سی محسوس ہوئی کہ عجب بات ہے ہم لوگ
تو لاہور سے جارہے ہیں اور دوسرے لوگ باہر سے لاہور آرہے ہیں۔ گھر والوں
میں سے صرف عورتیں اوربچے (چھوٹے بھائی) چچا کے ساتھ گئے تھے۔ اب گھر سنسان
ہوگیا۔ اگرچہ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا تھا کہ ہمارے کچھ رشتہ دار ہمارے
گھر آگئے تھے اس لیے کھانا وغیرہ پکانے کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ ہمارے
خاندان سے صرف ایک چچا، تایا، والد صاحب ہم اور ہمارے کزن رہ گئے تھے۔
اس دوران ایک بــــڑا دلــــچــــســــپ واقــــعہ ہوا۔ ایــــک دن لاہور
کــــی فــــضاؤں میں ہــــنــــدوســــتان کے جنگــــی طــــیارے داخــــل
ہوگئے فوراً ہی پــــاکــــســــتــــانــــی سیبر طــــیارے
مــــقابــــلے کے لیے پہنچ گئے اور خــــوب گــــولیوں کــــا تــــبادلہ
ہوا۔ لاہور کے شہریوں نے اس مــــنظر کــــو اپــــنی آنــــکھوں سے
دیــــکھا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بغیر کسی خــــوف
کے نــــعــــرے بــــلند کــــرنے لــــگے۔ ان کو اپنی جــــانوں کی
بالــــکل پراوہ نہ تھی۔ یہ منظر دوپہر کے وقــــت تقریباً دس پندرہ منٹ تک
دیکھا گیا۔ ہندوستان کے ایک یا دو طیارے بھی گرالیے گئے۔ مگر افسوس اس موقع
پر ہم خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس منظر کو ہم اپنی آنکھوں سے نہ
دیکھ سکے جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے۔
جنگ بندی کے بعد جب گھر والے واپس آئے تو معلوم ہوا انہوں نے جتنی پریشانی
وہاں اٹھائی تھی اتنی تو اپنے گھر لاہور میں نہ اٹھائی تھی۔ وہاں ایک ایک
گھنٹے تک خندقوں میں بیٹھنا پڑتا تھا اور رات کو تقریباً سات آٹھ مرتبہ
سائرن ہوتے تھے۔ جبکہ گھر والوں کے پنڈی جانے کے بعد لاہور میں ہمیں جتنا
سکون ملا پہلے کبھی نہ ملا تھا۔ کیونکہ یہاں پر دن میں شاید ہی کبھی سائرن
بجتا تھا۔ دشمن نے یہاں آنے کی جسارت ہی بہت کم کی تھی اور یہ ایک حقیقت ہے
کہ سارے لاہور میں کہیں بھی کوئی بم نہیں گرا۔ جب جنگ بند ہوئی تو ہمیں
معلوم ہوا کہ محلے سے تقریباً سب ہی لوگوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو
لاہور سے دور کہیں بھیج دیا تھا۔ لیکن ہمیں کان و کان خبر نہ ہوئی۔ شاید
رات کے اندھیرے میں بھیج دیا ہو۔
آخر وہ دن بھی آن پہنچا جس دن جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ لوگوں کے چہرے اترے
ہوئے تھے۔ انہیں بے حد مایوسی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اب یہ گھن گرج
والی راتیں ہمیں دوبارہ دیکھنے ملیں گی یا نہیں۔ لیکن جب صدر پاکستان نے
قوم کو یہ یقین دلایا کہ ہماری فوجیں اپنی جگہوں پر ڈٹی رہیں گی تو ہمارا
کچھ حوصلہ بلند ہوا کہ چلو ہم نے اپنی فتح کی ہوئی جگہ تو نہیں چھوڑی۔ لیکن
یہ خوشی بھی ایک دن مایوسی میں بدل گئی جب یہ اعلان ہوا کہ دونوں ملکوں کی
افواج اپنی اپنی اصل سرحدوں کی طرف لوٹ جائیں گی اور مفتوحہ اور مقبوضہ
علاقے خالی کیے جائیں گے۔
جَــــنْگِ سِـــتَـــمْـــبَرْ 1965ء
(حصہ دوئم)
آج ستمبر کی 25 تاریخ ہے اور ہفتے کا دن ہے۔ جنگ کو ختم ہوئے دو دن ہوگئے
ہیں لیکن جنگ بندی کیا ہوئی، ابھی جنگ بندی کو چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ
جنگ دوبارہ شروع ہوگئی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق یہ جنگ 22 تاریخ
