انتخاب جیتنے کے سارے حربے ناکام ہوگئے تو بیس سال
قدیم فساد کی یاد دلا کر’ہتھیلی پہ سر دکھایا گیا ‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بی
جے پی نے گجرات کے صوبائی انتخاب میں ریکارڈ توڑ کا میابی حاصل کرلی ۔ یہ
منصوبہ اگست میں بن چکا تھا اسی لیے پندرہ اگست کے دن بلقیس بانو کے اہل
خانہ کو قتل کرنے والے مجرمین کی سزا میں تخفیف کرکے انہیں رہا کردیا گیا۔
اس کے بعد جہاں بی جے پی کے کئی بڑے رہنماوں کا ٹکٹ کٹا ان مجرمین کو رہا
کرنے والے راؤل جی کو ٹکٹ دیا گیا حالانکہ پچھلی بار اسے صرف 518ووٹ کے
فرق سے کامیابی ملی تھی ۔ اس بار وہ 35200 ووٹ سے کامیاب ہوگیا ۔ اسی طرح
نروڈا پاٹیا سے وہاں ساٹھ ووٹ کے فرق سے جیتنے والے بلرام تھاوانی کو ہٹا
کر فساد میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے منوج ککرانی کی بیٹی پایل ککرانی کو
امیدوار بنایا گیا ۔ وہاں پر منوج کے علاوہ باقی سب مجرم رہا ہوگئے تھے۔
پایل تراسی ہزار ووٹ سے جیت گئی ۔ اسی طرح نریندر مودی کے سب سے بڑے مخالف
ہرین پنڈیا کے قتل میں جس امیت پوپٹ لال شاہ کا نام آیا تھا اس سابق میئر
کو بھی ٹکٹ دیا گیا ۔ اس طرح فساد کے حوالے ٹکٹوں کی تقسیم کرکے یہ انتخاب
جیتا گیا۔ یعنی اس کامیابی کا اصل سہرا فساد کے سر بندھتا ہے۔ اس حکمت عملی
سےا لیکشن میں تو بی جے پی کا بڑا فائدہ ہوا مگر بی جے پی نے فساد میں ملوث
ہونے کا الزام خود اپنے اوپر اوڑھ لیا اور اب اس کے لیے اس کا انکار ناممکن
ہوگیا ہے۔
وزیر داخلہ کا گجرات فساد سے متعلق بیان سنسکرت زبان کے معروف محاورہ ’وناش
کالے ویپریت بدھی‘ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سال سپریم کورٹ نے بالآخر ایس
آئی ٹی اس رپورٹ پر مہر ثبت کردی کہ جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو کلین
چِٹ دی گئی تھی۔ اس طرح گویا بی جے پی نے اپنے دامن سے گجرات فساد کا داغ
دھونے کی آخری کوشش کرڈالی ۔ اب اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ پھر سے جب
بھی اس پرفساد کا الزام لگے گا وہ سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر اپنا دامن بچا
لے گی لیکن ریاستی انتخاب میں ناکامی کے خوف نے سارا کیا دھرا چوپٹ کردیا ۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کھیڑا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران 2002 کے
گجرات فسادات کا حوالہ دے کر دو منٹ میں بیس سال کی محنت پر پانی پھیر دیا
۔ انہوں نے ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ایک بار 2002 کے اندر
نریندر مودی کے دور میں فساد کرانے کی کوشش کی گئی تھی، پھر ایسا سبق
سکھایا گیا کہ 2002 کے بعد 2022 آ گیا، کوئی سر نہیں اٹھاتا، فسادی گجرات
سے باہر چلے گئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں امن قائم کیا۔ جب
کانگریس تھی تو اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے‘۔ اس بیان جاوید صدیقی کے
اس شعر(مع ترمیم) کی یاد دلا دی؎
طلب ہوئی تو ہتھیلی پہ سر دکھایا گیا
ہماری لاش کا قاتل ہمیں بنایا گیا
کانگریس پچھلے ستائیس سال سے اقتدار میں نہیں ہے پھر بھی اس کو موردِ الزام
ٹھہرا کر لوگوں کو ڈرانے کے چکر میں شاہ جی ملک کے بدترین فسادات کی تہمت
