دنیا بھر میں امور مملکت چلانے کے لیے بادشاہت، آمریت،
ملوکیت اور جمہوریت جیسے مختلف نظام طویل مدت سے نافذ العمل ہیں۔ تاہم اس
امر میں کوئی کلام نہیں کہ مذکورہ بالا مختلف سیاسی نظاموں کے مقابلے میں
جمہوریت سب سے توانا، عوامی اور ثمر آور ثابت ہوئی ہے۔ جمہوری نظام میں
طاقت کا سر چشمہ مطلق العنان شخصیات کے بجائے جمہور ہوتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت
کے فیصلے بند کمروں کے بجائے پارلیمان میں عوامی نمائندوں کے زریعے طے کرتے
ہیں۔ دراصل جمہوریت وہ اکسیر اعظم ہے جس کی بدولت دنیا کے مختلف ممالک نے
مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوا کر ترقی یافتہ بن گٸے ہیں۔ مگر
شومئی قسمت سے پاکستان میں روز اول سے سر آئینہ جمہوریت اور پس آئینہ وہ
خلائی مخلوق رہی ہے جس نے کبھی بھی حقیقی معنوں میں جمہوریت کو پنپنے نہیں
دیا۔
اگر پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کی غائرانہ ورق گردانی کی جائے تو وہ تمام
جمہوریت دشمن گدھ بہ آسانی آشکار ہو جائیں گے جنھوں نے اپنے اقتدار کی بھوک
مٹانے کے لیے جمہوریت کی زندہ لاش کو نوچا۔ ان آمروں نے نہ صرف بلا واسطہ
تین دہائیوں تک عوامی امنگوں کے برعکس طاقت کے بل بوتے عنان اقتدار کو
طوالت بخشی بلکہ بلواسطہ بھی قدم قدم پر جمہوری روایات کی حوصلہ شکنی کی۔
یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے آج تک کسی بھی منتخب وزیراعظم نے اپنی
آئینی مدت پوری نہیں کی۔
ہم سب یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتوں نے ہمیشہ سے پاکستانی
جمہوریت کے پیٹ میں وقتاً فوقتاً چھرا گھونپنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عسکری
اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ، پارلمینٹ، انتظامیہ اور میڈیا نے بھی جمہوریت
کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ عدلیہ نے بھی
کٸی دفعہ نظریہ ضرورت کے تحت جمہور کو بروقت انصاف دلانے کے بجائے اپنا وزن
طاقت ور کے پلڑے میں ڈال کر جمہوریت پر شب خون مارا ہے۔ غریب عوام الناس
پیشی پر پیشی بھگت کر سستا اور معیاری انصاف کے حصول لیے ترس رہے ہیں، جب
کہ اشرافیہ کے لیے چھٹی والے دن اور آدھی راتوں کو بھی انصاف مل جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت، ذوالفقار علی بٹھو کا عدالتی قتل،
ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاء کو جائز قرار دینے کا عدالتی حکم
اور آئین کی من پسند تشریح کے زریعے منتخب وزرائے اعظم کی بہ یک جنبشِ قلم
معزولی، یہ ساری عدالتی سیاہ کاریاں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔
ہمارے قانون کی شق ١٩ کے تحت آزادی اظہار رائے اور حکومتی پالیسیوں پر
تعمیری تنقید سب شہریوں کا آئینی حق ہے، مگر بدقسمتی سے یہ حق بھی بحق
سرکار سلب شدہ ہے۔ تمام میڈیا ہاؤسز کو شدید سنسرشپ کا سامنا ہے۔ میڈیا کا
کام سچ کی کھوج لگانا اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کثیر
الثقافتی اور کثیر اللسانی قوموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ہے۔
لیکن اس کے برعکس، میڈیا ہاؤسز بھی کیمپ پالیٹکس کا حصہ بن کر سچ کو کفن
پہنانے کا بہ خوبی اہتمام کرتے رہے ہیں۔ میڈیا پر قدغن اور عوام کی زبان
بندی کے نتیجے میں رعایا و حکمران اور وفاق و دیگر ریاستی اکائیوں کے
