کم ظرفی اور اعلیٰ ظرفی میں ایک فرق یہ بھی ہے اول الذکر
نزدیک کے فائدے کے لیے دور کا نقصان کربیٹھتا ہے اور اعلیٰ ظرف کا حامل
دائمی منافع کی خاطر عارضی خسارہ سہہ لیتا ہے۔عصرِ حاضر کے نام نہاد چانکیہ
وزیر داخلہ امیت شاہ نے گجرات کا صوبائی انتخاب جیتنے کی خاطر ایک ایسی
غلطی کردی جس سے نہ صرف ماضی کے کیے کرائے پر پانی پھر گیا بلکہ مستقبل میں
بھی مدافعت کا دروازہ بند ہوگیا۔ وہ جب عوامی جلسوں میں اچھل اچھل کر کہتے
تھے کہ ’بیس سال قبل ہم نےفسادیوں کو ایسا سبق سکھایا کہ پھر اس کے بعد
گجرات میں امن قائم ہوگیا اور کرفیو لگنا بند ہوگیا ‘ تو لوگ تالیاں بجاتے
تھے۔ اس وقت انہیں پتہ نہیں تھا کہ ان کا یہ غیر ذمہ دارانہ بیان بیس سال
سے جاری مودی جی کا لیپا پتی یعنی فساد کو روکنے کی ذمہ داری بحسن و خوبی
ادا کرنے کے جھوٹ کی قلعی کھول دیتا ہے۔ وہ بھول گئے تھے آگے جب بھی ان کے
رہنما اور پارٹی پر فساد بھڑکانے کا الزام لگے گا تو اسے مسترد کرنا مشکل
ہوجائے گا۔ بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ میں اس کا ایک نمونہ پیش کیا تو اس
کی تردید کرتے کرتے ان کے ہم منصب جئے شنکر کے پسینے چھوٹ گئے ۔
بی بی سی کی تازہ دستاویزی فلم انڈیا: دی مودی کویسچن میں جب یہ سوال
اٹھایا گیا کہ مودی بطور وزیر اعلیٰ 2002 کے گجرات فسادات کو روکنے اور
تشدد میں ملوث فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟ تو وزیر
داخلہ کو آگے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ ہم ناکام نہیں ہوئے۔ ہم ریاست میں
دیرپا امن قائم کرنے کی خاطر سبق سکھا رہے تھے اور اس میں ہمیں زبردست
کامیابی ملی ۔ اس کے بعد نہ صرف ہم نے لگاتار چار صوبائی انتخابات میں
کامیابی حاصل کی بلکہ جس وزیر اعلیٰ نے سبق سکھایا تھاوہ گجرات کا ماڈل
دِکھا کر ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔ اس لیے ہم اس سبق سکھانے پر نادم نہیں
ہیں بلکہ نازاں ہیں لیکن شاہ جی خاموش ہیں مودی جی کچھ نہیں بولتے۔ وزارت
خارجہ کے ترجمان کو اس کے برعکس اسے تردید کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔
بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی
’متعصب‘ کہہ ر ہے ہیں ۔ ان کے مطابق اس میں ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ اور
’جانبداری‘صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ عجب تماشا ہے کہ وزیر داخلہ تو فساد کا
کھلے عام نہ صرف کریڈٹ لیں اور اس پر فخر جتائیں تو وہ درست مگر وہی بات بی
بی سی کہے تو غلط اورناقالِ ردعمل کہہ کر مذمت کرنا کون سی دانشمندی ہے؟ بی
بی سی کا دعویٰ ہے کہ اس نے مفصل تحقیق کرکے ڈاکیومنٹری بنائی ہے اور اس
میں بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت مختلف لوگوں کا مؤقف شامل کیا گیا ہے۔ بی بی
سی نے یہ وضاحت بھی کی کہ اس نے حکومتِ ہند کے جواب کا حق تسلیم کرتے ہوئے
اس کا موقع دیا تھا مگر اس نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اس طرح جواب دینے
سے پہلو تہی کرنا موقف کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھگتوں کے ذریعہ بی
بی سی کو نوآبادیاتی دور کا ماؤتھ پیس قرار دے کر فلم کو مسترد کرنے سے بات
نہیں بنتی اور جہاں تک بی بی سی کے خلاف کارروائی کا تعلق ہے وہ تو ہند
نژاد برطانوی وزیر اعظم رشی سونک بھی یہ نہیں کرسکتے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم کو دو حصوں میں
تقسیم کیا گیا ہے ۔ اس کا پہلا حصہ 17 جنوری کو نشر ہوا نیز ہ اس کی دوسری