خود اپنے سرپر اوڑھ لی ۔ یہ بات انہوں نے دیگر مقامات دوہرا کر ثابت کیا کہ
یہ زبان کی پھسلن نہیں ہے۔ بلقیس بانو کے مجرمین کی سزا معاف کرکے مرکزی
حکومت نے یہ اشارہ کیا تھا کہ اگر وہ مشکل میں پھنسی تو فساد کا سہارا لے
گی ۔ امیت شاہ کا بیان گواہ ہے کہ وہ مصیبت میں پھنس گئی۔ وہ اس سے نکل سکے
گی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا ۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ
واگھیلا تو وزیر اعظم نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے گودھرا کےمسلم
مخالف کش فسادات کے لیے عرصۂ دراز سے ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں لیکن ان
کی بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا ۔ گجرات سانحے کے 2 دہائیوں بعد بی جے
پی نے پھر سے فساد کا ذکر کرکے نہ صرف وزیر اعظم کو ملنے والی کلین چٹ پر
پانی پھیر دیا بلکہ امریکی انتظامیہ کے ذریعہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیر
اعلیٰ پر 2014 تک کی پابندی کا بھی جواز فراہم کر دیا۔
امیت شاہ کے متنازع بیان نے ملک کے سارے انصاف پسند یو ٹیوب چینلس مثلاً
نیوز لانڈری، نیوز کلک اور دی وائر کو شنکر سنگھ واگھیلا سے بات چیت کرنے
پر مجبور کردیا۔ اس انہیں فسادات کو منظم سازش والے قرار دینے کے کئی مواقع
ملے اور وہ اپنے الزام کو مختلف انداز میں دوہرا تے رہے۔ امیت شاہ اگر اپنے
خطاب میں فساد کو امن قائم کرنے کا موثر الۂ کار نہیں کہتے تو یہ ممکن
نہیں ہوتا ۔ شنکر سنگھ واگھیلا کا تعلق آر ایس ایس سے رہا ہے۔ وہ کیشو
بھائی پٹیل کی حکومت میں وزیر تھے ۔ ان کے مطابق جب کیشو بھائی پٹیل نے
اپنے وزراء تک سے ملنا جلنا بند کردیا تو ارکان اسمبلی کی گزارش پر انہوں
نے بی جے پی سے بغاوت کی اور وزیر اعلیٰ بنے ۔ اس کے بعد وہ الیکشن ہار گئے
اور کیشو بھائی کو پھر سے وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ واگھیلا کے مطابق 2002 میں
انتخاب سے قبل بی جے پی کے خلاف شدید ناراضی تھی اس کا فائدہ اٹھا کر
نریندر مودی کو زیر اعلیٰ بنے تھے ۔مودی سے جب اس وقت پوچھا گیا تھا کہ وہ
انتخاب کیسے جیتیں گے تو انہوں نے کہا تھا دس دن انتظار کیجیے، گجرات میں
کچھ بڑا ہوگا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوگا لیکن پھر گودھرا کا سانحہ
ہوگیا ۔ اس لیے واگھیلا اس گودھرا کی سابرمتی ایکسپریس میں آگ کو منصوبہ
بند سازش قرار دیتے ہیں۔
یہ الزام تو سنگین ہے لیکن اس کی تائید میں واگھیلا کی دلیل یہ ہے کہ ٹرین
میں جلنے والے کارسیوک ایودھیا جارہے تھے ۔ اس کی اطلاع مسلمانوں کو کیسے
مل سکتی تھی؟ ان کا کہنا ہے کہ باہر سے ڈبے کو آگ لگانا ناممکن ہے اور یہ
بات ثابت ہوچکی ہے کہ آگ اندر ہی لگی تھی ۔ یہ بھی اس میں مسلمانوں کے
ملوث نہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔نیوز لانڈری سے بات چیت میں شنکر سنگھ واگھیلا
نے کہا تھا ’اگر گودھرا میں فسادات نہ ہوتے، ٹرین کا ڈبہ نہیں جلایا جاتا
تو بی جے پی کے اقتدار میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گجرات میں محافظ
ہی شکاری بن گئے‘۔ انہوں نے سونیا گاندھی کی طرح مودی کو موت کا سوداگر بھی
کہا اور الزام لگایا کہ اس نے نفرت پھیلانے کے سوا عوامی فلاح وبہبود کا
