عبد الغنی محتشم : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی -۳

مرحوم کا کاروباری تعلق ہوٹل، کیفٹیریا اور بیکری کے تجارت سے تھا، اس میدان وابستہ شخصیت نرم شریف اور ڈھیلی ڈھالی ہوتو ایک روز بھی کام نہ چل سکے ، جس زمانے میں آپ نے آندھرا میں یہ تجارت شروع کی تھی ، اس زمانے میں تحکمانہ انداز کی ضرورت کچھ زیادہ ہی تھی ، یہ ضرورت مرحوم کی ایک شناخت بن گئی جسے آپ نے اجتماعی مسائل کے حل اور اداروں کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے بخوبی استعمال کیا ۔ آپ کے ایک رفیق بیان کرتے ہیں کہ کالیکٹ میںمنعقدہ ایک میٹنگ کے بعد قوم کی ایک محترم شخصیت ایس یم سید محی الدین مولانا مرحوم آپ کو یرناکولم (کوچین ) لے گئی ، آپ کے اسٹیل فرم کو مختلف قرض داروں سے رقم واجب الوصول تھیں ، سید محی الدین صاحب نے ان کی وصولیابی کی ذمہ داری مرحوم کو سونپی ، اب یہ قافلہ ہنسی مزاق کرتے ہوئے گھوم پھر بھی رہا تھا ساتھ ہی ساتھ آپ کی بارعب شخصیت و ہتھیار بناکر وصولی بھی کررہا تھا، آپ کا رعب کچھ ایسا تھاکہ قرض آسانی سے وصول ہورہے تھے۔

آپ کے فرزند فیاض واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انجینیرنگ کالج کے ابتدائی ایام میں طلبہ کو سہولتیں میسر نہ ہونے کی شکایت ہونے لگی اور طلبہ میں بے چینی پیداکی جانے لگی ، صورت حال یہاں تک پہنچی کہ طالب علم رہنما عثمان علی کی قیادت میں کوئی تین چار سو احتجاجی طلبہ نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا ،اس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ طلبہ گستاخی کرکے ہاتھ چلانے یا توڑ پھوڑ تک نوبت نہ لے جائیں، لہذا خاموشی سے وہ اور ان کے دو ایک ساتھی ناگفتہ حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں لگ گئے ، جس کی اطلاع مرحوم کو نہیں دی گئی ، اس وقت مرحوم کی جرات دیکھنے کے قابل تھی ، تن تنہا ہجوم کے سامنے نکلے اور لیڈر طالب علم کا کالر زور سے پکڑ کر اس طرح اٹھایا کہ سارا ہجوم ہکا بکارہ گیا ، آپ نے انہیں خوب ڈانٹ کر گھر بھیجدیا، ایسے بہت سارے واقعات آپ کی زندگی میں دیکھنے میں آئے ۔ ہجوم پر کنٹرل کرنے کا یہی فن تھا کہ بڑے بڑے پولیس آفیسر بھی مشکل حالات میں کنڑول کرنے کے لئے آپ کو یاد کیا کرتے تھے ، 1992ءکے فسادات وغیرہ کے موقعہ پر ایسی کئی ایک مثالیں سامنے آئیں۔

جب آپ کا انتقال ہوا تو صرف وجے واڑہ میں آپ کے کاروبار میں بھٹکل کے چار سو افراد ملازم تھے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پندرہ ہم خیال پارٹنروں اور ملازمین کی یہ تعدا د کتنی انتظامی صلاحیتوں کا تقاضہ کرتی ہے، ہماری ناقص رائے میں ایسی کامیاب شراکت کی دوسری مثال بھٹکل کے تاجرحلقہ میں پہلے نہ بعد میں نہیں ملتی ، آئندہ کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس کا نتیجہ تھا کہ آپ کا کاروبار ایک ٹریننگ اسکول بن گیا ، قوم کے سینکڑوں افراد نے یہاں سے کاروبار کے گر سیکھے ، ہزاروں نے یہاں سے کسب معاش کیا ،تعلقات کی وسعت اس کا فطری نتیجہ تھا ، یہی وجہ تھی کہ بھٹکلی احباب کے جیب میں ہاتھ ڈال کر عطیات نکالنے کی جو صلاحیت آپ میں تھی اس کا ثانی نظر نہیں آیا ، ہمیں بھی آپ کے ساتھ جامعہ کے لئے سعودی عرب کا دوہفتہ کا سفر کرنے کا موقعہ ملا، 1981ءمیں سڑک حادثہ کے بعد جس میں آپ کی ٹانگیں چور چور ہوگئیں تھیں اور روزانہ بڑھنے والے جسم کے وزن کو ڈھونے سے معذرت کا اظہار درد والم کی صورت میں کررہی تھیں ، اس کے باوجود پھرتیلا پن ایسا تھا کہ آپ کے سامنے جوان شرمندہ ہوجاتے ، مقصد کی لگن کا نشہ ہی کچھ ایسا تھا، اس موقعہ پر دیکھا کہ لوگوں نے من مانگے عطیات ہنسی خوشی دے دئے ، کسی کو آپ سے چھپنے کی ہمت نہ کرتے ہوئے بھی لوگ نظر آئے ۔

اللہ نے بر وقت فیصلہ کرنے اور عامة الناس کے موڈ کو پہچاننے کی بھرپور صلاحیت آپ میں ودیعت کی تھی ، یہ صلاحیت دودھاری تلوار کی مانند تھی ، اس صلاحیت سے آپ نے قومی اداروں کا بہت بھلا کیا ، اس سے قوم کو بڑا فائدہ پہنچا، لیکن آپ کا یہ انداز بہت سی شکایتیں جنم لینے یا لوگوں کو آپ سے دور کرنے کا بھی سبب بنا۔

جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ جامعہ کے انتظامی امور سے ابتدا میں وابستگی واجبی سی تھی ، بھٹکل کے علماء سے آپ کے قریبی تعلقات بھی نہیں تھے ، ایسے میں 1976ءمیں آپ کے ایک فیصلہ سے یہ دوری فاصلوں تک پہنچ گئی ، لیکن 1989ءمیں کالیکٹ میں منعقدہ بین الجماعتی کانفرنس نے فارغین جامعہ کو یہ سنہری موقعہ عنایت کیا کہ قوم کو یہ باور کرائیں کہ حضر ت مسیح کے بقول کہ﴾ یہ کان کی نمک ہیں﴿ جس طرح نمک کے بغیر کھانا پھیکا اور بد مزہ ہے ،اسی طرح بھٹکل میں علماءاب اس پختگی تک پہنچ گئے ہیں کہ معاشرے اور سوسائٹی کا اب کوئی کام ان کی فعال شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ، اس کے بعد محسوس ہونے لگا کہ اب علمائے بھٹکل کے سلسلے میں ان کے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی ہے پھر وہ علماءکے مضبوط حامی اور وکیل سمجھے جانے لگے ، ا۔ ہم نے بار ہا مرحوم سے بے تکلفی میں ان کے بعض پرانے موقف یا ددلائے تو ان کاجواب تھا کہ مرور زمانہ اور مشاہدات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی رویے بد ل جاتے ہیں ، اب وہ بیس تیس سال قبل کے عبد الغنی نہیں رہے ہیں۔ مرور زمانے کی تقاضوں کو سمجھنا اور اس کی ضرورتوں کے مطابق اپنے رویوں کو ڈھالنے کی صلاحیت کامیاب انسان کی نشانی ہے۔

بین الجماعتی کانفرنس ، منیری صاحب کے آخری ایام کی رفاقت اور اس پر ہمارے قدیم دوست اور اب کے بزرگ مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی صاحب نائب مہتمم دارالعلوم ندوة العلماءکے اثرات نے بلاشبہ عبد الغنی صاحب کو آخری دنوں میں علمائے بھٹکل کے لئے سیف اللہ بنادیا تھا، جس کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کو ایسے اعزازات سے نوازا جو اس سے قبل بھٹکل کی کسی اور شخصیت کو میسر نہیں آئے ، آپ دارالعلوم ندوة العلماءکی مجلس شوری، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی مجلس شوری اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ، اتنے بڑے اعزازات کے بعد شاید دوسرے اعزازات کا تذکر ہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ڈاکٹریٹ کرنے والے کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ میٹرک بھی پاس ہے۔

آپ نے ان اعزازات کے بعد خود کو اس کا مستحق بنانے کی بھرپور کوشش کی ، آپ نے بھٹکل سے دارالعلوم ندوة العلماءکے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں بھر پور کردا ر ادا کیا ، اس ادارے سے ملحقہ اداروں اور مدارس کے تعاون کے لئے اپنا رسوخ بھرپور انداز سے استعمال کیا ، ان کے فرزند کہتے ہیں کہ جب بھی ان اداروں کے مندوبین عطیات کی فراہمی کے لئے بھٹکل یا وجے واڑہ تشریف لاتے ، ان کے والد انہیں عزت کے ساتھ ان وفود کے ساتھ کرتے تاکہ ان کے حوالہ سے تعاون مل سکے۔

ندوے اور ان کے اکابر سے محبت کی آپ کی یادگار مولانا سید ابوا لحسن علی ندوی اکیڈمی ہے،اس کے قیام ، اس کے استحکام ، قوم سے اس کا اعتراف اور اس کی ترقی کے لئے آپ نے دامے درمے سخنے ہر طرح سے اس کی فکر کی ، اکیڈمی بھٹکل کے اداروں میں غالبا سب سے نیا ادارہ ہے،لیکن دنیا شاہد ہے کہ ترقی کی رفتار میں یہ نوساختہ ادارہ تمام دوسرے اداروں سے بازی لے گیا ، اس کی کامیابی کے پیچھے جہاں اکابر کی دعائیں اور رہنمائیاں کوششیں اور جدوجہد ہے، اس میں عبد الغنی صاحب کی توجہات کااثر عربی مثال کے مطابق شکار میں شیر کے حصہ کے برابر ہے۔

عبد الغنی محتشم اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن بھٹکل جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ میں جب اس کی حیثیت سے زیادہ عظیم الشان تعلیمی ادارے اکیڈمیاں ادھر ادھر پھیلی نظر آتی ہیں تو دعاؤں میں جہاں دوسرے بانیان کے نام یاد آتے ہیں تو آپ کا نام ذہن سے ساقط نہیں ہوتا۔ آپ کے حق میں بھی دعائیہ کلمات ضرور نکلتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت تھا وہ شخص منوں مٹی میں دبنے کے باوجود ، اس یقین کے باوجود کہ اب وہ دوبارہ اس دھرتی پر تاقیامت واپس نہیں لوٹے گا۔ اپنی یاد کو بھلانے نہیں دیتا ، کتنی شاندار زندگی اس دنیا میں جی گیا ، آئندہ زندگی کے لئے کیا اس کے حق میں ڈھیر سارے نیک لوگوں اور بزرگوں کی گواہیاں کافی نہیں ہیں۔
Abdul Mateen Muniri
About the Author: Abdul Mateen Muniri Read More Articles by Abdul Mateen Muniri: 18 Articles with 20210 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.