وطنِ عزیز میں چند دن قبل بتایا جا رہا تھا کہ ملک کی
معاشی حالت خطرے میں ہے اور اسی سبب عین ممکن ہے کہ ملازمین کی دو یا تین
ماہ کی تنخواہ ادا نہ کی جا سکے لیکن گریڈ 20 کے افسران کی تنخواہوں میں
اضافے کا نوٹیفکیشن دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب حکومت کو
قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ کیا وطنِ عزیز کے دیوالیہ ہونے کی خبر اب جھوٹ
ثابت ہو جائے گی یا یہ پراپیگنڈہ صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے
لیے کیا گیا تھا؟ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں کہ ہمارے پیارے ملک میں دو
طرح کے اصول و قوانین رائج ہیں۔ یہاں دو طرح کے نظام کا سکہ چلتا ہے۔ یہاں
انصاف کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ انصاف جو غریب کے لیے ہے جس کے لیے ایک
غریب کو اپنی ساری زندگی عدالتوں کے چکر لگاتے بسر کرنی پڑتی ہے۔ ایک وہ
انصاف ہے جو امیر کے لیے ہے جس کے لیے نصف شب کو بھی عدالتیں لگ جاتی ہیں۔
ایک وہ انصاف ہے جو پیسوں سے خرید لیا جاتا ہے اور ایک انصاف وہ ہے جو گلی
کوچوں، بازاروں چوراہوں اور عدالتوں میں قائم کٹہروں میں اور کبھی زندان
خانے کی سلاخوں سے سر ٹکراتے اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ یہ وہ وطنِ عزیز ہے
جہاں کے کمزور دہرے انصافی معیار کے تحت غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا
ہے اور سالہا سال گزرنے کے بعد بھی ان کی تنخواہوں میں صرف چند ہزار اضافہ
ممکن ہو پاتا ہے جب کہ اسی دوران ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں
سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں اور یہ وہی وطنِ عزیز ہے جہاں صرف حکام بالا یا
چمچہ گیری کرنے والے لوگوں کو نوازا جاتا ہے۔ یہ وہ اسلامی ملک ہے جو انصاف
و مساوات کے اصول قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن ساتھ ہی یہی وہ
اسلامی ملک ہے جہاں ہر سال غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے والوں کی
تنخواہ میں صرف چند ہزار کا اضافہ کیا جاتا ہے اور پہلے سے لاکھوں کے حساب
سے تنخواہ لینے والے ملازمین کی تنخواہ میں پچاس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔
یہ وہی وطنِ عزیز ہے جہاں ایک غریب ملازم کے لیے مراعات کے نام پر کچھ نہیں
ہے اور یہ وہی وطنِ عزیز ہے جہاں لاکھوں روپے کی تنخواہ پانے والے بنگلہ،
گاڑی اور دیگر مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جب ملک میں جس کی لاٹھی اس کی
بھینس والا قانون رائج ہو جائے تو عدالتیں دو طرح کے انصاف کے فیصلے سنانے
پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایک وہ فیصلہ جو کسی ایمان دار پر زبردستی مسلط کیا
جاتا ہے اور دوسرا وہ فیصلہ جو ایک بےایمان کی ایما پر کیا جاتا ہے۔ لاکھوں
روپے تنخواہ لینے والے افسران سے اگر انصاف کے بارے میں سوال کیا جائے تو
وہ بڑے دھڑلے سے بتائیں گے کہ انصاف کی فراہمی میں انھوں نے قرون اولیٰ کے
قاضیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بیسویں یا بائیسویں گریڈ کے افسران سے
انصاف کے بارے میں بات کی جائے تو وہ اپنی تیس یا بتیس سالہ سروس میں ملک و
قوم کی خدمت کے ایسے ایسے دعوے کریں گے جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہر انسان خود کا احتساب کرنے کی بجائے دفاع کرے گا تو ملک
و ملت کے خسارے کا کون ذمہ دار ہوا؟
اب سمجھ میں آتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل بیرون ملک جانے کو کیوں ترجیح دیتی
ہے، وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ وہاں کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چکا چوند سے
متاثر ہوتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہاں ہر عدالتوں کے قانون کا دہرا معیار رائج
نہیں ہے۔ وہاں انصاف گلی کوچوں میں بکتا نظر نہیں آتا۔ وہی انصاف جس کا حکم
رب تعالیٰ نے اور اس کے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا،
اسی انصاف کے تقاضوں کو مغربی معاشرہ اپنائے ہوئے ہے۔ شاید اسی لیے وہ ترقی
کی دوڑ میں اس وقت وطنِ عزیز سے آگے ہے۔ ہمارا ملک اس دن صحیح معنوں میں
ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا جس دن یہاں امیر و غریب کے لیے یکساں قوانین
نافذ ہوں گے۔ اس وطنِ عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں اور اسے اغیار کی
نظروں میں گرانے میں بھی اسی وطن کے فرزندوں کا ہاتھ ہے جو اپنا گھر بھرنے
کے لیے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اقبال اشعر نے کیا خوب
کہا تھا:
ستم تو یہ کہ ہماری صفوں میں شامل ہیں
چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ
ہمارے دور کافرعون ڈوبتا ہی نہیں
کہاں چلے گئے پانی پہ چلنے والے لوگ |