اخبار کے فرنٹ پیج پر مین سرخی پڑھی کہ کراچی میں آٹاکی
قطارمیں لگی مائیں بہنوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسورویا اورایک شہری کی
ہلاکت کی دلخراش خبر پڑھنے کو ملی کہ سیاسی لڑائیوں نے میرے ملک کا کیاحال
کر دیاہے۔ 76 برس گزرنے کے بعدبھی ملک معاشی طور مستحکم نہ ہوسکا ۔ہم سے
بعد میں آزاد ہونے والے ممالک بڑی اقتصادی طاقتیں بن گئیں۔چین ،کوریا
،تائیوان اسکی بڑی مثالیں ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیزمیں
مہنگائی نے پہلے سے ہی افلاس زدہ عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم نے جب آج سے 8ماہ قبل حکومت سنبھالی تھی تو وزیر اعظم شہبازشریف
نے بڑے دعویٰ کے ساتھ کہاتھاکہ ہمیں مشکل فیصلے کرنا ہو نگے۔ موجودہ حکومت
سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیامشکل فیصلے صرف غریب سے سوکھی روٹی بھی چھین
لیناہے؟امیر کی امارت پر تو کوئی فرق نہیں پڑا ۔ پی ڈی ایم میں شام سیاسی
جماعتوں نے سابق وزیر اعظم عمران کان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے قبل
بلند وبانگ دعوے کئے تھے کہ وہ معاشی حالات کو بہتر کرنے کیلئے کوئی دقیقہ
فرو گزاشت نہیں کریں گے لیکن نہ ہی کوئی بہتری کے آثار نظر آئے اور نہ ہی
تجربہ کاراور آزمودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں اور دعووں سے ڈالر
کی قیمت200روپے سے کم ہوئی ۔آئے روز ڈالر کی قیمت میں اضافے سے جہاں روپے
کی قدر گر رہی ہے وہیں مہنگائی و بے روزگاری کا ایک نیا سونامی عوام کو
اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور اور دیگر سیاسی
جماعتوں کے اقتدارمیں آنے سے آج تک حکومت کی کوئی ایسی پالیسی تشکیل نہیں
دکھائی دی جس سے عام آدمی کو ریلیف میسر ہوسکے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف
نے حال ہی میں بجلی اور گیس کے صارفین پر کوئی اضافی بوجھ نہ ڈالنے کی نوید
سناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ موجود گردشی قرضے پر قابو پانے کے لئے جامع
حکمت عملی وضع کی جائے گی،توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا عمل اس طرح مکمل
کیا جائے گا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب پر عملدرآمد کب اور کیسے
ہوگا؟۔2022، میں پٹرول ،بجلی کی قیمتوں اور مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ
گئے، 27.3 فیصد کیساتھ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر
رہی، افسوس! عوام کو ریلیف دینے کے حکومتی وعدے وفا نہ ہوسکے، سرکار طفل
تسلیوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ وزیر خزانہ کی تبدیلیاں تو ہوئیں مگر معاشی
معاملات میں کوئی سدھار نہ آیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار معیشت کو سنبھالنے کے
بجائے موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کی کوشش میں صدر عارف علوی کے ساتھ
جھگڑنے میں زیادہ مصروف نظر آئے ہیں۔یہ توطے ہے کہ آئی ایم ایف کا شکنجہ اس
ملک کے غریب کی گردن کا طوق بنتاجارہا ہے۔نئے سال 2023ء کا تحفہ مرغی کے
مہنگے گوشت کی صورت میں ملا۔بکرے کاگوشت توپہلے ہی متوسط طبقے کیلئے خواب
بن چکا ہے اب حکومتی معیشت کے جادوگروں نے مرغی بھی دسترس سے باہر کردی ہے
۔اس تشویشناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حالیہ دنوں میں ملک کو خوراک،
خصوصاً گندم کے بحران کا خطرہ لاحق ہے، آٹا جو کہ ہماری بنیادی ضرورت ہے
اسکی قلت نے صورتحال کو اور بھی گھمبیر بنادیا ہے ۔ملک بھر میں 100 کلوگرام
گندم کی بوری کے نرخ میں سوفیصد اضافہ اور اور فی کلو آٹا 160 روپے تک جا
پہنچا ہے۔ خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک تندوری روٹی کی قیمت 20 سے بڑھاکر
25 روپے کردی ہے۔ اورنان40 روپے تک بڑھ گیاہے ۔ قبل ازیں غریب طبقہ دو وقت
کی روٹی بمشکل کھا رہا تھا ، اب رفتہ رفتہ مڈل کلاس بھی مجموعی مہنگائی کے
ہاتھوں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ ادھر حکومت کے زیر انتظام غریب
طبقے کیلئے قائم کردہ یوٹیلٹی اسٹوروں پر یکم جنوری سے اچانک چینی آٹے اور
گھی کی قیمتیں مزید بڑھادی گئیں۔ اور ہزاروں کی تعداد میں بھرتی شدہ پرائس
کنٹرول کمیٹیوں کے ملک گیر عملے کی کارکردگی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
معاشی ابتری پاکستان کو درپیش تمام چیلنجوں میں بلاشبہ سب سے زیادہ سنگین
مسئلہ ہے۔سابقہ دور حکومت میں قومی معیشت جس طرح آئی ایم ایف کی دست نگر
