انسان کے دل میں کوئی جذبہ یا احساس پیدا ہوتا ہے ،وہ
حاصل مشاہدہ و تجربہ ہوتا ہے یا داخلی اور خارجی حقائق کے ادراک و شعور کا
حقیقی جذبہ و احساس یہی الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر شعر کی صورت اختیار کرتا
ہے۔اس کے معیار کا انحصار قوتِ فکریہ پر ہوتا ہے۔جس شاعر کی قوتِ فکریہ جس
قدر بلند ہوگی شعر بھی اسی قدر بلند ہوگا۔شاعری مطالعے اور تجربے کی کوکھ
سے وجود میں آتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس عمل میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی
ہے جس کے اثرات دل و دماغ پر مرتسم ہوتے رہتے ہیں ۔آج ہم جس تصورو خیال کو
احسن سمجھتے ہیں کل وہی ناپسندیدہ ہوجاتا ہے۔شاعر کے تخلیقی سفر میں اس کے
لب و لہجہ کی تبدیلی اسی سچائی غماز ہے۔دلشاد نظمی کی شاعری بھی اس حقیقت
کی شاہد ہے۔
دلشاد نظمی صاحب عصرِ حاضر کے معروف و مقبول شاعر ہیں ۔ان کی طویل ریاضت
اور خرمن اندازی کا حاصل ہے اس میں حرف و حکایت بھی ہے شکوہ و شکایت بھی
اور فن شعر کی اعلیٰ قدروں کا احساس بھی ۔ان کی شاعر جن سماجی مسائل کی
فنکارانہ تخیلو تالیف کا ایسا درو بست ہے جو اُن کی انفرادیت اور اچھی
صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔فن ِ باختگی کے اس بحران میں جو اردو ادب کو
فل الحال اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ ان کی شاعری تہذیب و نفاست ، شائستگی
و خوش فکری اور مسرت و بصیرت کا ایسا سامان رکھتا ہے جو خوش نگاہ سامعین و
قارئیں کو متوجہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
حسن و عشق ناز و نیا ز، ہجر و وصال ، شوق و انتظار کو ہر دور میں موضوعِ
سخن بنایا گیا ہے۔دلشاد نظمی بنیادی طور ہر اسی دائرے کے شاعر ہیں۔ مگر ان
کے کلام میں جگہ جگہ صوفیانہ خیالات اور تصوف کی چاشنی بھی نظر آتی ہے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ واصف کے کلام کو پڑھ کر تذکیہ نفس کے اسباب بھی
فراہم ہوتے ہیں اور ا ن کا سلسلہ ان شعراء سے مل جاتا ہے جو ماضی میں ان
پاکیزہ اور طاہر روایات کے علم بردار رہے ہیں دلشاد نظمی کی شاعری میں دردو
کرب اوروصال و فراق کے علاوہ بھی نہایت خوب صورت اور دل کش مضامین میسر آتے
ہیں ۔ ان کا شعری بیانیہ گہری فکر سے مزین اور آراستہ ہونے کے ساتھ ، ساتھ
معنویت و مقصدیت سے بھر پور ہے۔وہ بڑی سے بڑی اور گہری سے گہری بات کو عام
فہم انداز میں بے تکلفی، عمدگی اور خوب صورتی کے ساتھ شعری پیرائے میں
ڈھالنے کے فن پر خوب قدرت و مہارت رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کی ایک بڑی خوبی
اور خصوصیت یہ ہے کہ مطالعہ کرتے ہوئے روانگی اور تسلسل نہیں ٹوٹتا ۔ ایک
بار جب قاری ورق گردانی شروع کرتا ہے توہر ایک غزل اور نظم کے بعد دوسری
غزل اور نظم پڑھنے کی چاشنی ، لطافت اور کشش بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
اندازِ بیان و سخن سادہ ، پُرکیف اور پُر اثر ہے ۔ تصنع اور بناوٹ سے دور
ہے۔ بے ساختگی اور بے باکی کا رنگ غالب ہے۔ سچائی اور حقیقت کا رنگ جھلکتا
ہے۔
میں امید ہ کرتی ہوں دلشاد نظمی یونہی علم و ادب کے بے لوث خدمت کرتے ہیں
گے۔
پہلے ٹھٹھکی، تھوڑا. جھجکی، یک بیک نظریں بدل کر
آشنا لڑکی ملی تھی، اجنبی عورت میں ڈھل کر
خواب سا تھا ایک پیالی چائے کا دورانیہ، پھر
بھیڑ میں گم ہوگئی تعبیر کیفے سے نکل کر
جاگتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی تو دیکھے
دیکھنے والا کوئی تو ہو مجھے بھی آنکھیں مل کر
اصلیت پہچانتا ہے آپ کی، اندر کا شیشہ
خوش گمانی دیکھتی ہے رات دن چہرہ بدل کر
دیر سے منڈلا رہی ہے ایک گوریا فضا میں.
