کورونا کی سیاست اور سیاست کا کورونا

وطن عزیز میں ملک اور وزیرِ اعظم کے درمیان کا فرق تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ اس لیے مودی جی کا حامی سب سے بڑا دیش بھگت اور ان ان کا ناقد ملک دشمنوں کا سرغنہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں سرکار کے من کی بات معلوم کرنے کے لیے مودی جی من کی بات سن لینا کافی ہے۔ دسمبر کے اواخر میں اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام میں وزیر اعظم نے عوام سے محتاط رہنے ، ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے جیسے احتیاطی اقدامات کی پابندی کرنے کی اپیل کی ۔انہوں نے نئے سال کے جشن میں کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی پابندی کرنے کی تاکید کی۔ وباء کے تعلق سے ان کی فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے تمام ریاستی حکومتوں کوصورتِ حال پر نظر رکھنے کا حکم بھی دیا۔ اس کے تحت ہوائی اڈوں پر نگرانی تیز کرنے کی خاطر مسافروں کی تھرمل اسکریننگ اور ان میں سے دو فی صد بین الاقوامی مسافروں کے کورونا ٹیسٹ کی ہدایت کی گئی۔حکومت نے چین، جاپان، تھائی لینڈ، ساوتھ کوریا اور سنگاپور سے آنے والے مسافروں کے لیے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ پیش کرنا لازم کر دیا ۔

حکومتِ ہند کے ان اقدامات کا پس منظر چین میں اومیکرون کے نئے ویرئینٹ بی ایف پوائنٹ سیون کابے قابو ہوجانا بتایا گیا۔ اس دوران ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں خبرین گردش کرتی رہیں کہ وہاں آبادی کا بہت بڑا حصہ وبا سے متاثر ہوچکا ہے۔ اسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے شعبہ مریضوں سے اٹا پڑا ہے نیز آخری رسومات کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے۔ اس بیچ چین میں لاک ڈاون کے خلاف مظاہروں کی حیرت انگیز تصاویر بھی سامنے آئی لیکن پھر چین کے صدر شی جن پنگ نے نئے سال کی آمد کے موقع پر تین ہفتے قبل نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی سخت پالیسی میں نرمی کا اعلان کرکے غبارے کی ہوا نکال دی ۔ اس کے ساتھ بیجنگ میں عظیم دیوار پرنئے سال کی تقریبات کا انعقاد شروع ہوگیا مگر شنگھائی میں حکام نے نئے سال کے موقع پر پیدل چلنے والوں کو جمع ہونے والی واٹر فرنٹ کی ٹرافک کو توروکا مگر شنگھائی ڈزنی لینڈ 2023 کا خیرمقدم کرنے کے لیے ایک خصوصی آتش بازی شو کے انعقاد کی اجازت دے دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہندوستان کے اندر چین کے معاملے میں مبالغہ سے کام لیاگیا۔

