“ بلدیاتی الیکشن پیپلزپارٹی کی دھاندلی و تحریک انصاڤ کی کارگردگی “

آخر کار کراچی و حیدرآباد و سندھ کے کچھ دوسرے شہروں اور دیہات میں دوسرے راؤنڈ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن ( عید کے چاند کی طرح نظر آنے یا نہ آنے ) یعنی الیکشن ہوئینگے یا نہ ہوئینگے مگر اس دفعہ الیکشن ہوہی گئے مگر یہ بلدیاتی الیکشن اپنے پیچھے پیپلزپارٹی کے 1977 کے جرنل الیکشن کی طرح بدنام زمانہ جھرلو اور دھاندلی زدہ تھے جبکہ متحدہ کے بائیکاٹ کرنے پر بھی ہر علاقہ و شہر سے دھاندلی کی بازگشت و سوشل میڈیا پر آڈیو اور وڈیو چل رہی تھیں اگر ان بلدیاتی الیکشن میں متحدہ بھی حصہ لیتی اور اس طرح کی دھاندلی پر کیا وہ خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ پاتی یہ انتیظامیہ اور الیکشن کمیشن کے لیے آئندہ جرنل الیکشن کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے شہر کراچی کے امن کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ اس بلدیاتی الیکشن میں کُھلے عام دھاندلی کی گئی اور انتیظامیہ اور الیکشن کمیشن نے جس طرح چپ سادھ لی اس سے کیا گمان ہوسکتا ہے. کراچی کے انتخابات ملک میں سب سے زیادہ دھاندلی زدہ ہونے کا ریکارڈ ہمیشہ کی طرح برقرار رہا. پولنگ ختم ہونے کے 24 گھنٹے بعد تک نتائج کا اعلان نہ ہونا خطرہ کی علامت سمجھی جاتی ہے چيف اليکشن کمشنر صاحب کے پاس کيا وضاحت ہے اس تاخير کی؟

اکثر جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی اور مختلف الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں نے یہ شکایت عام لگایں کہ رات کے وقت نتائج کے ساتھ کوئی کاریگری چل رہی تھی گئی تو اس سے انتشار اور افراتفری کی صورتحال پيدا ہو سکتی ہے جس کا پاکستان اور خاص کر کراچی مُتحمل نہيں ہو سکتا تھا سوچنے کی بات یہ ہے کیا کراچی صحرائی علاقہ تھا اس لیے وہاں سے نتیجہ آنے میں 24 گھنٹے لگ گئے جب کہ دادو، بدین، سجاول وغیرہ تو دنیا کے سب سے ترقی یافتہ شہر ہیں ان کے نتائج دو گھنٹے میں ہی میڈیا میں آ گئے.

الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں سوائے پیپلزپارٹی کے سب نے یہ موقف اپنایا کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو دیے گئے فارم 11 کے نتائج سے مختلف ہیں اور اس میں حکومتی جماعت پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن پر 2018 میں بھی یہی سنگین الزامات لگائے گئے تھے اب بھی یہی الزامات دہرائے گئے ان بلدیاتی الیکشن میں انتظامی کاریگری بھی خوب دکھائی گئی ہے کیونکہ متعدد نتائج کل کے فارم11/12 سے مطابقت نہیں رکھتے تھے . کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں اتنی تاخیر کے بعد کیا موجودہ الیکشن کمیشن سے یہ توقع رکھی جائے کہ یہ قومی سطح پر صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرا سکتا ہے. کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر حصوں میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں تاخیر اور کُھلم کُھلا دھاندلی کے الزامات کے سبب الیکشن کمیشن پر مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا نے پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن کا آپس میں گھٹ جوڑ کا کا الزام تھوپ دیا اس پر صوبائی الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے دوسرے علاقوں حیدرآباد ، بدین، مٹیاری ، ٹنڈوالہیار ، ٹنڈو محمد خان ، بدین ، مٹیاری اور سعید آباد
میں پیپلز پارٹی کے جاگیرداروں نے خلاف ورزی اور دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور یہ سب انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے زیرِسایہ ہوتا رہا ایسا لگتا تھا پیپلزپارٹی نے 1977 کے جرنل الیکشن کی یاد تازہ کردی ان ہی دھاندلی کی وجہ سے بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی جس سے پیپلز پارٹی حکومت کا تختہ بھی اُلٹا اور اپنے قائد کی جان سے بھی گئی ان بلدیاتی الیکشن میں دوران الیکشن میڈیا اور عوام میں الیکشن کمیشن کو ایک ’خاموش تماشائی‘ قرار دیا۔

پی ٹی آئی کراچی میں اپنی مقبولیت کا دعوی کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخاب کے نتائج نےانتج صدمے سے دوچار کردیا ہے. پی ٹی آئی کراچی کے صدر صدر علی زیدی نے ایک پریس کانفرس میں الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام عائد کیا. پی ٹی آئی کی کراچی میں بلدیاتی الیکشن میں بدترین کارگردگی کے کئی عوامل میں بیشتر ان کی مقامی قیادت کی عام عوام میں ان کی دوری رہی.

