وزیراعظم آزاد کشمیر اور آنسوؤں کی قیمت

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک سقے کا ایک گدھاتھا جو ہر وقت پانی ڈھوتارہتا اور خوراک کی کمی کی وجہ سے لاغر اور سست رہتا بھاری بوجھ کی وجہ سے اُس کی کمر زخمی تھی اور وہ اپنی موت کا خواہاں تھا شاہی اصطبل کا داروغہ اس سقے کا دوست تھا اس نے اس سقے سے گدھے کی کمزوری اور کاہلی کا سبب دریافت کیا تو سقے نے اس کی وجہ خوراک کی کمی او رکام کی زیادتی بتائی اس داروغے نے کہا کہ اس گدھے کو چنددنوں کے لیے شاہی اصطبل میں بجھوادو میں اسے خوراک کھلاکر تندورست وتوانا کردوں گا سقے نے ایسا ہی کیا گدھا شاہی اصطبل میں آگیا اور ا س نے یہاں ہرجانب عربی نسل کے گھوڑے دیکھے سازوسامان ،عمدہ خوراک ،صاف ستھرا ماحول ،گھاس سے لے کر ہر چیز ہروقت حاضر ۔گھوڑوں کی مالش اور خارش کا سامان بھی دیکھا یہ سب دیکھنے کے بعد اس نے آسمان کی طرف منہ کرکے کہا کہ اے پروردگارمیںبھی تیری مخلوق اوریہ گھوڑے بھی تیری مخلوق پھر ہم میں اتنا فرق کیوں ۔۔۔؟ اتنے میں طبل جنگ بجا گھوڑوں پر زین کسی گئی اور سوار ان پر بیٹھ کر میدان جنگ میں چلے گئے وہاں کچھ گھوڑے تو مارے گئے اور کچھ زخمی حالت میں واپس اصطبل لائے گئے ان زخمی گھوڑوں کی جب مرہم پٹی اور تیمارداری ہوتی تو وہ درد سے کراہتے تھے گدھے نے جب ان عربی النسل گھوڑوں کی یہ حالت اور تکلیف دیکھی تو کہنے لگا اے خدامیں اپنے حال میں خوش ہوں اور بے سروسامانی کو ان زخموں کی تکلیف کی وجہ سے سلام کرتاہوں ۔۔۔

قارئین عید کے موقع پر پاکستان اور آزادکشمیر کی خوشحالی کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے ساتھ وہ سلوک دیکھنے میں آیا کہ جس پر شائد آج کی بیان کردہ حکایت کسی نہ کسی صورت میں صادق بیٹھتی ہے اہلیان میرپور نے گزشتہ 50سالوں کے دوران پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دومستقل ہجرتوں کا سفر آنسوﺅں اور سسکیوں کے ساتھ طے کیا دونوں ہجرتوں کے موقع پر سیاستدانوں ،حکمرانوں ،وفاقی اور آزادکشمیر کے اداروں بشمول واپڈا اور محکمہ امور منگلاڈیم نے ان عظیم لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی زبانی یقین دہانیاں کروائیں لیکن عملاً کچھ نہ کیا اور اگر کیا تو ایسے طریقے سے کہ زخموںپر نمک پاشی سے مختلف نہ تھا 1960ءکی دہائی میں پہلی ہجرت کے موقع پر اہلیان میرپور متاثرین منگلاڈیم کو پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں یوں آبادکرنے کی کوشش کی گئی کہ قبیلوں کی اکائیاں بکھرگئیں اور خاندان کے خاندان جدا ہوگئے اور جدائیوں کے اس نتیجہ میں خوشحالی تو دور کی بات روٹی تک کے لالے پڑگئے اور کئی خاندانوں کو زمینوں کے قبضے بھی نہ ملے اور جان اور عزت بچاکر واپس بے سروسامانی کی حالت میں لوٹنے پر مجبور ہوگئے ۔