قسط یوم جمہویہ سے دو دن قبل 24 جنوری کوپیش کی جائے گی۔اس ڈاکیومنٹری میں
یہ اعتراف موجود ہے کہ نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما
ہیں۔ انھیں دو بارہندوستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے کی سعادت ملی اور ان کو
اپنی نسل کا سب سے طاقتور سیاستدان مانا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کی تعریف میں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مغربی ممالک انھیں ایشیا میں چینی تسلط کے خلاف دفاع
کے طور پر دیکھتے ہیں ۔وہ امریکہ اور برطانیہ دونوں اہم اتحادی ہیں۔ بات
یہیں پر ختم ہوجاتی تو بعید نہیں کہ بی بی سی کی اس فلم کے ہدایتکار یا
فلمساز کو یوم جمہوریہ کے موقع پر انعام و اکرام سے نوازہ جاتا لیکن انڈیا:
دی مودی کویسچن کی پہلی قسط میں نریندر مودی کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں
شمولیت سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں عروج تک کے اہم واقعات کے ساتھ
گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے تک کہانی اور 2002 کے فسادات پر ان کا ردعمل اور
اس سے متعلق تنازع بھی شامل کردیا گیا ۔ یہی بات مودی سرکار کو پریشان
کررہی ہے۔ اس فلم میں نریندر مودی کی ہندوستان کی مسلمانوں کے تعلق اپنائے
گئے رویہ کا جائزہ لیا گیا اور مودی سرکار پر لگنے والے الزامات کا محاکمہ
کرکے اس کی وجوہات پیش کی گئی ہیں۔حکومتِ گجرات پر لگنے والے الزامات کی
تحقیق کرنے کے بعد ان کی حقیقت بیان کرنا مودی سرکار کے لیے دردِ سر ہے ۔
اس دستاویزی فلم میں مودی کی پس پردہ کہانی اورہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی
اقلیت کے حوالے سے ان کی سیاست پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیا گیا
ہے۔اس میں ہوا ہوئی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ دستاویزی فلم برطانوی دفتر
خارجہ کی ایک غیر شائع شدہ رپورٹ پر مبنی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ
2002 میں گجرات میں پُرتشدد ماحول پیدا کیا گیا اور مودی اس کے لیے ’براہ
راست قصور وار‘ ہیں ۔ اس رپورٹ کو بیس سال بعد ریلیز کیا گیا ۔ وزیر اعظم
نریندر مودی کی تردید کے باوجود برطانوی دفتر خارجہ کی رپورٹ لکھنے والے
برطانوی سفارتکار آج بھی رپورٹ کے نتائج پر قائم ہیں۔برطانوی سفارتکار کا
دعویٰ ہے کہ ان کی تحقیقات کے مطابق 2002 میں گجرات کے اندردو ہزار لوگ ایک
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل ہوئے۔ اس قتل عام کو نسل کشی سے منسوب کیا
گیا ہے۔بی بی سی آج بھی اپنے نتائج کے درست ہونے کا یقین ہے۔
سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا کی ہدایت پر تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی گئی
تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پُرتشدد واقعات کی شدت ذرائع ابلاغ میں چلنے
والی خبروں سے کہیں زیادہ تھی اور ان فسادات کا مقصد مسلمانوں کو ہندو
اکثریتی علاقوں سے نکالنا تھا۔ جیک سٹرا کے لیےاب بھی رپورٹس میں شامل
حقائق حیران کن تھے۔ ان میں وزیر اعلیٰ مودی کے کردار کے حوالے سےسنگین
الزامات تھے اور یہ باتیں سامنے آئی تھیں کہ پولیس کو پیچھے رکھا گیا جبکہ
ہندو انتہا پسندوں کو اُکسایا گیا۔ اس رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر وجہ جیک
سٹرا کے اس جواب میں پوشیدہ ہے ۔ وہ اعتراف کرتے ہیں ان کے پاس محدود راستے
