ایک جیت کر دو ہارنا، کیسا ہے یہ تیر مارنا؟

ہندوستان کی کرکٹ ٹیم فی الحال بنگلہ دیش کے دورے پر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرکٹ کا جنون ہے لیکن انتخاب کا نشہ اس سے دو چھٹانک زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب لوگ اپنی کرکٹ ٹیم کو بھولے ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں کیا ہورہا تھا؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار بھی سیریز کے پہلے دونوں میچ ہندوستانی ٹیم ہار چکی تھی ۔یہ حیرت انگیز بات ہے کیونکہ یکروزہ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں ہندوستان کی ٹیم کادوسرا نمبر ہے اور بنگلہ دیش کا ۹؍ واں ۔ اس لیے بنگلہ دیش کی جیت ویسی ہی تھی جیسے ہماچل پردیش میں کانگریس کے یا دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بی جے پی کی شکست ، لیکن کہتے ہیں ناکہ کرکٹ اور سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

اس سیریز کے آخری میچ میں مودی ، شاہ، یوگی اور سرما جیسے نامور کھلاڑیوں سے معمور ہندوستان کی ٹیم نے409رن بناکر بنگلہ دیش کو182 پر 34 اوورس میں ڈھیر کردیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گجرات کے اندر بی جے پی نے 156سیٹ جیت کرکانگریس کو 17 پر آل آوٹ کردیا ۔ اس کے بعد پہلے دو میچ کی ہار بھول کر ایسا جشن منایا جائے گا کہ جیسے سیریز جیت گئے ۔ ذرائع ابلاغ نے ایسا ہنگامہ مچایا گویا 2024کا قومی انتخاب جیت گئے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شور شرابہ سے سچائی نہیں بدلتی ہاں دب ضرور جاتی ہے ۔ اس غیر معمولی کامیابی کے بعد بھی جب سیریز کی تاریخ لکھی جائے گی توکرکٹ کے ریکارڈ میں یہی لکھا جائے گا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کی قیادت میں ہندو ستان کے مہابلی لگاتار دوسری بار بنگلہ دیش سے ہار گئے ۔

گجرات، ہماچل پردیش اور دہلی کے الیکشن تو اس بار ایسے ہوئے کہ جیسے قومی انتخاب بھی نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ لاکھ ہنگامہ آرائی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی پارٹی دومیچ ہار گئی ۔ ہندوستان کی سب قدیم پارٹی کے حصے میں بھی دوشکست آئی اور ملک کی سب سے تیز طرار پارٹی کو بھی دو کھیلوں میں ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ آج کل کرکٹ الگ الگ فورمیٹ میں کھیلا جاتا ہے۔ پارلیمانی انتخاب تو ٹسٹ میچ کی مانند پانچ سال میں ایک بار ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دن کا کھیل اسے صوبائی انتخاب اور بلدیاتی الیکشن ٹوئنٹی ٹوئنٹی کی طرح آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ حالیہ انتخابی سیریز میں دو ون ڈے اور ایک ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ تھا۔ اس میں پہلا ون ڈے یکطرفہ رہا ۔اس میں بی جے پی نے 156 رن بنائے اور کانگریس کو17 پر ڈھیرکردیا ۔ اپنا ہوم گراونڈ ہونے کی وجہ سے گجرات کی وکٹ بی جے پی کی مرضی کے مطابق بچھائی گئی تھی۔ اسٹیڈیم اس کے شائقین سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا اور امپائر یعنی الیکشن کمیشن بھی ملا ہوا تھا۔ اس کے باوجود یہ بہت بڑی کامیابی ہے لیکن پھر بھی ٹورنامنٹ کے ضوابط کالحاظ کرتے ہوئے اس کو چار یا آٹھ نہیں بلکہ دو ہی پوائنٹ ملیں گے۔

ہماچل پر دیش بھی گجرات کی طرح بی جے پی کا ہوم گراونڈ تھا ۔ وہاں سے مودی اور شاہ نہ سہی پارٹی کے صدر جے پی نڈا تو آتے ہی ہیں۔ ویسے ایک زمانے میں وزیر اعظم اس صوبے کے نگراں ہوا کرتے تھے۔ ہماچل میں بھی امپائر نے زعفرانی چولا اوڑھ رکھا تھا لیکن اس بار شائقین کا مزاج بدل گیا۔ اس میچ میں کانگریس نے بڑے جتن سے 40رنوں کا ہدف رکھا ۔ اس کے مقابلے بی جے پی 25 پر سمٹ گئی ۔ اس طرح کانگریس نے بھی دو پوائنٹ لے کر سیریز برابر کردی لیکن چونکہ وہاں پہلے بی جے پی حکومت تھی اس لیے وہ ایک ریاستی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھی اور کانگریس کو ایک نیا وزیر اعلیٰ مل گیا ۔ ان نتائج سے کانگریس مکت بھارت کا سپنا دیکھنے والی بی جے پی اور دیگر علاقائی جماعتوں کے خواب ٹوٹ کر بکھر گئے۔ دہلی کے اندر ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ یعنی بلدیاتی انتخاب تھا ۔ یہاں بھی بی جے پی کی وکٹ تھی ۔ اس کے باوجود عام آدمی پارٹی نے 134 رن بنا دئیے اور پچھلے پندرہ سالوں سے ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی بی جے پی کو 104 پر آوٹ کرکے دھول چٹا دی ۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو بھی دو پوائنٹ مل گئے اور جیسا کہ اوپر کہا گیا تینوں ٹیموں نے دو دوپوائنٹ حاصل کرکے سیریز برابر کردی۔