ہوئی، اس کی بنا پر موجودہ حکومت کے پاس عالمی مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط
پر عمل کرکے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ
باقی نہیں بچا ہے۔ دوسری جانب بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں نے قومی معیشت
کو مزید زبوں حالی سے دوچار کردیا۔ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اورسیلاب سے
ایک ہزار700 افراد کی جانیں گئیں، 33 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ سندھ اور
بلوچستان صوبوں کے بڑے حصے بدستورپانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے
ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال سیلاب
کی تباہ کاریوں سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کے باعث
فصلوں کو شدید نقصان پہنچا اور اگلے سیزن کے لیے فصلیں کاشت نہیں ہو سکیں،
جس کے باعث زرعی اجناس اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف
غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا بلکہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد
کی تعداد 70 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 46لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔جبکہ ملک میں
غذائی عدم تحفظ کے شکارافراد کی تعداد دو گنا بڑھ کر 14 ملین ہوچکی ہے، 9
ملین افراد انتہائی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔2022 ء پاکستانی معیشت کے
لئے انتہائی مشکل سال رہا جس میں نہ صرف پاکستانی روپے کے مقابلے میں
امریکی ڈالر نے نئے ریکارڈ قائم کئے بلکہ مہنگائی،اسٹیٹ بینک کی شرح سود
میں اضافے کے لحاظ سے بھی یہ سال پچھلے10 سالوں میں سب سے مہنگا سال ثابت
ہوا۔ 2022 ء میں ڈالر کی قدر میں 20.2 فی صد اضافہ ہوا یعنی پچھلے دس سال
میں کسی بھی سال میں ڈالر کی قدر میں اتنا اضافہ نہیں ہوا۔ 2022ء میں
مہنگائی کی شرح 19.29فیصدرہی جب کہ پچھلے 10سال میں سالانہ مہنگائی کی شرح
10فیصد تک بھی کبھی نہیں پہنچی۔پاکستان کئی برس سے سیاسی و معاشی بحران سے
دوچار ہے۔ ’’کرونا ‘‘کے بعد یوکرائن روس جنگ اور سیلاب نے حالات کو مخدوش
کر کے رکھ دیا ہے۔شرح سود میں اضافہ سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے،
سبسڈیز ختم ہونے، پٹرولیم، بجلی اور گیس کے ریٹس میں غیر معمولی اضافہ کے
باعث عام آدمی کے لئے زندگی بسر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکاہے۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نے ایسی بے یقینی کی فضا کو جنم دیاہے
کہ بیرونی ہی نہیں وطن عزیز کے سرمایہ کاربھی اب دیگر ممالک کا رخ کر رہے
ہیں تاکہ اپنا سرمایہ محفوظ جگہ پر لگاسکیں۔ درآمدات و برآمدات میں غیر
معمولی تفاوت سے گردشی خسارے اوربیروزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آئی
ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور سیاسی بے یقینی نے زرِمبادلہ کے
ذخائر میں کمی کے ذریعے ملک کی ضرر پذیری کو بدتر کر دیا ۔صنعت و تجارت اور
زراعت کے شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اجناس کی عالمی قیمتوں میں
تیز رفتار اضافے نے ملک کے اقتصادی استحکام کو خطرے سے دوچار کیا ۔اس میں
بھی کوئی دورائے نہیں ہیں کہ جب موجودہ حکومت اقتدار سنبھالاتو فارن
ایکسچینج بحران کے ساتھ ساتھ ایکسٹرنل اکاؤنٹ پر بے پناہ دباؤ تھاجس
پرکنٹرول کرنے کیلئے اسے معاشی ٹیم بھی تبدیل کرنا پڑی لیکن اب وفاقی وزیر
خزانہ جنہوں نے معیشت کو مضبوط بنیادوں پر اتوار کرنے کیلئے بڑے بڑے دعوے
کئے تھے بھی بے بس دکھائی دے رہیں ۔ اسحاق ڈار نے حال ہی میں اس امر کا
عتراف کرتے ہوئے کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گز رہا ہے ایسے میں کسی کو
ملکی کرنسی سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہو گی ایف بی آر کو معاشی صورتحال میں
تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے ٹیکس وصولی مزید بڑھانے کا
حکم دیا تھا کیونکہ روپے کی تباہی کے نتیجے میں ہی مہنگائی ہوئی اور شرح
سود13سے 14فیصد تک پہنچ گئی۔پی ڈی ایم حکومت جو عوام کو سہانے سپنے دکھا کر
اقتدار پر براجمان ہوئی تھی اسے چاہئے کہ اب عوامی مسائل کا ادراک کرتے
ہوئے مہنگائی کنٹرول کر کے ریلیف فراہم کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے
کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔ |