اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے 12 ویں سیکرٹری
جنرل حسین ابراہیم طحہ 3روزہ دورے پر پاکستان میں ہیں وہ وزیر خارجہ بلاول
بھٹو ، او آئی سی میں پاکستان کے مستقل نمائندے رضوان سعید شیخ اور
ڈائریکٹر جنرل او آئی سی فرخ اقبال سمیت وفد کے ہمراہ آزاد جموں و کشمیر کا
دورہ بھی کریں گے او آئی سی کی بنیاد آج سے 53سال قبل 25 ستمبر 1969کو رکھی
گئی تھی اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل کا انتخاب او آئی سی کونسل آف
وزرائے خارجہ کی سفارش سے 57 رکن ممالک سے پانچ سال کی قابل تجدید مدت کے
لیے کیا جاتا ہے یہ او آئی سی کے اندریہ ایک اہم عہدہ ہے جسے ایکویٹی اور
اس کے اصولوں کے تحت منتخب کیا جاتا ہے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بعد دوسرے اعلیٰ ترین بین الحکومتی ادارے کے
سربراہ ہیں کوئی بھی رکن ریاست گردش اور مساوی مواقع سالمیت اور تجربے کے
ساتھ اس عہدے کے لیے اہل ہونے کا حقدار ہوتاہے سیکریٹری جنرل OIC کے رہنما
خطوط کے دائرہ کار میں پوری تنظیم کے کردار کا تعین کرتا ہے اورتنظیم کے
فریم ورک کے اندر اپنی رائے کے مطابق معاملات کو تنظیم کے متعلقہ اداروں کی
توجہ میں لاتا ہے سیکریٹری جنرل کونسل آف خارجہ یا تنظیم سے وابستہ وزراء
اور اسلامی سربراہی اجلاسوں کی طرف سے کئے گئے یا تجویز کردہ حتمی فیصلے
اور قراردادوں کو نافذ کرتا ہے اورایک بار جب کسی فیصلے پر عمل درآمد ہو
جاتا ہے تو سیکریٹری جنرل ممبر ممالک کو فیصلوں سفارشات اور قراردادوں کے
نفاذ کے لیے کاغذات اور یادداشت فراہم کرتا ہے سیکرٹری جنرل رکن ممالک سے
متعلق اہم فیصلوں کے تبادلے کے علاوہ بہتر افہام و تفہیم اور تعاون کے لیے
OIC کے دیگر اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے اور تنظیمی سرگرمیوں سے
متعلق او آئی سی کی سالانہ رپورٹ رکن ممالک کو پیش کرتا ہے ٹنکو عبدالرحمن
او آئی سی کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے ۔ 57 رکن ممالک، جن میں 48 مسلم
اکثریتی ممالک ہیں اور یہ مسلم دنیا کی اجتماعی آواز جو بین الاقوامی امن
اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے جذبے کے تحت مسلم دنیا کے مفادات کے تحفظ کے
لیے کام کرتی ہے او آئی سی کے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے مستقل
مندوبین ہیں او آئی سی کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی ہیں
2015 تک رکن ممالک کی مجموعی آبادی 1.8 بلین سے زیادہ تھی جو کہ دنیا کی
آبادی کے صرف ایک چوتھائی سے کم ہے اپنے چارٹر کے مطابق او آئی سی کا مقصد
اسلامی سماجی اور اقتصادی اقدار کا تحفظ کرنا ہے رکن ممالک کے درمیان
یکجہتی کو فروغ دینا سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں
تعاون میں اضافہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا اعلیٰ تعلیم
بلخصوصسائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں میں تعاون کرنا بھی اس تنظیم کا
اہم مشن ہے او آئی سی کا نشان کعبہ، گلوب، اور ہلال پر مشتمل ہے جو اس کے
وژن اور مشن کی عکاسی کرتا ہے جسے نئے چارٹر میں شامل بھی کیا گیا ہے 5
اگست 1990 کو او آئی سی کے 45 وزرائے خارجہ نے اسلام میں انسانی حقوق کے
بارے میں قاہرہ اعلامیہ کو اپنایا تاکہ رکن ممالک کے لیے انسانی حقوق کے
معاملات میں رہنمائی کے طور پر کام کیا جا سکے جوشریعت اور قرآن سے ہم آہنگ