اک چڑا لٹکا ہوا ہے تار سے بجلی کے جل کر
پھر نئے دن کی ضرورت ہے مگن تیاریوں میں
ہر کوئی نکلے گا گھر سے خواہشوں کی راکھ مل کر
سْن خرد والوں کی باتیں لیکن اے دلشاد نظمی
عشق کے سارے معمے اپنی نادانی سے حل کر
غرض نہیں مجھے سیلاب کی روانی سے
ندی ہی کاٹے گی چَٹّان میٹھے پانی سے
یہاں تو لوگ ہر اک بات پہ قسم کھا کر
تعلقات نبھاتے ہیں بے ایمانی سے
نبھا نہ پاو گے کردار اپنے حصے کا
مجھے نکال کے دیکھو زرا کہانی سے
تمہاری نیت ِ تفسیر پڑھ رہا ہوں ابھی
تمہارا پیار ہے وحشت ذدہ. معانی سے
اب ایرے غیرے کو ترجیح تو نہیں دوں گا
مقابلہ بھی کروں گا تو خاندانی سے
کیٔ طرح کے خداؤں کے آسرے پہ جیو
تباہ کرتے رہو خود کو خوش گمانی سے
ہو میرا رخت ِ سفر لا الہ الا اللہ
روانہ ہونے لگوں جب سرائے فانی سے
صداۓ عشق میں دلشاد اتنی لذّت ہے
کیا نہ شکوۂ غم بھی کسی گیانی سے.
فریب کھا کے بھی ہم نے یہاں سنوارے دن منافقوں میں رہے، شان سے گزارے دن
نصیب _عشق تھا میرا کا
دربدر ہونا سہاگ رات کے سپنے تھے اور کنوارے دن تمام رات بدن کروٹوں میں جا
گے گا جوانی سو کے
گزارے گی دن کو سارے دن عجب ہے آج کے سورج کی سست رفتاری جو شام آئے تو
اپنی تھکن اتارے
دن میں گن رہا تھا کبھی بھیگی انگلیوں سے جنہیں کہاں گئے وہ مری عمر کے
کرار ے دن مصالحت کبھی
شب خون مارتی ہی نہیں مزاحمت پہ کبھی تو مجھے اُبھارے دن جو واقعات ہیں
دلشاد سارے گڈ مڈ ہیں بتاؤں کیا تمہیں کیسے کٹے ہمارے دن
کتنا مزہ تھا چائے اور پراٹھے میں
بد مزہ ہر ڈش ہو گئی چمچ کانٹے میں
میں کمزور سا لڑکا بھائی بن جاؤں؟
چیخ رہی ہے اک لڑکی سناٹے میں
بھینچ لیا پھر اس نے مجھ کو سینے سے
کتنا پیار بھرا تھا اس کے چانٹے میں
انگلی چوستے ہی اس کے آنسو تھم گئے
بچے کی انگلی پھنس گئی تھی کانٹے میں
ویسی روٹی کون بنا سکتا ہے اب
امّاں نمک چھڑکتی تھی بس آٹے میں
فائدے اور نقصان کا یہ رشتہ ہی نہیں.
چھوڑ کے جاؤ گی تو رہو گی گھاٹے میں
بے قیدی بن کر رہ گئے اب تم بھی دلشاد
عمر گنوا دی تم نے سیر سپاٹے میں
|