کوئی 34 سال ادھر کا واقعہ ہے۔ جب عالمی اردو کانفرنس کے
ایک مشاعرے میں پہلی بار جون ایلیا کو دیکھا تو میں انہیں دیکھتا ہی چلا
گیا۔ ان کی وضع قطع، لباس، چال اور حلیہ دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اپنی مٹی
اور رنگ وبو سے بچھڑا ہوا کوئی ایسا شخص ہو جسے تلاش وجستجو نے مجنونانہ
کیفیات سے دوچار کردیا ہے۔ان کی بے چینی، اضطراب اور کیفیات کو دیکھ کر
کبھی کبھی اس بچے کا خیال آتا تھا جو اپنی ضد کے سامنے سب کو مجبور وبے بس
کردے۔ جون ایلیا جب شعر پڑھتے تھے تو ان پر حال طاری ہوتا تھااور غالباً ان
کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سامعین بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوں۔ وہ داد جیسی
بے معنی چیز کے تو ہرگز طلب گار نہیں تھے لیکن سامعین کی توجہ پوری کی پوری
چاہتے تھے۔
برسوں پہلے کی بات ہے وہ دہلی آئے تھے۔ دہلی ہائی کورٹ کے ایک سینئر وکیل
مسلمان جج نے جن کا ادب سے گہرا تعلق ہے، جون ایلیا کو کھانے پر مدعو
کیا۔جون وقت سے پہلے وہاں پہنچ گئے۔رسمی گفتگو ہوئی اور جوں ہی شام ڈھلی ان
کی کیفیت بدلنی شروع ہوگئی۔ طلب نے زور مارا اور انہوں نے میزبان سے کہاکہ
اگر چند ثانیوں میں انتظام نہ ہوا تو میری جان نکل جائے گی۔ میزبان جون
ایلیا کی اس کمزوری سے واقف نہیں تھے اور وہ خود ایسا کوئی شوق نہیں پالتے
تھے۔ انہوں نے سوچا جون مذاق کررہے ہیں اور کچھ دیر میں نارمل ہوجائیں گے
لیکن جوں جوں شام ڈھل رہی تھی ان کی کیفیت دگرگوں ہورہی تھی۔ آخرکار میزبان
نے اپنے ڈرائیور سے کہاکہ انہیں ان کی طلب کی جگہ پر لے جاؤ اور پھر وہاں
سے وہیں پہنچانا جہاں سے لے کر آئے ہو۔ یوں اس طرح اچھی خاصی دعوت تمام
ہوئی۔ یہ واقعہ جج موصوف نے راقم الحروف کو خود سنایا تھا۔
مے کشی جون ایلیا کی ایک ایسی کمزوری تھی جس نے ان کی صحت کے علاوہ ان سے
زندگی کی بہت سی خوشیاں اور خود ان کا اپنا قرار چھین لیا تھا۔ ان کی اسی
لت کی وجہ سے نہایت باوقار بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کی اور آخر میں تو
ان کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود پھیپھڑوں کی
تکالیف کے سبب اپنے کلام کو چاہنے والوں تک پہنچانے سے بھی معذور ہوگئے تھے۔
موت سے قبل ان کا ایک پھیپھڑا بالکل ناکارہ ہوگیا تھا اور دوسرا پھیپھڑا
بیس فیصد ہی کام کررہا تھا۔
چند برس پہلے انہیں دہلی کے ایک مشاعرے میں دیکھ کر شدید جھٹکا لگا۔ دہلی
میں ڈی سی ایم نے جب اپنے مشاعروں کا سلسلہ ختم کیا تو اسی ماڈرن اسکول میں
اردو کی ایک شیدائی محترمہ کامنا پرشاد نے جشن بہار کے نام سے ہندوپاک کے
شاعروں کی ایک محفل سجائی جس میں پاکستان سے احمد فراز اور فہمیدہ ریاض کے
ساتھ جون ایلیا بھی آئے تھے۔ جب ان کا نام پکارا گیا تو وہ بڑی مشکل سے
مائک تک تو آگئے لیکن کھڑے رہنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ بالآخر انہوں نے
بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا۔ شدید کھانسی اور پھیپھڑوں کی نقاہت کے سبب ان کی
آواز بڑی مشکل سے نکل رہی تھی۔ بہت ہمت کے ساتھ انہوں نے چند اشعار پڑھے تو
جون ایلیا کے شیدائیوں کا حوصلہ بڑھا اور پھر فرمائشوں کا سلسلہ چلا۔ جون
صاحب تعمیل ارشاد بھی کرتے رہے لیکن ان کی آواز میں اب پہلے جیسا دم خم
نہیں تھا۔ لہجہ میں کھردراپن آگیا تھا مگر انداز وہی قلندرانہ تھا۔
اگر ہم اپنے عہد کے شعری منظرنامہ پر نظرڈالیں تو محسوس ہوگا کہ جون ایلیا
نے سلطنت شعروشاعری میں جو سکہ چلایا وہ کسی دوسرے شاعر کا مقدر نہیں
ہوسکا۔ رومانی شاعری میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ وہ مشکل ترین
