یقین کی دولت

ملوکیت ، آمریت، شہنشائی اور مطلق العنانی عربوں کی کمزوری بنی جسے بد قسمتی سے اسلام کے ساتھ جوڑ دیاجاتا ہے حالانکہ اسلام تو انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے ۔سیدنا بلاِ لِ حبشی کی فکری میراث کی حامل قوم رنگ و نسل اور علاقائی امتیازات کی شکار ہوئی تو اس کا زوال یقینی تھا لہذا اس کا ؂جاہ و جلال اس سے چھن گیا ۔ علامہ اقبال علاقائی سوچ کے بت کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔(غبار آلود رنگ و نسل ہیں بال و پر تیرے۔،۔ تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا ) ۔ علاقائی ٹکروں میں بٹ جانے والی قومیں کبھی برگ و بار نہیں پاتیں۔وہ قوم جس کا نعرہ تھا (ہر ملک ملکِ ما است کہ ملکِ خدائے ما است)وہ خود وقت کی دھول میں گم ہوکر رہ گئی ہے ۔ عربوں کو ایک طرف نسلی امتیاز اور پہچان کی فکر دامن گیر تھی تو دوسری جانب اقتدار سے اندھی محبت ان کی بربادی کی خشتِ اول بن گئی۔وہ دوام ِ اقتدار کی خاطربڑی طاقتوں کے خوشہ چین بن گے اور یوں اپنی شناخت کھوبیٹھے ۔اس کرہِ ارض پر عربوں کی سرزمین پر صہیونی ریاست کا قیام انسانیت کے منہ پر کھلا طمانچہ ہے ۔اس ریاست کی سو چ کا مرکزی نقطہ مسلمانوں کو مغلوب کرنا ، ان کی ثقافت کوتار تار کرنا ، عربوں کی ایکتا اور ان کے اتحاد کو سبو تاز کرناہے ۔علاقائی بر تری کیلئے عربوں کی باہمی لڑائیا ں ان کے ضعف کی بنیاد ہیں ۔ اسرائیل ایک ناسور کی طرح اسلام کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے جبکہ عرب ممالک اسرائیلی سیاست کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔وہ اسے معمول کی کاروائی سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ نظریات اور ایمان کی جنگ ہے۔تاریخ کے صفحات کواگر کھنگالا جائے تو اسرائیل کے قیام کا پسِ منظر بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جائیگا ۔ ایک خانہ بدوش قوم کو خطہ اراضی کی ضرورت تھی لہذا یورپی اقوام کی سازشوں سے عربوں کے اندر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی جس کا مقصدِ اولی مسلمانوں سے اپنی تاریخی حزیمتوں کا حساب چکتا کرنا تھا اور وہ دن رات اسی میں مصروف ہے۔سپر پاورز کی پشت پناہی حا صل ہوجائے تو گیڈر بھی شیر ہو جاتا ہے اور عالمی طاقتیں اسرائیل کو شیر بنانے کامشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اسے ہرقسم کی سہولیات بہم پہنچائی جا رہی ہیں تا کہ اسلام کا اولین گہوارہ اس کے زیرِ نگین ہو جائے۔معصوم بچوں اور نہتے فلسطینیوں کو جارحانہ کاروائیوں کانشانہ بنانے کے پیچھے ایک ہی فلسفہ کارفرما ہے کہ کسی نہ کسی طرح عربوں کی آنے والی نسلیں اسرائیلی بربر یت کے خوف سے محکومی کا پٹہ اپنے گلے میں خوشی سے پہننے کیلئے تیار ہو جا ئیں لیکن بسا آرزو کہ خاک شدی ۔،۔

فلسطینیوں کی نئی نسل نے جس طرح پتھروں اور کنکروں سے اسرائیلی میزائلوں، ٹینکوں،گولوں ،آنسو گیس فضا ئی حملوں اور گولیوں کے سامنے اپنا سینہ پیش کیا ہے اس نے اسرائیل کی امن پسندی کے چہرے سے نقاب نوچ کر پھینک دیاہے۔عر ب ممالک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا اپنی توہین تصور کرتے ہیں جس سے اسرائیل اور بھی شیر ہو چکا ہے۔وہ نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور عرب د م سادھے سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔ان کی عیاشیاں اور موج مستیاں فلسطینی بچوں کی آہوں اور سسکیوں کو سننے سے معذور ہیں ۔ جب کان گھنگھر وؤں کی آواز کے عادی ہو جائیں تو مظلوموں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں حالانکہ ان سے عرش کے کنگرے بھی ہل جاتے ہیں ۔عرب اپنی دنیا میں مستغرق ہیں اور فلسطینی اسرائیلی سنگینیوں سے شہید ہو رہے ہیں۔ماؤں کی گودیں اجڑرہی ہیں ، سہاگنوں کے سہاگ لٹ رے ہیں لیکن عربوں کی غیر ت ایسی سوئی ہوئی ہے کہ اسے بیدار ہونے کی فرصت نہیں۔عرب اپنی دولت، مال و متاع ، چکا چوند اور جاہ حشمت میں کسی بھی واقعہ کوسنجیدہ لینے کی بجائے اس سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں تا کہ ان کی شان و شوکت اور نمودو نمائش پر کوئی حرف نہ آئے۔ان کی خامو شی ہی اسرائیلی جارحیت کو ہوا دیتی ہے جس سے معصوم فسلطینی بچے اسرائیلی جارحیت کا شکار بن جاتے ہیں ۔ ماؤں کے کلیجوں میں پلنے والے درد کو دیکھنے اور محسوس کرنے والی آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں،بہنوں کے آنسو بے اثر ہو چکے ہیں جبکہ بیٹیوں کی آہ و بکاہ رائیگا ں جا رہی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ کسی کو بھی ان کے جذبات کا احساس نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کیونکہ اسرائیل کے خلاف جب بھی کوئی قرار داد (ریزو لیوشن) پیش ہوتی ہے امریکہ اسے ویٹو کر دیتا ہے ۔آج کل اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس کے نتیجہ میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے ۔ سعودی عرب سے مسلمانوں کوبڑی امیدیں وابستہ ہیں لیکن سعودی عرب کا کردار بھی مثالی نہیں ہے ۔امریکہ نے اسے اپنے دام میں پھنسایا ہوا ہے لہذا وہ اسرائیلی مسئلہ پر خاموشی کی چادر تانے ہوئے ہے۔علامہ اقبال ؔنے تو کہا تھا (اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے ۔،۔لڑا دے معمولے کو شہباز سے ) لیکن معمولے کو شہباز سے لڑائے گا کون؟ ۔،۔