تھے۔ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ نا برطانیہ کے لیے ممکن نہیں تھا
لیکن اس سے مودی کی ساکھ کو نقصان ہوا۔
یہ دستاویزی فلم پر برطانوی ایوان پارلیمان میں بحث کا موضوع بن گئی ۔
ایوان کے پاکستانی نژاد رکن عمران حسین نے وزیر اعظم رشی سونک سےسوال کیا
کہ کیا وہ سفارتکاروں کی اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہیں اورپوچھا کہ وزارت
خارجہ کے پاس اس معاملے پر مودی سے متعلق مزید کیا معلومات ہےتو برطانوی
وزیر اعظم نے گول مول جواب دیا ۔ رشی سونک نے کہا کہ برطانوی حکومت کا
ہمیشہ سے یہ واضح مؤقف رہا ہے کہ ہم دنیا میں کہیں بھی ظلم کو برداشت نہیں
کرتے۔ تاہم میں معزز ایم پی کی جانب سے کی گئی بات سے بالکل اتفاق نہیں
کرتا۔‘ رشی سونک کے جلیبی جیسے میٹھے اور پیچیدہ بیان پر ثاقب لکھنوی کا یہ
شعر صادق آتا ہے کہ؎
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
بی بی سی نے اپنی جرأتمندی سے گودی میڈیا اور آزاد ذرائع ابلاغ کا فرق
کھول کر دکھا دیا ۔ اس کا ترجمان ببانگ دہل کہتا ہے کہ ’بی بی سی دنیا بھر
کے اہم مسائل پر آواز اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس دستاویزی فلم میں
ہندوستان کی ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے درمیان تناؤ کا جائزہ لیا گیا
ہے اور اس کشیدگی کے تناظر میں وزیر اعظم مودی کی سیاست پر نگاہ ڈالی گئی
ہے۔بی بی سی کے مطابق اس دستاویزی فلم کے لیے شاہدین ، تجزیہ نگاروں اور
عام لوگوں سے بات کی گئی ہے۔ ان میں بی جے پی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس فلم
میں سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔اس میں وہ سارے
الزامات کی پرزور تردید کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا جاتاہے کہ انہیں کسی بات کا
افسوس ہےیا آئندہ ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو کیا کریں گے؟ اس کے جواب
میں وہ فرماتے ہیں کہ مجھے میڈیا کو ٹھیک سے مینیج نہیں کرپانے کا افسوس
ہے۔ آئندہ میڈیا کو بہتر انداز میں ہینڈل کریں گے۔
ہندوستان کی حدتک تو مودی جی نے اقتدار اور دولت کے زور پر سبھی بڑے چینل
کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے لیکن عالمی سطح پر وہ ایسا نہیں کرسکے۔ بی بی سی
آج بھی ان کے چنگل سے آزاد ہے۔ ابھی تو اس فلم کی پہلی قسط نشر ہوئی ہے
جس میں ماضی بعید کا جائزہ لیا گیا ۔ اس کی دوسری قسط میں 2019 کے بعد
نریندر مودی کی حکومت کا ٹریک ریکارڈپیش کیا گیا ہے۔ اس میں گجرات جیسا
فساد تو نہیں ہے مگر ’کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئین کی دفع 370 کے خاتمہ
اور شہریت کے نئے قانون جیسے کئی متنازع معاملات کا جائزہ موجود ہے۔ ملک
میں ہجومی تشدد اور سرکاری مظالم کے واقعات مودی حکومت کے لیے بڑی مصیبت بن
سکتے ہیں۔ حکومت ہند اس کو ہندوستان کے اندر نشر و اشاعت کی اجازت نہیں دے
گی لیکن یہ اپنے آپ میں ایک بدنام کرنے والااقدام ہے نیز اس کو دنیا بھر
کے لوگ دیکھیں اور اس کی روشنی میں جی ٹوینٹی ممالک کے سربراہ کو جانچیں
گے۔ مودی جی نے ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر جگہ کلین چٹ حاصل کرلی
لیکن بی بی سی کی بوتل سے نکلنے والا گجرات کا جِن شاہد ہے کہ دنیا کی نظر
میں وہ اب بھی فساد کے ذمہ دار ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ ان کی حالت امیر
مینائی کے اس شعر کی سی ہے؎
قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
|