قارئین حالیہ انتخابات منعقدہ 26جون 2011کے بعد آزادکشمیر میں پاکستان پیپلزپارٹی واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی اور چوہدری عبدالمجید کو جب وزیر اعظم بنایا گیا تو جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کا نظریاتی ورکر خوش ہوا اور ہر جیالے نے سمجھا کہ اعلیٰ قیادت نے اس کے دل کی بات پر عمل کیا ہے وہیں پر متاثرین منگلاڈیم جن کا تعلق چکسواری ،ڈڈیال اور میرپور سمیت دیگر علاقوں سے تھا ان کو بھی ڈھارس سی ہوئی کہ ان کے حقوق کی بات کرنے والا اور ان کی خاطر لڑائی تک کیلئے تیارہوجانے والا ایک سرد گرم چشیدہ لیڈر اقتدار کے اعلیٰ ترین ایوان میں پہنچ گیا ہے اوریہ وہی لیڈر ہے کہ جس کا یہ کہنا تھا کہ ”ہم متاثرین منگلاڈیم کے آنسوﺅں تک کی قیمت اداکریں گے “لیکن خداجانے یہ بدقسمتی کیوں ہوئی کہ چوہدری عبدالمجید صدر پاکستان کے ہمراہ چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے دورے پر گئے ہوئے تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں انہیں کے چاہنے والوں اور انکو ووٹ دینے والوں کو پانی میں ڈبونے کا تحفہ عید الفطر کے موقع پر دے دیا گیا اس سلسلہ میں متاثرین منگلاڈیم میں شدیدترین غم ،صدمہ ،اذیت اور حتیٰ کہ غصہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کی سیاسی کمٹمنٹ ،بصیرت اور انکے آہنی اعصاب کا ایک بہت بڑا امتحان شروع ہوچکاہے اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری عبدالمجید ایک بہت طویل سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدارمیں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ چوہدری عبدالمجید کشمیر اور اہلیان میرپور کے ساتھ قلبی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ پورے کشمیر میں بالعموم اور میرپور ڈویژن میںبالخصوص میگاپراجیکٹس شروع کرنا چاہتے ہیں جس سے عوام کے مسائل بھی حل ہوں اور انہیں روزگار بھی ملے اس کی واضح مثال میرپور میں ”بینظیر بھٹو شہید میرپور میڈیکل کالج “کے قیام کے لیے ان کی طویل جدوجہد ہے جس کے نتیجے میں پانچ فروری 2011ءیوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ایوان صدر میں آصف علی زرداری نے اس میڈیکل کالج میں قیام کا اعلان کیا اور سنگ بنیاد انہیں کے ہاتھوں رکھوایا اور واضح اعلان کیا کہ چوہدری عبدالمجید اپنے علاقے کے ساتھ کتنی گہری وابستگی رکھتے ہیں ہم آج کے کالم کی وساطت سے چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم آزادکشمیر کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ سر متاثرین منگلاڈیم کے آنسوﺅں کی قیمت اداکرنے کا وقت آچکا ہے اگر یہ قیمت ادانہ کی گئی تو نتائج انتہائی بھیانک ہوسکتے ہیں اور جذبات کوئی بھی رخ اختیارکرسکتے ہیں اس کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ پورے پاکستان میں میڈیا کی وساطت سے یہ پیغام چلاجائے کہ کالاباغ ڈیم سے لے کر کسی بھی قومی منصوبے کیلئے عوام قربانی نہ دیں اور وفا کا مظاہر ہ نہ کریں کیونکہ یہاں متاثرین منگلاڈیم کو وفا کا بدلہ جفا کے زریعے عید الفطرکے خوشی کے موقع پر دیا گیا ہے یہاں پر غالب کی زبان میں متاثرین منگلاڈیم کی حالت یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہوگئے اُتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
سختی کشانِ نے عشق کی پوچھے ہے کیا خبر ؟
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے

قارئین ہم امید رکھتے ہیں کہ چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم آزادکشمیر میرپور کے پہلے دورے کے موقع پر کچھ خوشی کی خبریں اور متاثرین منگلاڈیم کی اشک شوئی کیلئے ایک بہتر پیکج لے کر آئیں گے جن سے آنسوﺅں کی قیمت بھی اداہوگی اور زخموں کامداوا بھی ہوگا -

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک کالج میں ہینگرز کے نیچے موٹے الفاظ میں لکھا تھا”یہ ہینگرز ٹیچر ز کے لیے ہیں “کسی شرارتی طالب علم نے نیچے مزید لکھ دیا کہ ”یہاں ٹیچر ز کے علاوہ کوٹ اور ٹوپی کو بھی لٹکایا جاسکتاہے “-

قارئین عید الفطر کے موقع پر ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہم کیا سمجھیں کہ پانی کے علاوہ متاثرین منگلاڈیم کو اور کیاکیا تحفے بھی دیئے جاسکتے تھے ۔۔۔؟
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374265 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More