محکومی و نامرادی مسلم ممالک کا مقدر بنی ہوئی ہے ۔ان کے گلے میں اغیار کے طوقِ غلامی لٹکے ہوئے ہیں لیکن انھیں پھر بھی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی کیونکہ غیرت و حمیت کا شجر ٹنڈ ھ منڈھ ہو چکا ہے۔قومیں غیرت سے محروم ہو جائیں تو ان کے احساسات کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں ،ان کی رگِ حمیت بے کار ہو جاتی ہے، ان کی احساس کی رمق دم توڑ جاتی ہے اور وہ تنِ مردہ کا منظر پیش کرنے لگ جاتی ہیں ۔علامہ اقبال نے تو کہا تھا ۔(آئینِ جوانمرداں حق گوئی و بے باکی۔،۔(اﷲ ہے کہ شیروں کو آتی نہیں رو باہی۔)لیکن اس وقت اﷲ کے شیر اسرائیلی سازشوں کا شکار بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل ان کی گردن میں رسی ڈال کرپورے عالم میں گھسیٹ رہا ہے ۔مجھے تو ان شیروں کی تلاش ہے جن کی ڈھار سے دشمنوں کے اوسان خطا ہو جاتے تھے۔(جن کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے ۔،۔منہ کے بل گر کے اﷲ احد کہتے تھے )۔ مایوسیوں کے اس جان لیوا ہجوم میں امید کی قندیلیں روشن کرنے والے عظیم فلسفی اور دانشور نے اہلِ جہاں کو للکا را تھا اور اوربرملا کہا تھا ۔(الٹ دیا تھا جس نے روما کی سلطنت کو ۔،۔سنا ہے میں نے قدسیوں سے وہ شیرپھر ہوشیار ہو گا)۔یہ مبالغہ آرائی ، تصنع،ذاتی بڑائی،ذاتی عظمت اور ملمع سازی کی کہانی نہیں بلکہ اسے یقین ِ کامل تھا کہ ایک دن ایسا ہو کر رہیگا ۔اس کی ساری شاعری اسی یقین کی تصویر ہے ۔ (جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی۔،۔ کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ جہاں گاہی)۔،۔(اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔،۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی)۔سکوں کی جھنکار میں دب جانے والی اقوام ایسی کسی آواز کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتیں جس کا فطری نتیجہ ذلت و رسوائی ہوتا ہے ۔ ایسی اقوام اپنی دنیا میں مقید ہو جاتی ہیں اور وقت کی آواز کو سننے سے قاصر ہو جاتی ہیں ۔ ان کی دنیا ان کی تجوریاں ہو تی ہیں جو انھیں بہت عزیز ہوتی ہیں اور جن سے دست کش ہونا انھیں پسند نہیں ہوتا۔دولت کی محبت ایک دن اس قوم کے زوال کا باعث بن جاتی ہے ۔وہ زوال جو حبِ دولت کے بطن سے جنم لیتے ہیں ان کا حتمی نتیجہ محکومی ہی ہوا کرتا ہے ۔عرب اسی سوچ کی مکمل تصویر ہیں ۔ (میرِسپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف ۔آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہوکوئی ہدف)۔،۔ (تیرے محیط میں کہیں گہرِ زندگی نہیں ۔،۔ ڈھونڈھ چکا میں موج موج دیکھ چکاصدف صدف )لیکن وہ بات جو اس باب میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ محمل کی حفاظت نہ کرنے والی قوم کا انجام عبرتناک ہوتاہے۔ پوری انسانی تاریخ کو ایک شعر کے قالب میں ڈھالنا اور پھر دریا کوزے میں بند کرنا اقبال ہی کا کمال ِ فن ہے۔ (عزت ہے محبت کی قائم اے قیس حجابِ محمل سے۔،۔محمل جو گیا عزت بھی گئی ،غیرت بھی گئی لیلی بھی گئی ۔،۔جس دن عزت و غیرت کا احساس جا گ گیا۔مسلم امہ اس کرہِ ارض پر حکمران ہو گی۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.