کو دوپہر بارہ بجے بند ہونا تھی لیکن پاکستان نے سلامتی کونسل کا ایک
ہنگامی اجلاس بلایا اور قرارداد کے ایک پیراگراف کی وضاحت کے بعد جنگ بندی
23 ستمبر 1965ء کو صبح 3 بجے ہوئی۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کے سامنے یہ
تین نکات پیش کیے :۔
1۔ یہ کہ جنگ بند کی جائے۔
2۔ افریقی و ایشائی ملکوں سے امن فوج بلائی جائے اور وہ پورے کشمیر کا
کنٹرول اپنے پاس رکھے۔
3۔ اس کے بعد تین ماہ کے اندر اندر رائے شماری کرائی جائے۔
سلامتی کونسل نے ہمارا ایک بھی نقطہ تسلیم نہ کیا اور حکم دیا کہ دونوں ملک
22 تاریخ کو یعنی بدھ کے دن دوپہر بارہ بجے تک جنگ بند کردیں۔ پاکستان نے
ہنگامی اجلاس بلایا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ خارجہ پاکستان
نیویارک تشریف لے گئے۔ جنگ بندی اس صورت میں منظور کی کہ ہندوستان بھی
فائرنگ بند کردے۔ لیکن فوجیں جہاں ہیں وہیں رہیں گی اور اپنے مورچوں پر ڈٹی
رہیں گی۔ صدر ایوب خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگرچہ سلامتی
کونسل کی قرارداد قابل قبول نہیں ہے پھر بھی ہم دنیا کے امن کے لیے فائرنگ
بند کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن ہماری فوجیں اپنے مورچوں پر ڈٹی رہیں گی‘‘۔
ہندوستان نے تسلیم کرلیا کہ کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت ہوگی اور یہ کہ
کشمیر ہندوستان کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی یہ بہت بڑی شکست تھی۔
ابھی ذوالفقار علی بھٹو نیویارک ہی میں ہیں اور سلامتی کونسل کا دوبارہ
اجلاس بلانے کے بارے میں صلح مشورہ کررہے ہیں۔
پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تعریف ہے اور جناب
بھٹو نے تو واشگاف الفاظ میں اسمبلی کے اندر اعلان کردیا ہے کہ اگر سلامتی
کونسل تین ماہ کے اندر اندر رائے شماری کرانے میں ناکام رہی تو پاکستان
اقوام متحدہ سے الگ ہوجائے گا۔ اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟؟؟ ابھی
جنگ بندی کو صرف چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ہندوستان نے سیز فائر کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے تین سیکٹروں میں فائرنگ شروع کردی ہے اور پاکستان کے چار
گاؤں پر قبضہ کرلیا ہے۔ جن میں سے دو لاہور سیکٹر میں ’’ہریکے ۔ برکی‘‘ کے
محاذ پر ہیں ، ایک ’’کشمیر‘‘ اور ایک ’’سیالکوٹ‘‘ سیکٹر میں واقعہ ہیں۔ اب
حالات نے پلٹا کھایا ہے اور امن برقرار رہنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس سے
پہلے کیا ہوا اور جنگ کیسے شروع ہوئی، وہ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں:۔
ہوا یوں کہ کشمیر میں ہندوستان کو ’’مجاہدین آزادی‘‘ کے ہاتھوں پے در پے
شکستیں ہونے لگیں۔ جب انہیں کشمیر ہاتھ سے جاتے ہوئے نظر آنے لگا تو انہوں
نے آزاد کشمیر پر اچانک حملہ کردیا۔ وہ یہ الزام عائد کرچکے تھے کہ
پاکستان نے اپنے فوجی بغیر وردی کے وادیٔ کشمیر میں داخل کردیے ہیں،
حالانکہ انہیں یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کہ اگر وہ پاکستانی ہیں بھی تو
کیا انکی آنکھوں میں دھول جھونک کر مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئے تھے، جبکہ
ہندوستان کی تقریباً دو لاکھ فوج کشمیر کے محاذ پر جمع تھی۔ اسطرح یہ الزام
