پاکستان آخرکار ہندوستان سے بہتر تعلقات کیلئے تیار

کیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان رشتے مضبوط اور خوشگوار ہوپائینگے۰۰۰؟ کیا پاکستانی حکمراں و اپوزیشن اور ہندوستانی حکمراں و اپوزیشن ان دونوں ممالک کے درمیان خوشحالی دیکھنا پسند کرتے ہیں۰۰۰؟ دونوں ممالک کے عوام چاہتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہوں تاکہ اس سے اپنے ملک کی معیشت بہتر ہوسکے۔ پاکستان جو ان دنوں مشکل ترین معاشی بحران کا شکار ہے اور عالمی سطح پر معیشت کے استحکام کیلئے پاکستان کو امداد طلب کرنی پڑرہی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف بھی اپنے ملک کی خستہ حال معیشت کو قبول کرتے ہوئے دنیا کے متمول ممالک سے تعاون کی درخواست کررہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو ان دنوں مشکل ترین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔عرب ٹیلویژن کودیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کرپشن کے معاملے پر ہماری پالیسی ’زیرو ٹالیرنس‘ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے برادرانہ تعلقات ہیں۔ ہم اسلام کو سلامتی کا مذہب ثابت کرنے کیلئے خلیجی ملکوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔پاکستان خلیجی ملکوں کی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کام کر رہا ہے۔ میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ بنیادی مسائل حل کرکے پرامن ہمسائے کے طورپر رہنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 3 جنگیں ہوئیں جن کا نتیجہ غربت اور بیروزگاری کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو سنجیدہ اور مثبت مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔ پاکستان اور بھارت کو فضول کی کشمکش اور دشمنی سے نکلنا ہوگا اور دونوں ملکوں کو عوام کی ترقی کیلئے کام کرنا ہوگا، اگر ہندوستان اپنا رویہ تبدیل کرکے مذاکرات کرے تو ہمیں تیار پائے گا‘‘۔شہباز شریف نے مشرقی یورپ میں کشیدہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کو چین اور امریکہ کے درمیان پل کی حیثیت قراردیا۔

سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا موجودہ بی جے پی دورِ حکومت میں ہندوستان او رپاکستان کے درمیان رشتے خوشگوار نوعیت اختیار کرسکتے ہیں ؟ ہندوستان اور پاکستان جوہری ہتھیار وں سے لیس ہیں۔ دونوں ممالک کواپنی فوجی طاقت پر ناز ہے اور ہونا بھی چاہیے، کیونکہ ہم جس طرح اپنے ملک ہندوستان کی فوجی طاقت کو جتنا مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ویسا ہی پاکستانی شہری بھی اپنی فوج کو طاقتور اور مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ فوجی طاقت مضبوط رکھنا ہر ملک کے ضروری ہے کیونکہ اس سے دشمن طاقتیں اور دشمن ممالک ڈرو خوف کے سایہ میں رہتے ہیں یا کسی بھی قسم کا حملہ کرنے سے احتیاط برتتے ہیں، لیکن ان ہتھیاروں اور طاقت کے نشے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمیشہ لڑائی جھگڑا کرنا دونوں ممالک کی تباہی کی وجہ بنا رہتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے پاکستان ان دنوں خطرناک معاشی بدحالی کا شکار ہے ۔ سیلاب نے پاکستان کو مزید متزلزل کرکے رکھدیا ہے جس کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے رکن ممالک سے پاکستان کو امداد دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، پاکستان کو معاشی تعاون فراہم کرنے کیلئے عالمی سطح پر مثبت ردّعمل کا اظہار ہورہا ہے۔ ایک طرف ہندوپاک کے درمیان رشتوں میں قربت کی کوشش کی جاتی رہی ہے تو وہیں دوسری جانب اسکے خلاف آوازیں بھی اٹھتی رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوپاک کے درمیان ہر دور میں حالات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ان دنوں پاکستان میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو رہی ہے، جس میں مودی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو بھیک کا چپا لے کر مانگنے کیلئے مجبور کر دیا ہے۔ یہ ویڈیو کلپ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی جانب سے وائرل کی جا رہی ہے کیونکہ اس وقت موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف معاشی بدحالی کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک سے مالی مدد مانگ رہے ہیں، ان دنوں پاکستان میں شدید مالی بحران کے ساتھ ساتھ اناج کا بحران بھی ہے۔ وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی اس ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہیکہ اب وہ پاکستان کی نیوکلیر دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس جو نیوکلیر ہتھیار ہیں وہ دیوالی کے لیے نہیں رکھے گئے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق شہباز شریف نے یہ بھی کہا ہیکہ پاکستان ایک نیوکلیر طاقت ہوتے ہوئے دوسرے ممالک سے مدد مانگ رہا ہے جو شرمناک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ ویڈیو کلپ 2019 کا بتایا جاتا ہے، جس وقت عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے اور وہی ویڈیو کلپ عمران خان نے شہباز شریف حکومت کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔عمران خان جس وقت وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیے وہ اپنی پہلی تقریر میں ہندوستان سے کہے تھے کہ آپ ایک قدم آگے بڑھاؤ اور ہم دو قدم آگے بڑھائینگے۔ عمران خان ،ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی کئی مرتبہ تعریف کرتے رہے ہیں۔ اب جبکہ پاکستانی معیشت کا بُرا حال ہے ۔ ان حالات میں پاکستان اپنے دوست ممالک سے مدد لینے میں سرگرم عمل دکھائی دے رہا ہے ، سعودی عرب نے 11 بلین ڈالر کی مدد کی ہے۔پاکستانی وزیر خزانہ اسحق ڈار کے مطابق متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو دیئے گئے 2ارب ڈالر کے قرض کی مدت میں توسیع کردی ہے۔اس توسیع سے متعلق وزیر خزانہ کا کہنا ہیکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے باعث اس مدت میں توسیع کی گئی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو اس حال تک پہنچانے کیلئے ذمہ دار نواز شریف، اوربھٹو خاندان بتائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے ملک کی دولت دوسرے ممالک کو منتقل کر دی ہے۔ پاکستان کئی لیڈرس اربوں ڈالر کا مالک بتایا جاتاہے، اگر یہ دولت وہ اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے خرچ کریں تو بحران سے نکلا جاسکتا ہے اور پاکستان کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ پاکستان میں اس وقت ایک کلو آٹے کی قیمت کم و بیش 150 روپے، پکوان کا تیل 580 روپیے کلو، پیاز 280 روپے کلو اور ایک انڈے کی قیمت بھی تقریباً25روپیے تک پہنچ گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر(پاکستان) میں آٹے کیلئے 5 کلو میٹر طویل لائن دیکھی گئی۔ اس معاشی بحران کے نتیجے میں بتایا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں موافق ہندوستان تحریک کو تقویت مل رہی ہے اور ہندوستانی چینلس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جنگ کے بغیر ہندوستان نے آدھا مقبوضہ کشمیر جیت لیا ہے۔ ہندوستانی کشمیر کا مسئلہ چھیڑنے کے بجائے پاکستان کو اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے اور یہ پاکستانی عوام بھی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف حکومت اپنے عوام اور ملک کی خوشحالی کیلئے کام کریں۔
