گھرسے بے گھرہونایا کیاجاناایک تکلیف دہ عمل ہے،اس صبر
آزمادور سے ہماراخاندان بھی گزر چکا ہے،دراصل تقریباً چالیس سال قبل جنوبی
ممبئی میں واقع پانچ منزلہ پالکھی والا بلڈنگ کا ایک حصہ عین ماہ رمضان اور
مانسون کے دوران منہدم ہوگیا،ہمارا نوسو مربع فٹ کا فلیٹ پانچویں منزل پر
تھااور زینہ بھی دھنس جانے کے بعد فائر بریگیڈ کے عملے نے لفٹ کی مدد سے
مکینوں کو عمارت سے نکالا،اُس روز سے ہم نے گھر ہوگئے ،کئی سال تک ادھر
اُدھر بھٹکتے رہے،خیر یہ ایک فطری عمل رہا،البتہ ہلدوانی کے مکینوں کی
کہانی سن کر جیسے میرا کلیجہ منہ کو آگیاکیونکہ میں بھی اس کرب سے
گزرچکاہوں اور بے مکانی کا کرب برسوں دل میں رہاہے۔ایک اور واقعہ کے ذکر کے
بعد آگے بڑھیں گے۔
ممبئی میں ۸۰ اور۹۰ء کے عشرے کے دوران میونسپل کارپوریشن کے ایک ڈپٹی
کمشنرجی آر کھیرنار ہواکرتے تھے ،جوکہ بلڈوزر اور گن لیکر نکلتے اور
جھوپڑپٹیوں اور پھیری والوں کو نشانہ بنانا ،اُن کا پسندیدہ شوق رہااور تو
اور نے قصوروں کو گولی کا نشانہ بھی بنایا گیا،یہ آج بھی راز ہے کہ جی آر
کھیرنار اقلیتی بستیوں اور محلوں میں ہی کیوں بلڈوزر لیکر آتے تھے۔اُن کا
آج تک کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکا ہے۔
ویسے حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے اربابِ اقتدار گزشتہ چند برسوں سے فلسطین
پر قابض اسرائیل کے نقشہ قدم پر چل رہے ہیں،اسرائیل آئے دن فلسطین میں نہتے
افراد کو بلڈوزر،میزائل یا جنگی طیاروں کی بے رحمانہ بمباری سے نشانہ بناتا
ہے اور ایک ساتھ سینکڑوں افراد کو بے گھر کردیا جاتا ہے ،یہی طریقہ کار اور
بلڈوزر کا استعمال اترپردیش میں سب سے پہلے کیاگیا اور پھریہ سلسلہ مدھیہ
پردیش ،دہلی،بہاراور آسام میں بھی اپنانے کی کوشش کی گئی۔عدلیہ نے اگر مگر
کے ساتھ روک لگادی، ممبئی میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے آگے جھولی
پھیلانے آئے وزیراعلی یوگی نے بلڈوزر کااستعمال صرف اور صرف اقلیتی فرقے کے
خلاف ہی استعمال کرتے ہوئے اُن کی حوصلہ شکنی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ہے ۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ہائی کورٹ کے اتراکھنڈ میں ہلدوانی کے بنبھول
پورہ علاقے میں ریلوے کی زمین سے مبینہ غیرقانونی تعمیرات ہٹانے کے حکم پر
روک لگاتے ہوئے کہا کہ "پچاس ہزار لوگوں کو راتوں رات نہیں ہٹایا جا
سکتا”۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں نہ صرف ریاستی حکومت اور ریلوے کو نوٹس
جاری کیا ہے ،بلکی اس کی سماعت 7 فروری کو مقرر کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے
پوچھا کہ ان لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی کیا تیاری ہے؟اس کے ساتھ ہی
عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انسانی
مسئلہ ہے اور لوگوں کو سات دنوں کے اندر زمین خالی کرنے پر مجبور کرنا
انسانیت سوز واقعی ہے۔عدالت کے اس فیصلے سے ہلدوانی کے بنبھول پورہ میں
رہنے والے لوگوں کو بڑی راحت ضرورملنے کی امید ہے،لیکن اگلی سماعت 7 فروری
کو اگر عدلیہ کارویہ اسی طرح کارہااور حال کے دنوں میں دوسری سماعت میں رخ
تبدیل نہیں ہوا تو ایک بہتر فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔
ریاست اتراکھنڈ میں واقع ہلدوانی کا علاقہ گزشتہ کئی دنوں سے اخبارات اور
برقی ذرائع ابلاغ کی زینت بنارہا ، کیونکہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل
ہو جاتا تو چار ہزار سے زیادہ خاندان کے تقریباً پچاس ہزار افراد بری طرح
متاثر ہوتے اور انہیں کئی مسائل سے دوبار ہونا پڑتا تھا،جس میں سماجی،
سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی مسائل شامل رہتے تھے،اس مسئلہ کو لے کر اس
علاقہ کے لوگ جہاں ایک طرف جمہوری ڈھنگ سے جگہ بہ جگہ احتجاج کر رہے تھے
اور انہیں درپیش مشکلات کی جانب ملک کے عوام کی توجہ مبذول کرا رہے تھے
وہیں دوسری جانب وہ قانونی چارہ جوئی کرکے اپنی پریشانیوں کا حل ڈھونڈنے کی
کوشش بھی کر رہے تھے۔ اوراس معاملہ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا تاکہ اس
کا مناسب حل نکل سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھار دی
