پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اب صوبہ سے خاندانی سیاست
کا خاتمہ بھی ہوجائیگا جس طرح پیپلز پارٹی ختم ہوئی اسی طرح ن لیگ بھی اپنے
انجام کو پہنچ جائیگی کیونکہ ہماری آج کی خطرناک معاشی صورتحال کی ذمہ دار
یہی دونوں جماعتیں ہیں نہیں یقین تو عالمی بینک کی تازہ رپورٹ پڑھ لیں جو
حکمرانوں کے چہرے سے نقاب نوچ رہی ہے کہ ملکی آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ
غذائی عدم تحفظ ہے جبکہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت پاکستان کی معاشی
ترقی صرف 2فیصد تک محدود ہو چکی مہنگائی نے 53سالہ ریکارڈ ٹوڑ ڈالا ہے
اورروپیہ کی قدر میں 14فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے ماہانہ 70کروڑ ڈالر
افغانستان سمگل ہو رہے ہیں آٹا قرعہ اندازی کے ذریعے 160روپے کلو میں فروخت
ہو رہا ہے ملک کے عوام مہنگائی ، بے روزگاری اور لاقانونیت کے ہاتھوں مجبور
ہو کر خود کشیاں کررہے ہیں اور حکمرانوں نے بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے ہر
شعبہ کسمپرسی کا شکار ہے اورحکومت اپنی ناکامی کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر
بری الذمہ ہونا چاہتی ہے پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس مہنگائی کا کوئی توڑ
نہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بنادیا ہے یوں
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں نے عوام کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور معیشت
تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اپنے کپڑے بیچنے والے وزیر اعظم نے وہ
طلسماتی چشمہ پہن رکھا ہے جس سے عوام کی مشکلات کا احساس ہی ختم ہوگیا
انھیں ہر طرف تباہی کی بجائے خوشحالی ہی خوشحالی نظر آرہی ہے حکومت کی ناقص
پالیسیوں کی وجہ سے معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورت حال بھی
انتہائی خراب ہو رہی ہے دنیا کا بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود لوگ آٹے کی
قطاروں میں کھڑے ہیں ملک معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے مفلوج ہوتا جارہا
ہے پی ڈی ایم کی 14جماعتیں مرکز اور بلوچستان میں اقتداری سیاست سے چمٹی
ہوئی ہیں ن لیگ 1985 سے اقتدار میں ہے پیپلزپارٹی پندرہ برسوں سے سندھ میں
حکومت کر رہی ہے لیکن کسی جگہ بھی امن، ترقی اور خوشحالی نہیں ہے بیڈ
گورننس، تباہ حال معیشت اور امن و امان کی خراب صورت حال سمیت بلوچستان اور
سندھ میں سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے شدید سرد موسم میں بے آسرا بیٹھے
ہیں جو حکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسکے ساتھ ساتھ ملک سیاسی
بحران کے ساتھ معاشی طور پر دیوالیہ ہو رہا ہے اور حکمرانوں کو اپنی
خاندانی سیاست بچانے کی فکر ہے موروثی نظام سیاست سے بہتری کی امید رکھنا
دانشمندی نہیں خاندانوں میں منقسم سیاسی جماعتیں اپنے علاوہ کسی کو پارٹی
قیادت دینے پر رضامند نہیں اقتدار پر دو خاندانوں کے قبضے سے ملک آج تعلیم،
صحت، معیشت، نظام عدل و انصاف اور بنیادی ضرویات کی فراہمی میں سب سے پیچھے
نظر آتا ہے دونوں بڑی جماعتیں باری باری اقتدار کا جھولا جھولنے کے بعد اب
اکھٹے برسراقتدار ہیں ملک میں مہنگائی ختم کرنے کیلئے اپنے کپڑے بھیجنے
والے غریب عوام کے کپڑے اتارکرآئی ایم ایف کی فرمائشوں کی تکمیل کررہے ہیں