ہندوستان کے اندر وبائی جرثومہ پر تحقیق کرنے والے سب سے بڑے ادارے انڈین ایسو سی ایشن آف ایپیڈومالوجسٹس کے نائب صدر ڈاکٹر جگل کشور نئے ویرئینٹ کو خطرناک نہیں مانتے کیوں کہ ملک کی بہت بڑی آبادی ویکسین کی خوراکیں لےچکی ہے۔ ان کے خیال میں نیا ویرئینٹ نہ تو زیادہ پھیلے گا اور نہ ہی خطرناک ہوگا۔ڈاکٹر جگل کشور کے مطابق چین میں معمر افراد کی بہت بڑی آبادی کو ویکسین نہیں لگایا جا سکا۔ان کے بقول وہاں مرنے والوں میں اکثریت طویل العمرلوگوں کی ہے۔انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن نے بھی ہندوستان میں کورونا کی صورتِ حال کے قابو میں ہونے کی تصدیق کی اور گھبرانے سے منع کیا تاہم احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دیا ۔ اس ویرینٹ کے خطرناک نہیں ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں قوت مدافعت کے اندر اضافہ ہوا ہےاس لیے اگر انفیکشن بڑھے بھی تو شرح اموات میں اضافہ نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اس معاملے میں پیش قدمی کرتے ہوئے ریاست کرناٹک کی حکو مت نے تھیٹرز، اسکول، کالج اور نئے سال کی تقریبات میں ماسک پہننے کو لازمی قرار دےدیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی وبا کے دوران ہندوستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر رہا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہندوستان میں 3 جنوری 2020 سے 23 دسمبر 2022 تک چار کروڑ 46 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور پانچ لاکھ 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ویسے جولائی 2021میں حکومت ہند کے سابق معاشی مشیر اروند سبرامنین نے سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے دو معاونین کی مدد سے ایک رپورٹ شائع کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ اس کے مطابق ہندوستان میں وباء سے ہونے والی اموات کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے 10 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ بھارت میں حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق وبا سے لگ بھگ چار لاکھ 15 ہزار اموات ہوئی ہیں تاہم یہ تعداد حقیقی اموات کے مقابلے میں کئی گنا کم تھیں ۔ ظاہر حکومت کے پاس ان دعوؤں کی تردید کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا اس لیے اس نے کہا کہ وبا سے اموات کی تعداد کے حوالے میں مبالغہ آرائی اور گمراہ کن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے حالانکہ گنگا میں ترتی لاشیں اور شمشان گھاٹ میں طویل قطار سرکار کے بجائے محققین کی تائید کررہی تھیں ۔ سرکار کے مطابق جنوری 2020 سے جون 2021 کے ڈیڑھ سال میں ملک کے اندر 30 لاکھ سے 47 لاکھ افراد کورونا وبا سے ہلاک ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔

ہندوستان میں اموات کی بڑی تعداد اس لیے ہوئی تھیں کیونکہ جب حالات خراب ہوئے تو اسپتال اس کے لیے تیار نہیں تھے ۔ آئی سی یو وارڈز کی کمی تھی اور آکسیجن کی خاطر چہار جانب ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ اس پرانی غلطی سے سبق سیکھ کر مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے اسپتالوں میں کووڈ کے ممکنہ کیسز سے نمٹنے کے لیے تمام انتظامات موجود ہیں ۔ اس بابت آکسیجن اور وینٹی لیٹر کی مناسب مقدارکے اہتمام کی تاکید کی گئی۔ہندوستان کے اندر پچھلے سال کے شروع میں وائرس سے بچاؤ کے لیے چہرے کے ماسک کی پابندی میں نرمی کر دی گئی تھی اور کورونا کیسز میں اضافے کے باوجود یہ نرمی جاری رہی ۔پچھلے ہفتہ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود ماسک لگا کر کووڈ کے خطرے سے چوکس رہنے کی تلقین فرما دی ۔ انہوں ماسک کا استعمال دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔

یہ تو ہے ملک میں کورونا کی حقیقت لیکن یہاں وباء بھی سیاست کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت جوڑو یاترا سے پریشان مرکزی وزیر صحت منسکھ منڈاویہ نے کانگریس کے رکن پارلیمان راہل گاندھی اور راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت کو ایک خط لکھ مارا ہےجس میں ہندوستان جوڑو یاترا کے دوران کووڈ کے رہنما خطوط پر سختی سے عمل کرنے یعنی ماسک اور سینیٹائزر کے استعمال پر زور دینے کے بعد کہا گیا کہ صرف ویکسین لینے والے لوگ ہی ہندوستان جوڑو یاترا میں شامل ہوں۔ اس تاکیدی خط کا دلچسپ پہلو یہ ہے رہنما خطوط یعنی سرکاری ایڈوائزری کو جاری کرنے پہلے ہی پروچن دے دیا گیا جبکہ یاترا میں شامل تمام مستقل مسافر ٹیکہ لگوا چکے ہیں۔مرکزی وزیر صحت منسکھ منڈاویہ کویہ خط لکھنے کا خیال ریاست راجستھان کے تین ارکان پارلیمان کے ذریعہ 20 دسمبر 2022 کو لکھے جانے والے مکتوب سے آیا۔اس میں راجستھان کے اندر جاری ہندوستان جوڑو یاترا کے دوران کووڈ قوانین کی عدم تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان حضرات نے مذکورہ یاترا کے دوران کووڈ سے متعلق ضوابط و قوانین پر عمل کرنے کی درخواست کی تھی۔