ہو او آئی سی کا پہلے نام تنظیم اسلام کانفرنس ہوا کرتا تھا جو 28 جون 2011
کو آستانہ قازقستان میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے 38ویں اجلاس تبدیل کیا
گیا او آئی سی نے اس وقت اپنا لوگو بھی تبدیل کرلیاتھا او آئی سی کے رکن
ممالک میں پاکستان، قطر، سعودی عرب، شام، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان،
متحدہ عرب امارات، ازبکستان، یمن ، البانیہ،امریکہ،تیونس، یوگنڈا،
افغانستان، آذربائیجان، بحرین، بنگلہ دیش، برونائی، انڈونیشیا، ایران، عراق،
اردن، قازقستان، کویت، کرغزستان، لبنان، ملائیشیا، مالدیپ، عمان، فلسطین،
گیانا، سورینام، بینن، برکینا فاسو، کیمرون، چاڈ، کوموروس، جبوتی ،مصر،
گبون، گیمبیا، گنی، گنی بساؤ، آئیوری کوسٹ، لیبیا، مالی، موریطانیہ، مراکش،
موزمبیق، نائجر، نائیجیریا، سینیگال، سیرا لیون، صومالیہ اورسوڈان شامل ہیں
او آئی سی کے رکن ممالک کی پارلیمانی یونین (PUOICM) 1999 کو ایران میں
قائم ہوئی تھی جسکا ہیڈ آفس تہران میں واقع ہے صرف او آئی سی ممبران ہی
یونین میں رکنیت کے حقدار ہیں پاکستان کو اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)
میں ایک اہم مرتبہ حاصل ہے آبادی کے لحاظ سے پاکستان OIC کا دوسرا بڑا رکن
ہے پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس نے ایٹمی ہتھیاروں کا دھماکہ کیا ہے، اس کے
پاس دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوجی قوت ہے اور مختلف مسلم ممالک میں کام کرنے
کثیر تعداد میں اوورسیز پاکستانی قوت بھی ہے 22-24 فروری 1974 کو لاہور میں
منعقدہ OIC کے دوسرے سربراہی اجلاس میں پاکستان نے سابق مشرقی پاکستان کو
عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے طور پر تسلیم کیاتھاجبکہ بھٹو بنگلہ دیش کو
سربراہی اجلاس میں شریک نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن عرب دنیا کے کئی سربراہان
مملکت اس وقت پاکستان میں موجود تھے جنہوں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر
دباؤ ڈالا کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کو شرکت کی دعوت دیں او آئی سی کے سات
رکنی وفد نے شیخ مجیب کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے ڈھاکہ
کا دورہ بھی کیا اور پھر باضابطہ دعوت کے بعد شیخ مجیب کو سربراہی اجلاس
میں شرکت کے لیے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ڈھاکہ سے لاہور لایا گیا جسکے
بعد بھٹو نے جولائی 1974 میں ڈھاکہ کا دورہ بھی کیا یوں 18 جنوری 1976
کوپاکستان کے بنگلہ دیش سے تعلقات قائم ہوئے۔ پاکستان نے او آئی سی کے
دوسرے سربراہی اجلاس میں بہت سے اہم مسائل اٹھائے اس وقت پاکستان کے بھارت
کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے جبکہ خانہ جنگی میں ملوث ہونے کی وجہ سے
مشرقی پاکستان 1971 میں مغربی پاکستان سے الگ ہو گیا تھا اور بھارت پر بھی
سازشوں سے باز نہ آیا بلکہ مقبوضہ کشمیر پر چڑھائی کردی بے گناہ کشمیریوں
کا ناحق قتل عام کیا تو 1969 میں مراکش کے شاہ حسن نے رباط میں کانفرنس کے
لیے حکومت ہند کو مدعو تو پاکستان کے اس وقت کے حکمران جنرل یحییٰ خان نے
واک آؤٹ کرنے کی دھمکی دی تو شاہ حسن نے ہندوستانی مندوبین سے سے معذرت
کرلی اگر دیکھا جائے تو او آئی سی اسلامی دنیا کی ایک مضبوط آواز بن کر
سامنے آئی ہے ۔
|