اور تو اور صوبائی حکومتیں عوام کو آٹا فراہم نہیں کرسکتی سندھ اور
بلوچستان والے پہلے گلیوں اور سڑکوں کے تعمیر کو روتے تھے اب حکمرانوں کی
نااہلی سے کیا غریب کیا امیر روٹی اور آٹے کی قیمت میں اضافے کو رو رہے ہیں
جو حکومت عوام کو سستا آٹا فراہم نہیں کرسکتا وہ عوام کو اور کیا سہولیات
فراہم کریں گیں یہ لوگ غریب عوام کے لیے بھیک مانگنے بھی جاتے ہیں تو وفد
کی صورت میں سرکاری خرچ پر کروڑوں روپے لٹا آتے ہیں خود اربوں پتی ہیں مگر
انکے اندر اتنا بھی حوصلہ نہیں کہ سرکاری مراعات ہی ختم کردیں قائد اعظم کے
اس پاکستان کو بے دردری سے لوٹنے اور مراعات لینے والوں نہ اس نہج تک پہنچا
دیا جو قائدا عظم کے خواب میں بھی نہیں تھا کیونکہ انہوں نے تو بطور گورنر
جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے ڈیڑھ روپے کا موزہ لینے سے انکار کر تے ہوئے
کہاکہ غریب مسلمان ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہیئے ایک
مرتبہ سرکاری استعمال کے لئے 37 روپے کا فرنیچر لایا گیا قائد اعظمؒ نے لسٹ
دیکھی تو سات روپے کی کرسیاں اضافی تھیں آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہیں تو کہا
گیا کہ آپ کی بہن فاطمہ جناح کے لیے تو آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے
پیسے فاطمہ جناح سے لواسکے علاوہ کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں قائد
اعظم محمد علی جناحؒ نے منع کر رکھاتھا کہ کچھ بھی کھانے کیلیے نہ دیا جائے
ہمارے حکمران ابھی حلف نہیں اٹھاتے اور انکا پروٹوکول شروع ہوچکا ہوتا ہے
جبکہ قائد اعظم ایک دفعہ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک
بند ہو گیا آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر
جنرل آئے ہیں پھاٹک کھولو مگر ہمارے عظیم لیڈر اور بانی پاکستان نے فرمایا
کہ نہیں اسے بند رہنے دو میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول
پر مبنی ہو ہم نے انکی تمام باتوں کو الٹی شکل دیدی پروٹوکول خوب انجوائے
کرتے ہیں لوٹ مار کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور عوام کو دن بدن
مشکلات کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں پنجاب اسمبلی اب ختم ہو چکی عنقریب کے پی
کے اسمبلی بھی ختم ہو جائیگی سندھ اور مرکز سے بھی پی ٹی آئی اراکین مستعفی
ہو رہے ہیں آنے والے حالات الیکشن کی طرف جارہے ہیں اس صورتحال میں بھی کچھ
لوگ چاہتے ہیں کہ یہ سسٹم کچھ عرصہ کے لیے لپیٹ دیا جائے پسند اور ناپسند
کی بنیاد پر احتساب کا عمل شروع ہو اور اتنی دیر میں پی ٹی آئی سے وابسطہ
لوگوں کے اسکینڈل منظر عام پر لائے جائیں تاکہ عوام عمران خان سے منہ موڑ
لیں مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہاں ہر جماعت کے رہنما سے لیکر قائدین اور
پھر ان سے وابسطہ افراد نے خوب دیہاڑیاں لگائی ہیں کچھ نے پاکستان میں
جائیدادیں بنارکھی ہیں تو کچھ اپنا سرمایہ یہاں سے نکال کر بیرون ملک لے
گئے ہیں اس لیے یہاں احتساب کے نام پر ڈرامہ اچھا چلتا رہا ہے جو اب نہیں
چلے گا کیونکہ یہاں پر تو احتساب کرنے والے خود لائق احتساب بنے ہوئے ہیں
ضرورت صرف الیکشن کی ہے وہ بھی جنرل اگر یہ نہ ہوئے تو ہمارے معاشی حالات
اتنے بگڑ سکتے ہیں کہ پھر قابومیں آنے مشکل ہو جائینگے اور عوامی خدمتگار
باہر بیٹھ کر لوگوں کی بے بسی کا تماشا دیکھیں گے ۔
|