ہندوستان جوڑو یاترا سے پریشان یہ ارکان پارلیمان بھول گئے کہ راجستھان میں ہی بی جے پی والے بھی ایک جن آکروش یاترا چلا رہے ہیں۔ اس میں بھی لوگ جمع ہورہے ہیں لیکن چونکہ کورونا کا وائرس ان کو پہچانتا ہے اور ڈر کر ان کے قریب نہیں پھٹکتا اس لیےاس کی بابت نہ شکایت ہوئی اور نہ کوئی ہدایت جاری کی گئی۔ ذرائع ابلاغ کے اندر جب اس منافقت کا تمسخر اڑایا جانے لگا تو اس سے شرمسار ہو کرراجستھان اکائی میں بی جے پی کے جنرل سکریٹری ارون سنگھ نے اعلان کیا کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس کے معاملات میں اضافے کے بعد بی جے پی نے راجستھان میں اپنی 'جن آکروش یاترا' معطل کردی ہے۔بی جے پی کا سب سے بڑا مسئلہ جلدبازی ہے ۔ اس معاملے میں جو غلطی پرہلاد جوشی اور من سکھ منڈاویہ نے کی اسی کا اعادہ ارون سنگھ نے کرکے اپنی رسوائی کا سامان کیا۔ انہوں کہا کہ بی جے پی کے لیے، عوام سیاست سے پہلے آتے ہیں۔ ہمارے لیے ان کی حفاظت اور صحت اولین ترجیح ہے۔ اسی کے ساتھ کانگریس کی ہندوستان جوڑو یاترا پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اپنے حریف پر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا الزام لگادیا۔

ارون سنگھ نے کس کے ایماء پر یہ حماقت کی اس کا پتہ تو نہیں چلا لیکن اگر وہ میڈیا میں جانے سے قبل اپنے ریاستی صدر ستیش پونیا کو اعتماد لے لیتے تو اچھا تھا۔ صدر صاحب نے دوگھنٹے بعد اپنے سکریٹری کا بیان کی تردید فرمادی ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک مرکزی حکومت اور صوبائی سرکار کی جانب سے رہنما خطوط جاری نہیں ہوجاتے اس وقت تک جن آکروش یاترا اپنے منصوبے کے مطابق جاری و ساری رہے گی ۔ یہ دنیا کے سب سے نام نہاد منظم سنگھ پریوار کا حال ہے جو آئے دن اپنی حماقتوں سے منہ کی کھاتا ہے۔ اس ’یو ٹرن ‘ پرکانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے وزیر صحت کے خط کو راہل گاندھی کے دورے میں جمِ غفیر کے جمع ہونے سے پریشان ہوکر بی جے پی کی ایک سازش قرار دے دیا۔ اس میں بظاہر کچھ بھی غلط نہیں لگتا ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بھارت جوڑو یاترا پر لب کشائی نہ کریں لیکن ان سے صبر نہیں ہوتا اور وہ کچھ نہ کچھ بول کراس کو میڈیا میں موضوعِ بحث بنادیتے ہیں اور یہ نادان دوست نادانستہ اپنے سیاسی دشمن کا بھلا کرتے رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز میں وباء کی حقیقت سے زیادہ کورونا کی سیاست دلچسپ ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449914 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.