درمیان خلیج بڑھ گئی ہے جو کسی بھی لحاظ سے ملکی وحدت اور جمہوریت کے لیے
نیک شگون نہیں ہے۔
پارلیمانی نظام سیاست میں پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں اور طاقت کی محور
سمجھی جاتی ہے، جہاں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کے
خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے قانون سازی بھی کی جاتی ہے۔ مگر اس کے
برعکس پاکستان کے ایوان بالا، ایوانِ زیریں اور دیگر صوبائی اسمبلیاں عضو
معطل کی طرح مستقل بوجھ بن چکی ہیں۔ ان معزز ایوانوں میں متوسط طبقے کی
نمائندگی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں، جب کہ مذکورہ بالا ایوان
اشرافیہ، فصلی بٹیروں، جاگیر داروں، بھتہ خوروں، قبضہ مافیا اور زمینی
خداؤں کے لیے آماج گاہ بن چکے ہے۔ بجٹ یا دیگر ناگزیر قانون سازی کے دوران
میں سیاست دان مست ہاتھیوں کی مانند جب باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں تو
ایوان پر مچھلی بازار کا گمان ہوتا ہے۔ عوامی مساٸل میں عدم دلچسپی اور
قانون سازوں کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بسا اوقات اسمبلی اجلاس کورم
پورا نہ ہونے کی وجہ سے غیر معینہ مدت تک ملتوی کیا جاتا ہے۔ جس کا خمیازہ
ہم سب پارلیمانی نظام سیاست کی معطلی اور غیر منتخب لوگوں کی سیاست میں
بڑھتی ہوئی دلچسپی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ مضبوط اور مستحکم حکومت کبھی بھی اسٹبلیشمنٹ کے مفاد میں
نہیں رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے ہمیشہ سے نیب ،ایف آئی اے اور دیگر ریاستی
اداروں کی ملی بھگت سے کمزور، مخلوط اور مصنوعی حکومتیں قائم کی ہیں۔ اور
کٸی مواقع پر منتخب حکومتوں کو اتحادیوں اور موقع پرست سیاست دانوں کے
ہاتھوں بلیک میل کرکے اپنا الو سیدھا کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے۔ گذشتہ
ایک عشرے پر مبنی یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف کی
حکومتیں، اتحادی، مصنوعی اور کمزور ترین مخلوط حکومتوں کی زندہ مثالیں ہیں۔
بادی النظر میں مذکورہ بالا تمام حکومتوں کو کارکردگی دکھانے کے بجائے اپنے
بچاؤ کی فکر زیادہ رہی ہے۔
پاکستان میں حقیقی معنوں میں جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاست دانوں کو عسکری
اور دیگر ریاستی اداروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں دیکھنا
چاہیے، خود احتسابی کو اپنا شعار بناٸیں، موروثی سیاست کا خاتمہ کریں،
انتخابی اصلاحات پر متفق ہو جاٸیں، گالم گلوچ، لسانی نفرت اور بین الصوبائی
عصبیت کا خاتمہ کریں، ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور آئین کی بالادستی
یقینی بناٸیں؛ تمام ریاستی سول اور عسکری اداروں کی آئینی حدود متعین کریں،
بلا تخصیص سارے عوام کو تعلیم، صحت اور انصاف کی فراہمی یقینی بناٸیں، اور
سب سے بڑھ کر سیاسی انتقامی کاررواٸیوں اور کرپشن سے باز رہیں۔ سیاست دانوں
کی کمزوریاں غیر جمہوری عناصر کی طاقت بن جاتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ
بہترین آمریت سے بد ترین جمہوریت بھی بہتر ہے۔ آج کل سوشل میڈیا نے اگر
عوام میں شعور و آگہی کا اضافہ کیا ہے تو دوسری طرف آمروں نے بھی آستین
چڑھا کے رکھے ہیں، مگر:
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے |