ملک بھرکی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہاں پر مسلمانوں
کی نمائندگی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے ، پنچایت ، میونسپل کائونسل،
کارپوریشن ہویا اسمبلی یا پارلیمنٹ ، ان تمام حلقوں میں مسلمانوں کی
نمائندگی نہ کہ برابر ہے اور کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کو انکا سماجی
اور سیاسی حق دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ وہیں دوسری جانب اگر مسلمانوں کی
سیاست کا نمونہ دیکھنا ہے تو بھارت کی بیشتر مسجدوں کا جائزہ لیاجاسکتاہے
جہاں پر کمیٹیاں بنانے سے لے کر صدر ، سکریٹری اور متولّی بننے تک کی سیاست
عروج پر رہتی ہے اور ان عہدوں کو حاصل کرنے کے لئے مسلمان ایڑی چوٹی کا زور
لگادیتے ہیں یہاں تک کہ عدالتوں کے چکر کاٹنے اور عدالتوں میں لاکھوں روپئے
خرچ کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتے اور ان عہدوں کو حاصل کرنا ہی انکی زندگی
کا مقصد بن کر رہ جاتاہے ۔ اسلام میں مسجدوں کو اللہ کا گھر مانا جاتاہے
اور یہاں کے ذمہ داروں کو خادمین کا درجہ حاصل ہے لیکن کشمیر سے لے کر کنیا
کماری اور بنگال سے لے کر گجرات تک کی مسجدوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک
کامن بات یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ مسلمان مسجد کا صدر ، سکریٹر ی یا ممبر
بننا اپنے لئے یم ایل بننے کے برابر سمجھتاہے ۔ حالانکہ ایمانداری سے دیکھا
جائے تو مسجدوں کے ذمہ دار بننے پر انہیں نہ تنخواہ ملتی ہے نہ ہی انہیں
کوئی ہدیہ ملتاہے ، یہاں تک کہ جن مسجدوں میں آمدنی آتی ہے ان پر بھی
انکا کوئی حق نہیں ہوتالیکن سوال یہ ہے کہ آخر مسجدوں کے ذمہ داران بننے
اور کمیٹیاں بنانے کے لئے اس قدر مسلمان پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔ جو لوگ
قرآن و حدیث کو جانتے ہیں سمجھتے ہیں وہی لوگ مسجد کی اہمیت اور اسکی خدمت
کے تقاضوں کو ایمانداری کے ساتھ پورا کرتے ہیں اور جن کے دلوں میں خوف
خداہو وہ اللہ کے گھر کی حرمت کو دیکھتے ہوئے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے
پیچھے ہی ہٹ سکتے ہیں لیکن ملک کی بیشتر عدالتوں میں مسجدوں کی کمیٹیوں کے
مقدمے زیر سنوائی ہیں اور کئی مسجدوں کی کمیٹیوں کے فیصلے دنیاوی عدالتیں
کررہی ہیں ۔دراصل کچھ مسلمانوں نے اللہ کے گھروں کی کمیٹیوں میں ہونا اپنے
لئے اسٹیٹس بنالیا ہے اور یہاں ملنے والے عہدوں کو انہوںنے اپنے ویزیٹنگ
کارڈ ، شادی کارڈ اور کچھ نے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا ماحول
بنارکھاہے جبکہ اللہ کے گھروں کی ذمہ داری کو نبھانے والے کبھی اس طرح کی
رسہ کشی کو پسند نہیں کرسکتے۔ آج مسلمانوں نے اپنی نمائندگی اور قیادت کو
صرف مسجدوں تک محدود کررکھاہے اور وہ ہر گز بھی یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ
مسجد عہدوں کو حاصل کرنے کی جگہ نہیں بلکہ ان مسجدوں میں دی جانے والی
تربیت کو لے کر دنیا میں عوام کی نمائندگی کرنی ہے ۔ کئی ایسے لوگوں کو بھی
دیکھا گیا ہے جو مسجدوں کی آڑ لے کر سیاسی مفادات کی تکمیل میں رہ جاتے
ہیں اور اکثر الیکشن کے دوران سیاسی امیدواروں کے سامنے یہ حوالہ دیتے ہیں
کہ میں فلاں مسجد کاصدر یا سکریٹری ہوں ، میرے ماتحت اتنے مسلمانوں کے گھر
ہیں ، ہم فلاں مرکزی مسجد کے ذمہ دارہیں ہمارے ماتحت اتنی مسجدیں آتی ہیں
، ہمیں اچھے سے دیکھ لیں ، اس طرح کے جملے آج کل عام ہوچکے ہیں ۔ اگر
واقعی میں اللہ کے رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کی طرح مسلمان اور مسجدوں کے
ذمہ داران مسجدوں کا صحیح استعمال کرتے تو آج جو لاچارگی مسلمانوں میں
دیکھ رہے ہیں وہ نوبت نہیں آتی ۔ دوسروں کو لیڈر یا قائد بنانے کے بجائے
اپنے قائدین پیدا ہوتے ۔ اب بھی وقت ہے کہ علماء ، دانشوران اس سمت میں
سوچیں ، مسجدوں کو ناپاک سیاست اور غیر ذمہ دار لوگوں سے دور کریں ورنہ
آنے والے فتنوں کے دور میں یہی لوگ اہم کردار ادا کرینگے ۔ |