ہے۔کیونکہ عارضی طور سے ان کے گھروں اور جائیدادوں پر متوقع انہدامی
کارروائی کو وقتی طور پر روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریلوے اور اتراکھنڈ
سرکار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ کوئی قابل عمل انتظام کرنا ضروری ہے۔
موقر ججوں نے اپنے فیصلہ میں اس بات پر زور دیا کہ جہاں ایک طرف ریلوے کی
ضرورتوں کو دھیان میں رکھا جانا چاہیے، وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا
ضروری ہے کہ جو لوگ متاثر ہوسکتے ہیں ان کی باز آبادکاری کا بھی انتظام کیا
جائے۔ جسٹس ایس کے کول اور جسٹس اے ایس اوکا نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف
دائر کی گئی پٹیشن کی سماعت کے بعد کہا کہ اصل نقطہ جس کو ملحوظ رکھنا
ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ کیا مکمل زمین ریلوے کی ہے یا اس کے بعض حصہ پر
ریاستی حکومت بھی دعویدار ہے۔ ان زمینوں پر جن لوگوں کا قبضہ ہے ان کا بھی
دعویٰ ہے، وہ ان پر اپنا حق رکھتے ہیں خواہ بطور کرایہ دار وہ اس پر حق
رکھتے ہوں یا نیلامی میں ان زمینوں کو انہوں نے خریدا ہو۔ ان پہلوؤں کو
دھیان میں رکھا جانا چاہیے کیونکہ پچاس ہزار لوگوں کو یکلخت ایک ہفتہ میں
اجاڑا نہیں جانا چاہیے۔
دراصل بتایا جاتا ہے کہ ہلدوانی کا یہ معاملہ پہلی بار2013میں سامنے آیا
تھا جب روی شنکر جوشی نامی ایک شخص نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی اور
یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہلدوانی ریلوے اسٹیشن سے متصل بہنے والی گولا ندی میں
ناجائز ڈھنگ سے ریت نکالنے کا کام کیا جاتا ہے۔ دورانِ سماعت یہ دعویٰ بھی
کر دیا گیا کہ ریلوے لائن کے قریب بسنے والے کچھ لوگ بھی ریت نکالنے کے اس
ناجائز کام میں ملوث ہیں اور اس طرح سے ریلوے کو اس مقدمہ کا حصہ بنا دیا
گیا۔ ہائی کورٹ نے2016میں اس زمین کو خالی کروانے کا حکم صادر کر دیا۔
لہٰذا اس علاقہ میں بسنے والے لوگوں نے اپنا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچایا
جس کے بعد 2017میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ اس علاقہ کے لوگوں
کی بات کو بھی زیر سماعت لائے۔ بالآخر معاملہ دسمبر2022تک پہنچا اور ہائی
کورٹ نے دوبارہ اس زمین کو خالی کروانے کا حکم دے دیا۔اس معاملہ میں
اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت کارویہ اقلیتی آبادی کی وجہ سے تعصب سے پُر نظر
آتا ہے ، موجودہ سرکار فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کو اپناکر اقلیتی طبقہ کے
لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اُسے بھی نوٹس جاری کردیا ہے
۔اچھی بات یہ ہوتی کہ سپریم کورٹ کے مشورہ پر توجہ دی جاتی اور انسانی
قدروں کو پروان چڑھائے اور ایک بہتر حال نکالا جاتا۔کیونکہ دستاویز سے پتہ
چلتا ہے کہ۔ ۱۹۴۷ ء سے پہلے اور اس کے بعد سے یعنی سات آٹھ دہائیوں سے آباد
ہیں ۔ریلوے اور حکومت کے بعد ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی یکطرفہ نظر آتا ہے۔جس
سے ہزاروں افراد بے گھر ہوجائیں،چند ناجائز قبضات کے لیے اتنے لوگوں کو
ہٹانا ،کہاں کی دانشمندی ہے ۔عدالت عالیہ نے فورس اور قوت کے استعمال کے
بجائے ہم آہنگی کے ماحول میں پورے مسئلہ کا حل نکالنے کی صلاح بھی دی۔اور
باز آبادکاری کی جو موجودہ اسکیمیں ہیں ان کے تحت متاثرین کے بسانے کا
انتظام کرنے کے ساتھ ہر ایک کی ضرورت پر بھی توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے ۔
ویسے اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہلدوانی اتراکھنڈکے بجائے
اگر اترپردیش کاحصہ ہوتا تو عدالتی احکامات اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ
کر راتوں رات مسلم اکثریتی والے اس علاقے کو اجاڑ دیا جاتا اور عدلیہ کی
کوئی پرواہ نہیں کی جاتی تھی۔لیکن بھلاہو سپریم کورٹ کاجس نے کہاہے کہ " فی
الحال ان گھروں پر بلڈوزر نہیں چلے گااور یہ بھی کہاکہ"راتوں رات 50 ہزار
لوگوں کو بے گھر نہیں کیا جا سکتا۔"پچھلے ایک سال میں سپریم کورٹ کاایک
اچھا فیصلہ سامنے آیا ہے ،ورنہ عدالتی کارروائی میں ججوں کے تبصرے اورجاری
فیصلوں میں یکسانیت نہیں ہوتی ہے ۔ امید ہے کہ " بے گھر ہونے کے کرب سے
ہلدوانی کے مکین بچ جائیں گے۔" |