وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے لاہور ہائیکورٹ
کے کہنے پر عدالت میں اپنا بیان حلفی جمع کرا دیا ہے جس میں انہوں نے گورنر
کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہ بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔رات گئے گورنر پنجاب
کے جاری کردہ نوٹیفکیشن سے صوبے کا سیاسی بحران آئینی بحران کی صورت
اختیار کر گیا ہے۔ گورنر بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز
الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا
ووٹ لینے کو کہا تھا لیکن وزیر اعلیٰ مقررہ دن اور وقت پر اراکین پنجاب
اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے اس لئے انہیں ڈی نوٹیفائی کیا گیا
ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد کابینہ تحلیل ہو گئی ہے
تاہم پرویز الٰہی نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک کام جاری رکھیں گے۔گورنر کی
جانب سے سیکرٹریٹ سیل کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا ہے
کہ اسمبلی کے اجلاس جاری رہنے کی وجہ سے گورنر کے نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی
حیثیت نہیں۔گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کو عہدے سے
ہٹانے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا نیا لارجر
بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔اس سے قبل تشکیل دیے گئے پانچ رکنی بنچ میں شامل
جسٹس فاروق حیدر نے پرویز الٰہی کی درخواست سننے سے معذرت کر لی تھی، جس کے
بعد بنچ تحلیل ہو گیا تھا۔ اس موقع پر پرویز الہی کے وکیل نے استدعا کی کہ
کیس کو اسی روز سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔‘جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ کا
کہنا تھا کہ ’ہم آپ کی یہ استدعا بھی چیف جسٹس کو بھجوا دیتے ہیں۔‘اب نئے
بنچ میں جٹس فارق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو شامل کیا گیا ہے۔ گورنر
پنجاب نے رات گئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا آرڈر اپنے
ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیا تھا۔چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کی جانب
سے خود کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام لاہور
ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ سپیکر کے اجلاس نہ بلانے
پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے۔درخواست میں
لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت گورنر کا نوٹفکیشن کالعدم
قرار دے۔وطن عزیز کی مشکلات ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ جو طبقات با اختیار
ہیں وہ ان مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی کشمکش
اور کھینچا تانی کسی اصول قاعدے کی پابند نہیں رہی۔صف بندی اس طرح سے کی
گئی ہے کہ ریاست کا مفاد ایک جانب اور سیاسی جماعتیں دوسری طرف کھڑی نظر
آتی ہیں۔ملک کو لاحق معاشی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔22کروڑ آبادی والا
ملک 6ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ بمشکل ایک ماہ تک اپنی ضرورت پوری کر
سکے گا۔دنیا قرض اور امداد دینے سے کترا رہی ہے۔سٹاک مارکیٹ‘ غیر ملکی
سرمایہ کاری‘ برآمدات ‘ مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے شعبے حکومت کی توجہ
چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اٹھا رہا ہے‘ پاک فوج نے 20برس تک
دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔ نیشنل ایکشن پلان‘ ضرب عضب‘ آپریشن ردفساد اور
پھر چھوٹے چھوٹے ہزاروں کومبنگ آپریشن کئے گئے۔ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں
اور معصوم شہریوں نے جانیں قربان کیں۔اطمینان یہی رہا کہ ملک دہشت گردی کے
عذاب سے نکل گیا تو ترقی‘ امن اور خوشحالی کا نیا سورج ضرور دیکھے گا۔ دہشت
گردی کے خلاف جنگ ختم ہوئی۔درمیانی مدت میں جو حکومتیں آئیں انہوں نے ملک
کی ترقی و خوشحالی سے زیادہ اپنے خانوادوں کی خوشحالی کو مقدم جانا۔ تحریک
انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان لڑائی کی جتنی مرضی جہتوں کو زیر بحث لایا
جائے یہ امر کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اس لڑائی نے ملک کے مسائل
بڑھائے ہیں۔اقتدار پر قبضے کی خواہش اس قدر شدید دکھائی دیتی ہے کہ آئین و
قانون کو روندنے سے گریز نہیں کیا جا رہا‘ ملکی معیشت پچھلے آٹھ ماہ سے
مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ چونکہ پی ڈی ایم کے
پاس حکمرانی کا مینڈیٹ نہیں اس لئے ملک میں میں عام انتخابات کرا دیے
جائیں۔پی ڈی ایم انتہائی غیر مقبول ہونے کے باوجود سیاسی دائو پیچ کے ذریعے
اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔پی ٹی آئی کے مطالبہ کو عوامی حمایت
حاصل ہے۔ اس کا ثبوت رواں برس ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔وفاق
میں موجود پی ڈی ایم کی حکومت مسلسل پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کو ختم
کرنے کی کوشش میں ہے۔ غیر ضروری مداخلت اور گڑ بڑ کی وجہ سے پنجاب میں
حالات خراب ہو رہے ہیں۔ پنجاب 12کروڑ کی آبادی کا صوبہ ہے‘ آدھا
پاکستان۔اس قدر بڑے صوبے میں جب آئینی بحران رہے گا تو اس کا اثر قومی سطح
پر ضرور ظاہر ہو گا۔گورنر پنجاب نے جن قانونی و آئینی نکات کو بنیاد بنا
کر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا ان کا جواب چودھری پرویز الٰہی کے وکلاء
پیش کر رہے ہیں۔توقع کی جاتی ہے کہ عدالتی سماعت میں اگر کسی طح کی رکاوٹ
پیدا نہ ہوئی تو چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر عدالت عالیہ جلد فیصلہ
کر دے گی لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ سیاستدان اپنی لڑائی میں ریاست
کے مفادات کو کیوں قربان کرنے پر تلے ہیں
|