کوئی کام نہیں کیا ۔ واگھیلا کا کہنا تھا کہ مودی سرکار ان لاشوں کے ساتھ
جلوس نکالنے کی سازش رچی تھی لیکن انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی ورنہ
اور بھی زیادہ تباہی ہوتی۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نے گودھرا کا ذکر کرتے
ہوئے کہا تھا کہ اگر گودھرا تشدد نہ ہوا ہوتا تو بی جے پی اقتدار میں نہ
آتی۔
شنکر سنگھ واگھیلا نےیہ بات پہلی بار نہیں کہی بلکہ مئی 2019 میں بھی انہوں
نے ایسے سنگین الزامات لگائے تھے لیکن کسی نے ان پر توجہ نہیں دی اس لیےکہ
بی جے پی اس کا انکار کرتی تھی لیکن اب حالت بدل گئی ہے ۔ساڑھے تین سال قبل
تو انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ پلوامہ کا دہشت گردانہ حملہ بھی بی جے پی
کی اسی طرح سازش تھی جیسے گودھرا کا سانحہ ہو اتھا۔ اپنے الزام کی تائید
میں واگھیلا نے کہا تھا کہ پلوامہ میں آر ڈی ایکس کے لیے استعمال کی جانے
والی گاڑی پر گجرات کا پلیٹ نمبر تھا ۔انہوں نے الزام لگایا تھا انتخابات
میں جیت کے لیے بی جے پی دہشت گردی کا سہارا لیتی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ کے
مطابق مودی اقتدار کے پہلے پانچ سالوں میں ملک کے اندر سب سے زیادہ دہشت
گردانہ حملے ہوئے تھے ۔ گودھرا اور پلوامہ سے آگے بڑھ کر واگھیلا نے یہ
بھی کہا تھا کہ بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک بھی بی جے پی کی ہی سازش تھی۔ کوئی
بین الاقوامی ایجنسی یہ تصدیق نہیں کر پائی کہ ائیر اسٹرائیک میں 200 لوگ
مارے گئے تھے وہ تو کہتے ہیں کہ وہاں کوئی نہیں مرا ۔
شنکر سنگھ واگھیلا نے اس وقت میڈیا سے بات کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ
پلوامہ کو لے کر انٹلیجنس ذرائع کی معلومات ملنے کے باوجود کوئی قدم کیوں
نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر آپ کے پاس بالاکوٹ کو لے
کر معلومات تھی تو دہشت گردوں کے کیمپس پر کارروائی کرنے کی خاطر پلوامہ
جیسے واقعہ کا انتظار کیوں کیا گیا؟ واگھیلا کے سوالات نہایت معقول اور اہم
ہیں لیکن گودی میڈیا کے لیے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اس لیے ان پر بحث
و مباحثہ نہیں ہوتا اور کوئی بڑا چینل اس رہنما کو اپنے یہاں نہیں بلاتا
تھا لیکن امیت شاہ کی مہربانی سے پہلے سوشیل میڈیا پر ان کی پذیرائی ہونے
لگی ہے۔اس کے علاوہ نیوز 24نے ابھی حال میں ان کو اپنے چینل پر بلا لیا۔
دوسرے مرحلے کی رائے دہندگی سے قبل انہوں نے یہ پیشنگوئی کی کہ اس بار بی
جے پی کو اسیّ سے بھی کم نشستوں پر کامیابی ملے گی کیونکہ عوام میں بی جے
پی کے تئیں زبردست ناراضی ہے اور وہ خاموشی سے اس کے خلاف ووٹ کررہے ہیں ۔
بی جے پی کی کامیابی کا راز کھولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے ہندووں کو
یہ سمجھا دیا ہے کہ وہ اسی کی وجہ سے زندہ ہیں ورنہ مسلمان ان کو مار ڈالتے
لیکن دھیرے دھیرے عوام کی آنکھیں کھلیں گی۔شنکر سنگھ واگھیلا کی اس خوش
فہمی کو عوام نے مسترد کردیا ۔ 2002 میں وزیر اعلیٰ مودی کو انتخاب جیتنے
کے لیے ایک زبردست فساد کی ضرورت پڑی جبکہ 2022 میں تو اس کا تذکرہ ہی کافی
ہوگیا۔ گجرات کے انتخابی نتائج شاہد ہیں کہ نہایت ڈرپوک اور کینہ پرور رائے
دہندگان کومودی اور شاہ جیسے حکمراں ہی میسر آئیں گے ۔
|