مہنگائی وفاقی یا صوبائی مسئلہ ! غریب کدھر جائیں؟

مہنگائی کے ہاتھوں تڑپتی ہوئی عوام کی دادرسی اور مرہم لگانے کی بجائے ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد اپنی بے تکی اور احمقانہ باتوں اور رویوں سے عوام الناس کے زخموں پر نمک پاشی کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔آئیے پاکستانی قوم کے خیر خواہوں کے چند بیانات ملاحظہ فرمائیں۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی طارق بشیر چیمہ نےپریس کانفرس کے دوران فرمایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مہنگائی ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ صوبوں میں مہنگائی کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔موصوف نے مزید فرمایا کہ وہ (یعنی وفاقی حکومت) صرف اسلام آباد کی حد تک آٹے کی قیمت کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔انہوں نے مزید فرمایا کہ آٹے اور گندم کی قیمتوں کا تعین صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔فلور ملز مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔فلور ملز اپنی صلاحیت کے مطابق آٹا نہیں بناتی۔موصوف نے چکن کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کے حل متعلق فرمایا کہ جی ایم او سویابین زہریلی بیماری ہے، کینسر ہے، مرغی کھانا چھوڑ دو،میں مرغی نہیں کھاتا، گوشت بھی نہیں کھاتا، جی ایم او سویابین کا پولٹری میں استعمال بیماری پھیلا رہا ہے۔دوسری جانب صوبہ پنجاب، صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کے خلاف وائٹ پیپر جاری کردیا جس میں ملکی معیشت اور مہنگائی کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت کے سر پر ڈال دی۔اس وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ عمران خان دورحکومت میں کورونا کے باوجودچھ فیصد گروتھ سے ترقی کرتے ملک کو رجیم چینج سازش سےدو فیصد گروتھ پر لانے، بار ہ فیصد مہنگائی کوپچیس فیصد پر لانے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے آٹھ ماہ کے دوران ترسیلات زر نو اعشاریہ چھ فیصد، برآمدات دوفیصد اوربیرونی سرمایہ کاری اکاون اعشار چار فیصد کم ہوئیں جبکہ ملک میں مہنگائی گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد سے بڑھ کر تیئیس اعشاریہ آٹھ فیصد پر چلی گئی۔وائٹ پیپر میں بتایا گیا کہ ایکس چینج ریٹ ایک سو اٹھتر روپے انیس پیسے سے بڑھ کر دو سو چھبیس روپے سینتیس پیسے ہوا، جولائی سے نومبر دو ہزار بائیس میں ایف بی آر نے پندرہ اعشاریہ نو فیصد کا اضافی ٹیکس جمع کیا مگر نان ٹیکس ریونیو تیئیس اعشار چار فیصد کم ہوا۔وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ ہماری امپورٹ زیادہ اور ایکسپورٹ بند ہورہی ہیں ان تمام معاملات میں ڈالر کی عدم دستیابی نے مسائل میں اضافہ کیا، یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو ملک دیوالیہ کرسکتا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی محمود خان نے مالاکنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امپورٹڈ حکومت ملک اور عوام کے مفادات کیلئے نہیں بلکہ اپنے مقدمات ختم کرنے اور چوریاں چھپانے کے لیے قیام میں آئی ہے۔محمود خان نے کہا کہ مہنگائی کی شرح میںپچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کی قیادت میں ہماری معاشی ٹیم جلد معاشی بحران سے چھٹکارا حاصل کرلے گی۔ آٹا، گھی، مرغی اور اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے۔عوام کو شعور ہے کہ مہنگائی میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ پاکستان کے ستر فیصد علاقوں (یعنی پنجاب اور کے پی کی) میں حکمرانی رکھنے والوں کو عوامی ریلیف کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح پاکستان کے سابقہ وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی صاحب (جو اپنے دور اقتدار میں مہنگائی کے سوال پر کہا کرتے تھے کہ میں آلو ٹماٹر کی قیمتیں چیک کرنے اقتدار میں نہیں آیا)؛ موصوف بھی مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان حال ہیں، جناب فرماتے ہیں کہ پی ڈی ایم والے مہنگائی کم کرنے نہیں کرپشن کیسز ختم کرانے کیلئے اقتدار میں آئے ہیں۔ اور وزیر اعلیٰ پنجاب جناب پرویز الہیٰ صاحب جن کو صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت پوری کرنے ہی سے فرصت نہیں مل رہی۔ درج بالا چند بیانات و معروضات ہیں اسکے علاوہ بھی لمبی لسٹ موجود ہے۔ جن سے یہ بات ثابت کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ ہماری اشرافیہ چاہے مسند اقتدار پر براجماں ہوں یا پھر مسند اقتدار کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہوں۔ سب کو عوام الناس کے پیٹ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ اگر ٹماٹر مہنگا ہوگیا ہے تو ہنڈیا میں دہی ڈال لیا کریں، اگر گندم مہنگی ہوگئی ہے تو روٹی کم کھائیں۔ مگر جیسے ہی یہ اشرافیہ اپوزیشن بینچوں پر براجمان ہوتی ہے انکو مہنگائی سے تڑپتی ہوئی عوام الناس کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ جبکہ حقیقت حال یہی ہے کہ صرف اپنے مخالفین کو اقتدار سے نکالنے کے لئے عوامی نعروں کا سہارہ لیتے ہیں۔ یاد رہے پی ڈی ایم حکومت نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپنے آخری احتجاج کا عنوان ہی مہنگائی مارچ رکھا تھا۔بالفرض مان لیا جائے کہ مہنگائی صوبائی معاملہ ہے تو پھر صوبہ پنجاب، صوبہ خیبر پختونخواہ، صوبہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان اور بحالی کے لئے وفاقی حکومت کس حیثیت سے پوری دنیا میں کشکول لیکر چندے مانگ رہی ہے؟ اسی طرح اگر مہنگائی اور ملکی معیشت کی صورتحال کی ذمہ دار صرف اور صرف وفاقی حکومت ہے تو پھر صوبائی حکومتوں کے عہدیدران سے یہ سوال پوچھنا ضرور بنتا ہے کہ صوبائی حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں؟کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام صرف عوام کے ٹیکس اور عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں سے شاہی اخراجات اور پروٹوکول کے مزے لینا ہی رہ گیا ہے؟پاکستان جو کہنے کوتو زرعی ملک ہے لیکن اپنی روزمرہ کی اشیاء کے لئے اربوں ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے سڑکوں پر ذلیل ہورہی ہے۔سیاست دان ہوش کے ناخن لیں ۔اس وقت پاکستانی قوم آپکی احمقانہ سیاست کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ یہ نہ ہوکہ آپکے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا فائدہ غیر جمہوری طاقتیں لے لیں، پھر نہ اقتدار کے مزے رہیں گے اور نہ ہی بچے گی آپکی سیاست۔

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 164495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.