سراسر بے بنیاد ثابت ہوجاتا ہے۔ ہندوستانی غلط راستے پر جارہے ہیں اور اب
تو شمعٔ آزادی روشن ہوچکی ہے، جسے اب کوئی نہیں بجھا سکتا۔
آخر ہندوستان کتنے ’’ عبداللہ ؤں‘‘ اور ’’افضل بیگوں‘‘ کو جیل میں ڈالے
گا۔ ارے وہاں تو سب ہی لوگ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ ہیں۔ جب ہندوستان نے
دیکھا کہ وہ کشمیریوں پر قابو نہیں پاسکتا تو اسنے ایک اور چال چلی اور وہ
یہ کہ اسنے کشمیریوں کے گاؤں کے گاؤں جلا ڈالے اور بہانہ یہ تراشا کہ یہ
آگ تو مجاہدین نے لگائی ہے۔ کیونکہ وہ کشمیری مجاہدین کا ساتھ نہ دے رہے
تھے۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہاں تو سب ہی مجاہدین آزدی ہیں آخر کون کس کا
ساتھ نہ دے رہا تھا اور جب ہندوستان کی یہ چال بھی ناکام ہوگئی تو اس نے
آزاد کشمیر پر حملہ کردیا۔ ہندوستان کے وزیرِ دفاع جناب ’’چَوّن‘‘ نے
پارلیمنٹ میں بڑی شیخی سے اعلان کیا کہ ہم نے جنگ بندی لائن عبور کرلی ہے
اور آئندہ بھی ایسا ہی کرینگے اور یہ ہم نے اپنے دفاع کے لیے کیا ہے۔ اس
پر پارلیمنٹ کے ممبران نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ پاکستان صبر
کرتا رہا۔ اقوام متحدہ کے مبصرین کو بلایا گیا اور انہیں دکھایا گیا کہ
حملہ آور کون ہے۔ لیکن ان کے کانوں پر تو جُوں تک نہ رینگی اور انہوں نے
دو تین روز تک کوئی کارروائی نہ کی۔ اس کے بعد ہندوستان نے ایک اور بزدلانہ
حرکت کی، وہ یہ کہ اب اس نے پاکستان کے ضلع گجرات کے گاؤں اعوان شریف پر
زبردست بمباری کی۔ جس سے 20 افراد شہید اور 15 زخمی ہوئے۔ پھر اقوام متحدہ
کو خبردار کیا گیا مگر انکے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ تھا اقوام متحدہ
کا کردار۔
آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور
چھمب کے علاقے میں جنگ بندی لائن توڑ دی اور پہلے ہی دن پانچ میل اندر گھس
گئے۔ ہندوستانیوں کو راہِ فرار اختیار کرنے کے سوا اور کیا چارہ تھا۔ دوسرے
دن ہماری فوجوں نے دریائے توی پار کرلیا اور اسی طرح تیسرے دن آزاد کشمیر
کی فوج پاکستان کی فوج کی مدد سے چھمب، جوڑیاں اور دیوا پر قبضہ کرچکے تھے۔
’’جوڑیاں‘‘ ہندوستان کی ایک بہت بڑی فوجی چوکی تھی۔ وہاں سے ہماری فوجوں کو
اتنا اسلحہ ہاتھ لگا جو ایک رجمنٹ کے لیے کافی تھا۔ابھی تو ہماری فوجیں صرف
22 میل ہی اندر گئی تھیں کہ اقوام متحدہ کو بڑی سخت پریشانی لاحق ہوئی اور
اسکی تمام خوشیوں پر پانی پھر گیا۔ وہ فوراً چیخنے لگے ’’جنگ بند کردو جنگ
بند کردو، ہم امن چاہتے ہیں‘‘۔ پاکستان کی فوج جموں کی طرف پیش قدمی کررہی
تھی اور جموں صرف 6 میل کے فاصلے پر تھا۔ ہندوستان کو اب اور کوئی چارہ نظر
نہ آیا اور اس نے کشمیر بچانے کے لیے پاکستان پر حملہ کردیا اور وہ بھی
لاہور کی شیر دل عوام پر۔ ہندوستان نے جتنے زور سے حملہ کیا تھا اتنے ہی
زور سے اسے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کے مطابق
ہماری صرف ایک کمپنی واہگاہ سیکٹر پر تھی، جس نے ہندوستان کی ہزاروں کی
تعداد میں افواج کو تقریباً سات گھنٹے تک روکے رکھا۔ لاہور سیکٹر میں دشمن
نے دو اطرف سے حملہ کیا تھا۔ یعنی واہگاہ اٹاری سیکٹر اور برکی ہڈیارہ
سیکٹر اسکے علاوہ سیالکوٹ میں ’’جسّڑ‘‘ کے مقام پر۔ دشمن کی کوشش تھی کہ وہ
لاہور اور سیالکوٹ سے گھس کر اس علاقے کو پورے مغربی پاکستان سے کاٹ دے اور
پھر اس طرح سے کشمیر کا علاقہ خالی کرایا جائے۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور
خدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے صدر محترم نے فرمایا کہ ہم حق کے لیے لڑ رہے
ہیں اور حق کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے تو ویسا ہی ہوا۔ جب یہاں سے دشمن کو
ناکامی ہوئی تو اس نے دو اور نئے محاذ قصور اور راجستھان میں کھول لیے۔
یہاں بھی ہماری افواج نے شاندار بہادری کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے کئی
گاؤں پر قبضہ کرلیا۔ قصور میں ’’کھیم کرن‘‘ کے علاقے میں پاکستان کا مکمل
قبضہ ہوگیا ہے جو کہ مولانا ابو الکلام آزاد کا آبائی وطن ہے۔ ۔ کھیم کرن
سے دشمن کی فوجیں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگیں ۔ انکو اپنے جوتے اور کپڑے
پہننے کی بھی مہلت نہ ملی۔ کیونکہ قبضے کے بعد میدان میں ٹوپیاں، جوتیاں،
وردیاں بکھری پڑی ہوئی ملی تھیں۔ سیالکوٹ سیکٹر میں چھمب اور جوڑیاں کے
مقام پر دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔ سیز فائر کے بعد روسی
حکومت نے پاکستان و ہندوستان کو دعوت دی کہ وہ تاشقند آئیں تاکہ امن
مذاکرات کیے جائیں۔ دونوں حکومتوں نے یہ بات منظور کرلی اور پاکستان کے صدر
ایوب خان اور ہندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند پہنچ گئے۔
ہندوستان کے وزیراعظم کو وہاں دل کا دورہ پڑ گیا۔ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے
انتقال کرگئے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ شاید معاہدہ انکے خلاف ہونے
کی وجہ سے انکا ہارٹ فیل ہوگیا ہے مگر یہ تاثر غلط تھا۔ یہ معاہدہ بقول
ذوالفقار علی بھٹو ہمارے خلاف ہوا اور ہم نے یہاں سب کچھ کھو دیا ہے۔ کچھ
عرصے بعد بھٹو صاحب نے جو کہ ملک کے وزیرخارجہ تھے ایوب خان کے خلاف بغاوت
کردی اور تحریک کا اعلان کردیا۔ لوگ جوق در جوق ان کے ساتھ شامل ہوتے چلے
گئے۔ بالآخر، انہوں نے اپنی ایک الگ پارٹی ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے نام
سے بنالی۔ ایسے پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد پڑی۔
صدر محترم ایوب خان کے نام ایک خط:
1966-67ء
جناب صدر صاحب
السلام علیکم!
امید کرتا ہوں کے آپ میری اس درخواست پر غور فرمائیں گے جو میں عرض کرنے
جارہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں جو بھی سربراہ مملکت تشریف
لاتے ہیں بیرونِ ممالک سے وہ ہمیشہ اپنی ہی قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔
چین کے صدر اور وزیراعظم آئے تو انہوں نے صرف اپنی قومی زبان میں خطاب
کیا۔ مصر کے صدر آئے تو وہ بھی عربی زبان میں بولے اور ابھی ابھی ترکی کے
صدر تشریف لائے تو انہوں نے بھی اپنی قومی زبان میں خطاب کیا۔ آخر اس کی
کیا وجہ ہے کہ آپ اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کا سہارا
لیتے ہیں؟ ہم لوگ اپنی زبان استعمال کرنے میں شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟ ہر
قوم کو اپنی قومی زبان پر ناز ہوتا ہے اور وہ کسی دوسری زبان میں بات چیت
کرنا باعث شرم سمجھتی ہے۔
میری آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ بھی غیر ممالک میں اور اپنے ملک
میں بھی اپنی قومی زبان یعنی اردو کو ذریعہ خیال بنائیں۔
ایک محب وطن شہری۔
شیخ محمد فاروق، لاہور سے۔
کمپوزر: کاشف فاروق، لاہور سے۔
|