یہ تو خیر میچ بہ میچ نقشہ ہے لیکن اگر بی جے پی کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو پہلے ان دو ریاستوں اور دارالخلافہ کی بلدیہ پر اس کا قبضہ تھا جو اب ایک ریاست تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اس کو ایک ریاستی حکومت اورایک بڑے شہر کی بلدیہ سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک ریاست کانگریس کے حصے میں چلی گئی اور بلدیہ پر جھاڑو نے کمل کا سپڑا صاف کردیا ۔ اس لیے گجرات کی بے مثال کامیابی کے باوجود بی جے پی کو بڑا خسارہ ہوا ہے جبکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی فائدے میں ر ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے اب اسمبلی کے علاوہ بلدیہ پر بھی اپنا جھاڑو لہرا دیا ہے۔ بی جے پی کو نہ تو رام نومی کے موقع پرفساد کروانا کام آیا اور نہ بلڈوزر چلانے سے بات بنی۔ امیت شاہ گجرات میں بیس سال پرانے سبق کی بات کررہے تھے مگر جہانگیر پوری کے لوگوں نے تو ان سے اسی سال انتقام لے لیا۔

جہانگیر پوری کے مسلمانوں نے اس بارعام آدمی پارٹی کو بھی سبق سکھایا کیونکہ اس نے تشدد کا الزام روہنگیا پناہ گزینوں پر ڈال فساد زدگان کی مدد کرنے کے بجائے اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کی تھی۔ ہندووں کی ناراضی کے ڈر سے شمالی دہلی کے فساد زدہ علاقوں کو نظر انداز کرنے والی عام آدمی پارٹی پر اس بار مسلمانوں نے کانگریس کو ترجیح دی ۔ شاہین باغ اور اس کے اطراف میں رہنے بسنے والے مسلمانوں نے بھی طوطا چشمی کیجریوال کو نظروں سے گرادیا۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو صرف پرانی دہلی سے مسلمانوں کے ووٹ ملے ۔ اس انتخاب کے ذریعہ دہلی کے مسلمانوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ کیجریوال اس خوش فہمی میں نہیں رہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔

مسلمانوں کی حکمت عملی میں تبدیلی کے سبب پچھلے اسمبلی انتخاب کے مقابلے کانگریس ووٹ کا تناسب تین گنا بڑھ گیا ۔ بی جے پی اپنی جگہ منجمد رہی مگر عآپ کو نیچے آنا پڑا ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ تبدیلی نتائج پر اثر انداز نہیں ہوسکی۔ کانگریس کے کارپوریٹرس کی تعدا د تین گنا کم ہوگئی کیونکہ ہندووں نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ راہل گاندھی کے بڑا بڑا تلک لگا کر مندر مندر جانے کی وجہ ہندووں کا کھویا ہوا اعتماد پھر سے حاصل کرنا ہے۔ امیت شاہ کو چاہیے کہ وہ اس تازہ سبق کو یاد رکھیں کہ فساد کی یاد گجرات کے اندر تو انتخابی کامیابی دلا سکتی ہے لیکن تشدد کا ارتکاب ناکامی کا سبب بن جاتا ہے ۔ویسے جنوبی دہلی کےزعفرانی میئر نے رام نومی کے موقع پر گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کا جو ناٹک کیا تھا وہ بھی کام نہیں آیا ۔ عوام نے انہیں اپنے گھر کا راستہ دکھا دیا۔ بی جے پی نے اس بار نہ جانے کیا سوچ کر تینوں بلدیا ت کو ضم کردیا تھا ۔ وہ اگرایسی حماقت نہ کرتی تو کم ازکم ایک میئر اس کا ہوتا۔

گجرات میں بی جے پی ہار نے کے ڈر سے روس کی طرح کارپیٹ بامبنگ کردی۔ اس سے یوکرین کی مانند کمزور کانگریس کا نقصان تو بہت ہوا نیز بی جے پی کو خوب ووٹ ملے مگر بدنامی بھی بے مثال ملی ۔ فساد کی بدنامی کے جس داغ کو بیس سال میں تھوڑا تھوڑا کرکے دھویا گیا تھا اسے امیت شاہ نے پھر ایک بار اپنے سر اوڑھ کر اپنی مٹی پلید کروالی ۔ یہ ایک عارضی فائدہ اور دائمی نقصان ہے ۔ ریاستی انتخاب کا نتائج سے قطع نظر وزیر داخلہ نے جوغلطی کی ہے اس پر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل تمثیل صادق آتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا‘‘۔ انسان ایسی نادانی کیوں کرتا ہے اس بابت آگے یہ رہنمائی کی گئی ہے کہ :’’ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالاں کہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعہ سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا‘‘۔ بی جے پی نے اپنی عیاری و مکاری سے حالیہ انتخاب میں فائدہ ضرور اٹھا لیا ہے مگربروز قیامت ہر کسی کا حساب چکا دیا جائے گا ۔ ویسے ہماچل پر دیش ، دہلی اور ضمنی انتخابات میں اس کا نمونہ بی جے پی کو چکھا یا جاچکا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450310 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.