ویسے تو کئی ممالک کے نامور سیاستداں اربوں ڈالر کے اثاثے رکھتے ہیں اور اسی کے تحت وہ اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری جو ارب پتی سیاستدانوں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ان کے زیادہ تر اثاثے متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ 4 کمپنیوں کو وہ دیڑھ ارب روپے قرض دے چکے ہیں۔ ان کے والد آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان کی ہزاروں ایکر زمینیں ہیں، دبئی میں اثاثے ہیں اور 676.87 ملین کی کل جائیداد سمجھی جاتی ہے۔ شہباز شریف کے 247.49 ملین روپے کے اثاثے ملک اور بیرون ملک ہیں۔ ان کی اہلیہ نصرت شہباز کے 235.21 ملین کے اثاثے ہیں، شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ شہباز کی بھی کافی جائیدادیں ہیں۔ نون لیگ کے ایم پی احسان باجوا 4 بلین روپیوں کے مالک بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر شخصیات میں نور عالم خان 3.2 بلین کے مالک ہیں۔ ارباب عمر جنا کا تعلق پشاور سے ہے 2.75 بلین روپیوں کے مالک ہیں۔ نجیب ہارون کراچی، مونس الٰہی مسلم لیگ ق، نور الحسن تنویر، عمر ایوب بھی ارب پتی سیاست دانوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان ملک کے امیر ترین دس ارب پتیوں میں شامل ہیں جن کے 108 ملین روپے کے اثاثے ہیں۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف قمرجاوید باجوہ جنہیں بعض حلقوں کی جانب سے بدعنوان ترین فوجی سربراہ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے ان کے اثاثے لگ بھگ 13 بلین پاکستانی روپیوں کے برابر بتائے جارہے ہیں۔ گزشتہ 6 سالوں کے دوران قمرجاوید باجوہ کے ارکان خاندان ارب پتی بن گئے ہیں۔ ان کی اہلیہ عائشہ امجدسے متعلق بتایا جارہا ہے کہ وہ 2016 میں کسی قسم کی جائیداد نہیں رکھتی تھیں مگر 2022 میں وہ 2.2 بلین روپیوں کی مالک بن گئیں۔ ایک کمپنی انکے میں 15000 شیئرس ہیں۔ پاکستان کو حالیہ سیلاب کے بعد کافی بیرونی امداد حاصل ہوئی اور ہورہی ہے۔ اس رقم کے متعلق بھی سمجھا جارہا ہے کہ یہ رقم بھی متاثرین پر خرچ کرنے کے بجائے سیاستدانوں کی تجوریوں میں چلی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو اس کے سیاستدانوں اور بعض حکومتی عہدیداروں نے کنگال بنا دیا اوراب یہ ملک دیوالیہ ہونے کی نوبت تک پہنچ گیا ایک ایسے وقت جب عمران خان نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتے تھے۔ ان کے خلاف سازش رچی گئی، ان کا تختہ الٹا گیا ۔ عوام نے عمران خان کی آواز پر متحد ہوکر تختہ الٹنے والو ں کو بتادیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ معاشی بحران ،عوامی خلفشار اس ملک کی مزید تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں۔اسی لئے پاکستان حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جیبیں گرم کرنے کے بجائے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے لگائے۔ ورنہ دنیا کے کسی بھی ملک میں وہ پناہ لے لیں انہیں دوسرے ممالک والے حقیر نظر سے دیکھ سکتے ہیں ۰۰۰
امریکہ۰۰۰عراق کی دولت ہڑپنے کا خواب ادھوراہی چھوڑ گیا

عراق میں امریکہ کو ناکامی ہوئی اور ملک میں جمہوریت بحال ہوگئی۔ امریکہ 2003میں جس وقت مردِ آہن صدام حسین عراق کے صدر تھے ، عالمی سطح پر صدام حسین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اورعالمی سطح پر مسلمانوں میں صدام حسین سے محبت نے امریکہ اور دیگر ممالک کے حکمرانوں میں ڈرو خوف پیدا کردیا تھا اور ایک بہانے سے صدام حسین پر الزام عائد کرکے عراق پر خطرناک حملے کرتے ہوئے اسے تباہ و برباد کردیا اور صدام حسین کو گرفتار کرکے انہیں پھانسی پر لٹکا کر شہید کردیا گیا۔ صدام حسین یوم عرفات کے دن پھانسی دی گئی اور یہ مردِمجاہد کلمہ طیبہ کی صداؤں کے ساتھ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملاجس کی ویڈیو عالمی سطح پر دیکھی گئی۔تیل کے ذخائر سے مالامال دنیا میں دوسرے نمبر پر رہنے والے عراق پر امریکہ قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے شدید ناکامی کا شکار ہونا پڑا۔