پی ٹی آئی نے سنہ 2018 کے انتخابات کے دوران کراچی میں قومی اسمبلی کی 14 نشتسوں پر کامیابی حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، وہاں پانچ سال بعد تیسری پوزیشن سے پارٹی کارکنان بھی حیران و پریشان رہے اور اکثر نظریاتی کارکنان و ہمدرد اپنی مقامی قیادت کو ان الیکشن میں جو پارٹی کی پوزیشن آئی تھی قصوروار قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف غم و غصے کا دبے الفاظوں میں اظہار بھی کررہے تھے جبکہ پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے تھا کہ بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لوکل باڈیز میں قومی یا صوبائی لیڈر کی مقبولیت اہم نہیں ہوتی بلکہ بنیادی سطح کا تنظیمی ڈھانچہ ہی اہم ہوتا ہے۔ ان لوکل باڈیز میں خان صاحب کا بیانیہ کا سہارا لیکر لوکل باڈیز الیکشن میں جانا یہ ان کی صوبائی قیادت کی نااہلی ثابت ہوئی ضروری نہیں کہ لوکل باڈیز کی سطح پر بھی اسی طرح اثر کرے جیسے قومی سیاست پر کرتا ہے۔

عمران خان پورے پاکستان میں بہت مقبول رہنما ہیں مگر پی ٹی آئی کی مُقامی قیادت کراچی اور سندھ کی علاقئی قیادت سے رابطے میں نہ ہونے سے عوام کو گھروں سے نکال لینے میں جو محنت و مُشفقت ہوتی تھی اُسمیں پی ٹی آئی کے وورکر بری طرح ناکام ہوئے اور سندھ سے بالکل نہ ہونے کے برابر کوئی رابطہ تھا اور وہ اپنے نظریاتی کارکنان و حامیوں سے کٹی ہوئی تھی انکی مقامی قیادت ٹویٹس اور پریس کانفرنسوں سے سیاست چلارہے تھے جبکہ لوکل باڈیز کے الیکشن میں جب تک گراؤنڈ کی سطح پر پارٹی کا ڈھانچہ نہیں بنتا آپ کو کامیابی ملنا بہت مشکل ہے

جبکہ جماعت اسلامی نے یونین کونسل کی سطح پر گھر گھر جا کر انتخابات کی مہم چلائی اور اس مہم میں حافظ نعیم بھی بیشتر ایریا میں خود گھر گھر جاکر لوگوں اور دوکانداروں سے ملے جماعت اسلامی نے بھی اپنی یہ مہم ایک ماہ پہلے نہیں بلکہ برسوں تک چلائی، کراچی کے مسائل پر احتجاجوں یا دھرنوں میں شرکت کی تو اس کا بہت اہم کردار تھا اور اس کا اثر واقعی بلدیاتی نتائج میں جو آیا ہے وہ اس ہی کا پیش خیمہ ہے.

تحریک انصاف نے برائے نام اپنی انتخابی مہم چلائی ہی نہیں۔ سندھ اور کراچی کی پارٹی قیادت کو الیکشن سے ایک دن پہلے تک یہی سمجھتے رہے کہ شاید بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔

جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات میں گھر گھر چپہ چپہ اپنی مہم چلائی مگر تحریک انصاف کراچی اور سندھ کی قیادت نے اپنی توہین سمجھا یہ قیادت عمران کے بیانیہ کو ہی لیکر سمجھے کہ عوام اس بیانیہ پر ہی نکل باہر آئیگی اس کا ہی شہر کراچی میں پرچار کرتے رہے پارٹی کے اندر بہت سارے جھگڑے چل رہے تھے۔ میئر کا نام بھی فائنل نہیں ہوپا رہا تھا مقامی قیادت سے

تحریک انصاف کراچی کے صدر علی زیدی کہیں گراؤنڈ پر نظر نہیں آتے تھے اور اگر آتے تھے تو پریس کانفرنسیں میں ( کپتان بابر ) کی طرح ہوا میں تیر چلاتے رہے انکا عوام کے ساتھ رابطے کا نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ پی ٹی آئی کے شیر زمان، علی زیدی اور عمران اسماعیل پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں کلفٹن اور ڈی ایچ اے سے آگے نہیں نکلے۔ انتخابی مہم میں تحریک انصاف انہیں کہیں دکھائی نہیں دی اور انھیں اپنے پولنگ سٹیشن کے پاس پی ٹی آئی کا کیمپ بھی نہیں دکھائی دیا .تحریک انصاف کو عملی سطح پر کارکردگی دکھانے کو عملی جامہ پہنانا چاہیے. پی ٹی آئی کی کراچی میں شکست کپتان عمران خان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے، اب کپتان عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ سندھ کے بغیر وہ عام انتخابات کیسے جیتیں گے. کراچی کے بغیر عمران خان کا سادہ اکثریت حاصل کرنے کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ تحریک انصاف کراچی کی لیڈرشپ ناکام ہو گئی۔اب اگر جرنل الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کو ابھی سے چاہیے اپنے بوجوانوں کو شہر کراچی و حیدرآباد و اندرون سندھ میں متحرک کرئے اور گھر گھر اپنی الیکشن کمپین چلائے کیونکہ یہ تو بلدیاتی الیکشن تھے اگر جرنل الیکشن میں بھی اس طرح کی مقامی نوجوانوں نے درگزر سے کام لیا تو پھر تحریک انصاف کا حال بھی نواب نصراللہ کی جماعت جیسا نہ ہوجائے.

Engr Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Engr Shahid Siddique Khanzada Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.