عمران خان فرشتہ ہے؟

انٹر نیٹ کے آنے سے جہاں معلومات کاایک خزانہ انسان کے ہاتھ لگا ہے وہیں لکھنے والوں اور اس لکھے پہ تبصرے کرنے والوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ لکھنے والا بڑے عذاب میں ہوتا تھا۔لکھ کے اسے کسی اخباریا رسالے میں چھپوانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔جس کسی کا کوئی مضمون کسی اخبار یا رسالے میں چھپ جایا کرتا وہ مدتوں اسے اپنے یاروں دوستوں کو دکھایا کرتا۔صحافت بھی ہمارے ہاں شروع دن ہی سے کچھ مخصوص خاندانوں کی باندی رہی ہے۔جو ان کی نظر میں آگیاوہ طرم خان بن گیا اور جس سے انہوں نے نظر پھیر لی ٹکے ٹوکری ہو گیا۔بھلے زمانوں میں ایک دو ہی تو اخبار شائع ہوتے تھے اور ان میں گنے چنے نصیب والوں کی قسمت یاور ہوا کرتی تھی۔اب تو ہر وہ آدمی جو سوچ سکتا ہے پھر اسے کسی بھی طرح احاطہ تحریر میں لا سکتا ہے وہ لکھاری ہے اور اسے پڑھنے والے بھی بہت مہیا ہو جاتے ہیں۔میں اپنے آپ کو بھی انہی خوش نصیبوں میں شمار کرتا ہوں جنہیں یہ زمانہ میسر آیا۔مشکلات کے بعد آسانیاں اور آسانیوں کے بعد مشکلات یہی اس زندگی کا حسن ہے۔پہلے صرف دو یا تین ا خبار اور چند جرائد اور رسائل زیور طبع سے آراستہ ہو پاتے تھے۔لوگ ان کے سر ورق سے لے کے پرنٹر اور پبلشر کا نام تک پڑھا کرتے تھے۔آج مواد چونکہ اس قدر زیادہ ہے۔اس لئے تبصرہ نگار کو اتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ وہ اس مضمون کو پورا پڑھ سکے جس پر اسے تبصرہ کرنا ہے۔

انسان کو اللہ کریم نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔وہ اللہ کی بہترین تخلیق ہے۔اسے ساری نعمتوں سے مزین کیا گیا ہے۔اسے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اور پھر اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے وسائل مہیا کئے گئے ہیں۔انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ اشرف المخلوقات کا تاج کچرے کی ٹوکری میں پھینک کے فرشتہ بننے کے چکر میں پڑا رہتا ہے۔حالانکہ فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننامگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔یہی حال ہم اپنے قائدین اور ممدوحین کا کرتے ہیں۔ہم جس سے پیار کرتے ہیں۔اسے فرشتے سے کم منصب پہ فائز کرنا اپنی اور اپنے ممدوح دونوں کی تو ہین سمجھتے ہیں۔پھر وہ فرشتہ جب ہماری کشتی کو بیچ منجدھار ڈبو دیتا ہے تو بھی ہم اندھی تقلید کے مارے اسی کا دم چھلا بنے رہتے ہیں۔انسان اور اس کے افعال پہ تنقید ہو سکتی ہے فرشتوں پہ تنقید تو سیدھے سبھاﺅ نعوذباللہ اللہ کریم پہ تنقید ہوتی ہے۔اس لئے ہم اپنے قائدین کو فرشتے کے منصب پہ فائز کر کے ان کی پوجا کرناشروع کر دیتے ہیں۔

ہمارے اسی رویے نے،ہماری اسی اندھی تقلید اور بے پایاں پیار نے ہمارے لیڈروں کو فرعون بنا دیا۔اسلام میں قیادت کا بڑا کڑا معیار ہے۔عہدے کی طلب اسلام میں قابل مذمت ہے۔آپ پبلک آفس کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتے۔اگر کوئی آدمی پبلک آفس کے لئے منتخب ہو جائے تو پھر امیر المو منین حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم ہوتے ہوئے بھی اسے مجمع میں اپنے لمبے کرتے کا حساب دینا پڑتا ہے۔جو آدمی کھلی کتاب کی مانند نہ ہو اسے قیادت کا حق کس نے دیا۔کیاترقی یافتہ ممالک میں لیڈر عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے۔کسی پہ کرپشن ،چوری یا بد دیانتی کا ہلکا سا شائبہ بھی گذرے تو کیا اس کا سیاسی کیرئیر ختم نہیں ہو جاتا۔کیا واٹر گیٹ سکینڈل پہ امریکہ کے ایک بڑے ویژنری صدر کو اپنا عہدہ چھوڑنے پہ مجبور نہیں ہونا پڑتا۔ایسا ہوتا ہے اور یقیناََ ایسا ہی ہونا چائیے لیکن یہ سب انسانوں کے معاشرے میں ہوتا ہے،بھیڑوں کے ریوڑ میں نہیں۔جانوروں کو ایک بڑی نسل کا کتا اور ایک ڈنڈے والا گڈریا درکار ہوتا ہے۔ہم بھی چونکہ جانوروں سے ملتی جلتی عادات کے مالک ہیںاسی لئے ہمیں اسی قبیل کے لیڈر مہیا ہوتے رہتے ہیں۔

لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوام کے دل کی سمجھے اور عوام کی زبان بولے۔عمران کو اللہ عمر خضر دے وہ یہ دونوں کام کر رہا ہے۔عمران کا ماضی گواہ ہے کہ جو اچھا برا اس نے سوچا کر کے دکھا دیا۔عوام انٹی امریکہ ہیں تو وہ بھی انٹی امریکہ ہے۔عوام پرو چائنہ ہیں تو وہ بھی پرو چائنہ ہے۔عوام کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ بھی کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے۔اس کے اپنے دامن پہ بھی کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔وہ بہر حال ایک شفاف آدمی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ داغ دھبوں سے اس کا دامن بھی پاک نہیں۔وہ وطن عزیز کے ان کریہہ اور مکروہ چہروں میں اجلا ضرور ہے لیکن داغ کس پہ نہیں ہوتے اور پھر آجکل کے دور میں تو داغ اچھے ہوتے ہیں۔رہی کرپشن تو ابھی تک تو اسے ایسا کوئی عوامی عہدہ ملا ہی نہیں جہاں پہ وہ کرپشن کا مجرم ٹھہرتا۔نئی نسل کی طرح میں بھی ان زرداریوں شریفوں الطافیوں اور فضلوں سے سخت مایوس ہوں۔میں کل تک ایم کیو ایم سے بہت پر امید تھا کہ متوسط طبقے کے لوگ ہیں،غریبوں کا بھلا سوچیں گے لیکن جس طرح وہ ڈرل کے ساتھ کھوپڑیوں میں سوراخ کرتے ہیں۔جس طرح وہ لاشوں کو بوری بند کرتے ہیں۔جس طرح وہ کھلے عام ا سلحہ کے زور پہ لوگوں سے اپنی مرضی منواتے ہیں۔اب ان سے تو یہی کہنا بنتا ہے کہ "بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا"

مجھے عمران سے بہت امید ہے کہ وہ پاکستان کو قوموں کی برادری میں عزت دلائے گا۔اسی امید پہ میں اس کی عزت کرتا ہوں۔میں پاکستان کا ایجنٹ ہوں۔مجھے میرا وطن میرے ایمان کی طرح عزیز ہے۔میں اپنی سب سے عزیز متاع جس شخص کی جھولی میں ڈالنا چاہتا ہوں اسے چھاننا پھٹکنا میرا خق ہے۔ہمیں فرشتوں کی نہیں انسانوں کی ضرورت ہے۔فرشتوں پہ تنقید جایز نہیں لیکن انسان۔۔۔۔۔۔۔۔انسان بھلے عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کیوں نہ ہو جب پبلک آفس ہولڈ کرے گا تو اسے جوابدہ ہونا ہو گا۔اگر آپ کا عمران یہ کر سکتا ہے تو میں دل و جان سے عمران کے ساتھ ہوں ۔ہاں اگر اس نے بھی فرشتہ بننا ہے تو پھر میں تو کم از کم اپنے ہاتھوں ایک اور بلا اپنی گردن میں ڈالنے سے رہا۔ایم کیو ایم کی طرح میں عمران سے بھی کہوں گا کہ" بخشو بی بلی چوہے لنڈورے ہی بھلے"
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 59150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.