امریکہ عراق میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی دیوار کھڑی کرنا چاہتا تھا‘ اس نے اس مقصد کیلئے مقتدالصدر کو استعمال بھی کیا۔ مگر آج عراق میں مقتدر الصدر کی جماعت ایران کی دوست ہے۔بش اور اسکے بعد والے صدور عراق پر حکومت کرنے کے خواب دیکھتے رہ گئے ۔ جیسا کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ نے صدر امریکہ کی حیثیت سے جب عراق کا دورہ کیا تب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بازوقدس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ میجرجنرل قاسم سلیمانی کو 3؍ جنوری 2020میں ڈرون حملہ میں ہلاک کروایا جس میں ابو مہدی المہندس اور دس دیگر افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ ایک سال بعد عراقی سپریم کورٹ نے امریکی صدر ٹرمپ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا‘ کیا ایسا تصور بھی کیا جاسکتا تھا۔ ابھی حال ہی میں عراقی صدر محمد شیعہ السودانی اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے جنرل سلیمانی کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی اور کہا کہ ان کی شہادت رائیگاں نہ جائے۔ وقت اور حالات بدل گئے۔ عراقی تیل کی دولت پر قبضہ امریکہ کا خواب ادھورا رہ گیا۔ سمجھا جارہا ہے کہ عراق کو اب اپنی دولت کی حفاظت کا سلیقہ آچکا ہے۔ خلیجی جنگ کے دوران جو عراقی ملک سے چلے گئے تھے وہ اب واپس آنے لگے ہیں۔ تیل کی پیداوار میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ فی کس آمدنی جو 2003ء کی جنگ سے پہلے 1200 ڈالر تھی اب 5000 ڈالر فی کس ہوچکی ہے۔ عراق میں انتخابات ہوئے‘ جمہوریت بحال ہوئی اور بے چارہ امریکہ اپنی فوج اور معیشت کو بچانے کیلئے عراق سے ناکامی منہ لے کر واپس ہوا۰۰۰

فلسطینی علاقوں سے اسرائیل تسلط برخواست کرنے کی مانگ
اسرائیل کی جارحیت اور ظلم و زیادتی اب ختم ہونی چاہیے۰۰۰ نیتن یاہو کی حکمرانی میں فلسطینی علاقوں پرمزید قبضے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں ۔ عالمی سطح پر اسرائیل سے مانگ کی جارہی ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرے اور فلسطینی عوام کو خوشحال زندگی گزارنے کی راہیں فراہم کئے جائیں۔ فلسطینیوں کو کسی نہ کسی بہانے کے ذریعہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور انکی املاک کو تباہ و برباد کرکے انکی جائیدادو ں کو ہڑپ لیا جانا یہ اسرائیلی یہودیوں کا شیوہ رہا ہے۔ اسی کے خلاف عالمی سطح پر پھر ایک مرتبہ آواز اٹھائی گئی ہے ۔ارجنٹینا کے بشمول 40 ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کو ہٹا دے، یاد رہے کہ 30؍ دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی تسلط برخواست کرنے کی مانگ کی تھی۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کی رائے کی بنیاد پر یہ مانگ کی گئی تھی۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں فلسطینی اتھاریٹی کے خلاف کئی پابندیاں عائد کردیں جن میں مالی امداد پر پابندی بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن 40 ممالک نے بین الاقوامی عدالت انصاف کی رائے کی حمایت کی ہے اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام پر عائد کردہ پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان ممالک میں جنہوں نے قرارداد پر دستخط کیے الجیریا، ارجنٹینا، بلجیم، آئرلینڈ، پاکستان، جنوبی افریقہ قابل ذکر ہیں۔ قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والوں میں جرمنی اور اسٹونیا شامل ہیں۔ فرانس اور ساؤتھ کوریا قرارداد کی پیشی کے دوران غیر حاضر رہے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اسرائیلیوں کے جبری داخلے کے بعد حالات بگڑ گئے تھے۔
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.