بحروں میں جس طرح خوبصورت شعر کہتے تھے وہ ان کا ہی خاصا تھا۔
جون ایلیا، اپنی شاعرانہ عظمت کے سبب تو علمی حلقوں میں مقبولیت کی معراج
کو پہنچے ہی اس کے ساتھ ہی انہیں نثر پر جو ملکہ حاصل تھا وہ بہت کم شاعروں
کو نصیب ہوا ہے۔ وہ اپنے علم وفضل، مطالعہ، زبان وبیان اور عربی وفارسی پر
جتنی گرفت اور رسائی رکھتے تھے اس کی مثال اس عہد کے شاعرو ں میں بہت کم
ملتی ہے۔ اپنی زندگی میں اتنی بے ترتیبی، لاابالی پن اور انتشار کے باوجود
ان کے دماغ میں علم وفضل کا دریا موجزن تھا۔
جون ایلیا کے اولین مجموعہ کلام ”شاید“ میں ان کے منتخب کلام کے علاوہ جو
چالیس صفحات پر مشتمل دیباچہ ”نیازمندانہ“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے وہ ان
کی ایک مختصر آپ بیتی ہے۔ جسے 200 صفحات سے گھٹا کر 40صفحات میں مختصر
کیاگیا ہے۔ انہوں نے زبان وبیان کے لحاظ سے اس میں جو موتی پروئے ہیں اسے
پڑھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی واردات قلب کا اندازہ اس دیباچہ سے
بخوبی ہوتا ہے جس کے ابتدائی جملے کچھ اس طرح ہیں۔
”یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں
رائیگاں گیا۔ مجھے رائیگاں جانا بھی چاہئے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی
خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ
سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے
بڑی دولت تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا۔“ (شاید صفحہ 11)
جون ایلیا1930 میں امروہہ کے ایک باوقار شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا
اصل نام جان اصغر تھا اور انہوں نے حضرت علی کے دوغلاموں جون اور ایلیا کے
نام پر اپنا تخلص رکھا تھا۔ امروہہ جون ایلیا کا وطن بھی تھا اور ان کی سب
سے بڑی کمزوری بھی۔ باد حوادث نے انہیں سرحد کے اس پار پہنچا دیا تھا جہاں
وہ وطن کی محبت میں ڈھیروں آنسو بہاتے تھے۔ وہ جب کبھی ہندوستان آتے تو
امروہہ کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے پیشانی ٹکاتے تھے۔ یہ وطن سے ان کی
محبت کی آخری حد تھی۔ لوگوں نے بارہا انہیں امروہہ میں اپنے بچپن کی
یادگاروں کو دیکھ کر روتے چلاتے دیکھا۔ کبھی کسی درخت کو لپٹ کر رورہے ہیں
کہ میں بچپن میں اس کے نیچے گھنٹوں کھیلا کرتا تھا۔ کبھی بچپن کے کسی دوست
سے یوں بغل گیر ہیں کہ اسے چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے
امروہہ کو چھوڑ کر خود کو خوش بختی سے محروم پایا۔ بقول خود:
”میں دوآبہ گنگ وجمن کے حالت خیز، رمزیت آمیز اور دل انگیز شہر امروہہ میں
پیدا ہوا۔ امروہہ میں نہ جانے کب سے ایک کہاوت مشہور چلی آرہی ہے کہ امروہہ
شہر تخت ہے، گزراں یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے…… مجھے نہیں معلوم
کہ شمالی ہند کے پہلے مثنوی نگار سید اسماعیل امروہوی، شیخ غلام ہمدانی
مصحفی، نسیم امروہوی، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، سید صادقین احمد، محمد
علی صدیقی اور اقبال مہدی نے امروہہ کو چھوڑ کر اپنے آپ کو کم بخت محسوس
کیا تھا یا نہیں مگر میں نے……بہرحال“
(”شاید“ صفحہ 14)
جون ایلیا کی پیدائش امروہہ کے جس خاندان میں ہوئی تھی وہاں شعر وشاعری اور
علم وآگہی کے دریا بہتے تھے۔ یہ اپنے آپ میں ایک انوکھی مثال ہے کہ ان کے
گھر میں پیدا ہونے والا ہر شخص شاعر تھا۔ اس طرح وہ خاندانی شاعر تو تھے ہی
جس ماحول میں ان کی پرورش اور پرداخت ہوئی وہ بھی ایک نہایت کشادہ اور وسیع
ماحول تھا۔ جہاں تنگ نظری کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ شعر وادب کا سلسلہ ان
کے یہاں کئی پشتوں سے چلا آرہا ہے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا
چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے۔ ان کے دادا سید نصیر حسن نصیر
بھی شاعر تے اور پردادا سید امیر حسن امیر اردو اور فارسی دونوں میں شعر
کہتے تھے۔ بقول جون ایلیا سید امیر حسن کے داد سید سلطان احمد، میر تقی
میرؔ کے ارشد تلامذہ سیدعبدالرسول نثاراکبرآبادی کے شاگرد تھے۔
خودجون ایلیا کو بھی میر سے شدید عشق تھا۔ جون ایلیا کے قریبی دوست انیق
احمد نے ان کی کیفیات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
”جون ایلیا اذیت پسند، اذیت رساں اور بے چین روح کا نام تھا۔ جون ایلیا کو
تاریخ، عمرانیات،مذاہب عالم، فلسفہ، شاعری اور بے شمار علوم کا شغف نہیں،
ان پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعری کرنا نہیں،شاعری میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ
سرتا پاشاعر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص ان سے ہمیشہ علمی اور ادبی
موضوعات پر گفتگو کرے۔ وہ اس عہد سے گلہ مند تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان
سے ان کی خواہش معلوم کی جاتی تو وہ اس عہد میں پیدا ہونا ہی پسند نہ
کرتے۔“
جون ایلیا کو شاعری کے ساتھ فلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ ترقی پسند
تحریک کے زیر اثر اشتراکیت کے ہمنوا ہوئے۔ جون ایلیا نے اپنی زندگی میں جس
قدر نشیب وفراز کا مقابلہ کیا اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا تمام
ہوگیا ہوتا مگر یہ غالبا علم کا فیضان تھا کہ اس نے انہیں کبھی بالکل ٹوٹنے
اور بکھرنے نہیں دیاوگرنہ وہ عمر کے ایک حصہ میں جن کیفیات سے دوچار رہے
ہیں اس میں آدمی کو خود کو سنبھالنا اور یکجا رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن
ہوتا ہے۔
اتنی بے مثال شاعری کرنے کے باوجودتقریباً 30سال تک اپنے شعری مجموعے کی
اشاعت سے فرار اختیار کئے رہے، حالانکہ اس کا سب بھی تھا اور وہ بھی
بڑاعجیب۔ ان کے کئی عزیزوں، دوستوں اور چاہنے والوں نے ان کے مجموعہ کلام
کی اشاعت کے لئے انتھک کوششیں کیں لیکن جون صاحب نے کسی کو قابو نہیں دیا
اور یہ کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ انہوں نے ”شاید“ کے دیباچہ میں اس روئیداد کو
کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے۔
”آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنا کلام نہ چھپوانے میں آخر اتنا مبالغہ کیوں
کیا۔ اس کی وجہ میرا ایک احساس جرم اور روحانی اذیت ہے ……میں جس اذیت ناک
حالت میں مجموعہ مرتب کرنے پرمامور ہوا تھا اس حالت میں شاید ہی کسی شاعر
نے اپنا مجموعہ مرتب کیا ہو۔ میں اس حالت سے کہیں زیادہ اذیت ناک حال میں
تھا اور ہوں، جس میں دسویں صدی عیسوی کے عظیم المرتبت ادیب اور مفکر ابو
حیان توحیدی نے اپنے حالات سے تنگ آکر اور اس عہد کے ”باذوق امراء“ کی
خوشنودی حاصل کرنے کی ناگوار مشقت سے بیزار ہوکر اپنی ناکام زندگی کے آخری
لمحوں میں اپنی تصنیفات کے مسودے جلوادیئے تھے۔“
جون ایلیا نے اپنی عمر کے تقریباً دس برس نہایت اذیت ناک نفسیاتی الجھنوں
میں گزارے جس سے ان کے دل ودماغ پر گہرا اثر پڑا اور وہ اس عرصہ میں دنیا
ومافیہا سے بے خبر ہوگئے تھے۔ انہوں نے اس کیفیت کو اس انداز میں بیان کیا
ہے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں:
”1986 کا ذکر ہے، میری حالت گزشتہ دس برس سے سخت ابتر تھی۔ میں ایک نیم
تاریک کمرے کے اندر ایک گوشے میں سہما بیٹھا رہتا تھا۔ مجھے روشنی سے،
آوازوں سے اور لوگوں سے ڈرلگتا تھا۔ ایک دن میرا عزیز بھائی سلیم جعفری مجھ
سے ملنے آیا۔ وہ چند روز پہلے دبئی سے کراچی آیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہاکہ
جون بھائی، میں آپ کو فرار اور گریز کی زندگی نہیں گزارنے دوں گا۔ آپ نے
مجھے لڑکپن سے انقلاب کے، عوام کی فتح مندی اور لاطبقاتی سماج کے خواب
دکھائے ہیں۔ میں نے کہا۔ ”تجھے معلوم ہے کہ میں سالہا سال سے کس عذاب میں
مبتلا ہوں؟ میرا دماغ، دماغ نہیں، بھوبل ہے آنکھیں ہیں کہ زخموں کی طرح
تپکتی ہیں۔ اگر پڑھنے یا لکھنے کے لئے کاغذ پر چند ثانیوں کو بھی نظر جماتا
ہوں تو ایسی حالت گزرتی ہے جیسے مجھے آشوب چشم کی شکایت ہو اور ماہ تموز
میں جہنم کے اندر جہنم پڑھنا پڑھ رہا ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ میں اب بھی
اپنے خوابوں کو نہیں ہارا ہوں۔ میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے
خنک چشمے کی لہریں اب بھی میرے پلکوں کو چھوتی ہیں۔“ (“شاید صفحہ 13)
جون ایلیا نے اپنے قیمتی اشعار کے مجموعے کو چھپوانے میں 30سال کا طویل
عرصہ کیوں صرف کردیا اور وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جب کہ برائے نام شعراء
نے اپنے درجنوں مجموعے چھپوا کر انعام واکرام کی بارش ہی نہیں کروائی بلکہ
وہ ان مجموعوں کی ضخامت کو دیکھ کر شاعر قرار دے دیئے گئے۔ جون ایلیا نے
اپنی شاعری کو کاغذ پر انڈیلنے سے گریزاں رہنے کا جو سبب بیان کیا ہے وہ
بھی کچھ کم کربناک نہیں ہے۔ ملاحظ ہو:
”موسم سرما کی ایک سہ پہر تھی۔ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ بابا مجھے شمالی
کمرے میں لے گئے۔ نہ جانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہوگیا۔ وہ
مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ
کرو۔ میں نے پوچھا۔ ”بتائیے بابا! کیاوعدہ؟“
انہوں نے کہا ”یہ کہ تم بڑے ہوکر میری کتابیں ضرور چھپواؤگے۔“
میں نے کہا۔ ”بابا میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں جب بڑا ہوجاؤں گا تو آپ کی
کتابیں ضرور ضرور چھپواؤں گا۔“
مگر میں بابا سے کیا ہو ایہ وعدہ پور انہیں کرسکا۔ میں بڑا نہیں ہوسکا اور
میرے بابا کی تقریباً تمام تصنیفات ضائع ہوگئیں۔ بس چند متفرق مسودے رہ گئے
ہی۔ یہی میراوہ احساس جرم ہے جس کے سبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں
ہی نہیں متنفر رہا ہوں۔“
جون ایلیا کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر وقت علم کی گفتگو ہوتی تھی
اور علم ہیئت سے انہیں اور ان کے والد کو گہر اشغف تھا۔ بقول خود ان کے گھر
میں عطارد، مریخ، زہرہ اور مشتری وغیرہ کا اتنا ذکر ہوتا تھا جیسے یہ سیارے
ان کے افراد خانہ میں شامل ہوں۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا علم ہیئت کے
ماہر تھے۔ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے جون ایلیا نے لکھا ہے کہ:
”جب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری،
تاریخ، مذاہب عالم، علم ہیئت (Astronomy) اور فلسفہ کا دفتر کھلا دیکھا اور
بحث ومباحثہ کا ہنگامہ گرم پایا۔ اس تمام سرگرمی کا مرکز ہمارے بابا علامہ
سید شفیق حسن ایلیا تھا۔ وہ کئی علوم کے جامع تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے
یعنی عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت۔ وہ صبح سے شام تک لکھتے
رہتے تھے اور تقریباً اسی یقین کے ساتھ کہ ان کا لکھا ہوا چھپے گا نہیں۔“
جون ایلیا کی زندگی کا سفر 8نومبر 2002 کو کراچی میں تمام ضرور ہوگیا ہے
لیکن انہوں نے اپنی شاعری اور نثر کا جو سرمایہ چھوڑ ہے وہ اردو کا قیمتی
اثاثہ ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے ہی اس شعر کی تعبیر بن کر دنیا سے رخصت
ہوئے ؎
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
|