آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے پچھلے دنوں
مسلمانوں کو پروچن دے کر بتایا کہ انہیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا
چاہیےلیکن اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر فیصلہ کریں کہ
انہیں کیا بولنا چاہیے اور کیا نہیں بولنا چاہیے۔ یہ کام اگر وہ ایک ہفتہ
پہلے کرلیتے تو انہیں پنڈتوں پر دئیے گئے بیان کو تھوک کر چاٹنے کی ضرورت
نہیں پڑتی۔ اترپردیش میں مایا وتی اور بہار میں پاسوان کی دلت سماج پر پکڑ
کمزور ہورہی ہے ۔ رام چرت مانس میں ذات پات کی تفریق کو مدعا بناکر
سماجوادی پارٹی اور آر جے ڈی بی جے پی کے اس بلا واسطہ ووٹ بنک میں سیندھ
لگا رہے ہیں ۔ ایسے میں بھاگوت جی نے دلتوں کا دل جیتنے کی خاطر ذات پات کے
بھید بھاو کے لیے پنڈتوں یعنی برہمنوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ اس کے
نتیجے میں دلت تو ساتھ آئے نہیں الٹا برہمنوں نے احتجاج شروع کردیا
اورکانپور میں تو ’میں برہمن ہوں ‘ نامی تنظیم کے درگیش منی ترپاٹھی نے
موہن بھاگوت کی عقل سلیم کے لیے یگیہ بھی کر ڈالا۔ بالآخر انہیں صفائی پیش
کرنی پڑی یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا والا معاملہ ہوگیا۔
اس کا سبق یہ ہے کہ آر ایس ایس کو اپنا آلۂ کار بنانا بی جے پی کے لیے
نقصان دہ ہے کیونکہ بیوقوف دوست سے مفید عقلمند دشمن ہوتا ہے۔
یوم جمہوریہ کے موقع پر اس بار وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھانی طرز کی
پگڑی باندھی تھی ۔ یہ آئندہ ریاستی انتخاب کی تیاری کا علامتی آغاز تھا ۔
وزیر اعظم دیوالی کا تہوار تو ملک کے کسی حصے میں جاکر منا سکتے ہیں لیکن
راجستھان میں یوم جمہوریہ منانا ان کے سرکاری پروٹوکول کے خلاف ہے اس لیے
یہ کام بھی آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کوسونپا گیاجو اس بات
کا اشارہ ہے کہ مختلف سرکاری اداروں مثلاً ای ڈی ، سی بی آئی اور الیکشن
کمیشن وغیرہ کی طرح اب آر ایس ایس بھی بی جے پی کے لیے ایک آلۂ کار بن
گئی ہے۔ اس سے تین دن قبل موہن بھاگوت کا مغربی بنگال میں جاکر سبھاش چندر
بوس کے یوم پیدائش کی تقریب میں شرکت کرنابھی بی جے پی کے لیے راہ ہموار
کرنے کی خاطر تھا ۔ ہندوستان کے سیاسی افق پر آر ایس ایس کا یہ استعمال
ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہے کیونکہ کل تک آر ایس ایس کے لیے بی جے پی
ایک آلۂ کار تھی مگر اب حالات الٹ گئے ہیں ۔ یہ دلچسپ صورتحال ایسی ہے
گویا ایک بیٹی ( بی جے پی) اپنے ماں ( آر ایس ایس ) کی اماں بن گئی ہو۔ یہ
عجب انقلابِ زمانہ ہے کہ اپنی دبنگ بیٹی (بی جے پی) کی ہدایات پر عمل
کرناسنگھ کی مجبوری بن گئی ہے۔ اس الٹ پھیر پر کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر
صادق آتا ہے؎
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
آر ایس ایس اپنے آپ کو ثقافتی تنظیم کہتا ہے اور اپنا مقصد ہندو سماج کو
بیدار کرکے ہندو راشٹر قائم کرنا بتاتا ہے۔ سماجی بیداری کا کام تو کم و
بیش ساری تنظیمیں کرتی ہیں لیکن ہندو راشٹر کا قیام ایک سیاسی عمل ہے اور
اس کے لیے موجودہ ہندوستان میں انتخاب میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کرنا
ضروری ہے ۔ہندو راشٹر کا خواب سب سے پہلے ہندو مہاسبھا نے دیکھا اور انتخاب
میں حصہ لیتی رہی لیکن آزادی سے قبل آر ایس ایس نے انگریزوں کے خوف سے یا
ہندو مہا سبھا کی انتخابی شکست سے سبق سیکھ کر انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔
آزادی کے بعد اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اس نے بھارتیہ جن سنگھ
قائم کی ۔ ایمرجنسی کے بعد یہ جماعت جنتا پارٹی میں ضم ہوگئی اور پھر اس سے
الگ ہوکر نیا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ لیا۔ اس طرح گویاآر ایس ایس کے
سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر بی جے پی ایک آلۂ کار تھی لیکن وقت بدلا ۔
آر ایس ایس کی حمایت سے بی جے پی اقتدار پر فائز ہوگئی اور اب یہ حال ہے
کہ وہ اپنی ذیلی تنظیم کا آلۂ کار بن گئی ہے۔ اس کے لیے بلا واسطہ
انتخابی مہم چلاتی ہے اور نادانستہ فائدے کے بجائے نقصان کردیتی ہے۔
مسلمانوں کے حوالے سے مودی سرکار کی کیفیت ’کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ
جائے ‘ جیسی ہوگئی ہے۔ امت کے ساتھ موجودہ حکومت کا معاندانہ رویہ مسلمانوں
سے قربت کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہے۔یہ لوگ کانگریس اور دیگر جماعتوں پر
مسلمانوں کی طرفداری کا شور مچا کر اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں اس لیے ملت
کے تعلق منصفانہ قدم اٹھانے کی صورت میں اسے شدت پسند ہندو رائے دہندگان کی
ناراضی کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ پہلے تو مسلمانوں کو سیاسی حاشیے پر
پہنچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ مغربی بنگال میں
ان کی کراری شکست اور اترپردیش میں سیٹوں کی کمی کے پیچھے مسلم رائے
دہندگان کا ہاتھ ہے تو ان کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم کبھی
مسلم خواتین پر تین طلاق قانون بنانے کا احسان جتا کر توقع کرنے لگتے ہیں
کہ وہ انہیں ووٹ دیں گی تو کبھی پسماندہ مسلمانوں کا شوشہ چھوڑاجاتاہے ہیں۔
یہ حسن اتفاق ہے دونوں حربے ہر بار ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو بے
وقوف بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
ایسی صورتحال میں مسلمانوں سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری آریس ایس کو سونپ کر
یہ امید کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ کچھ مسلم شخصیات اور تنظیموں کو رام
کرکے مسلم مخالفت میں کمی کی جائے گی ۔ سنگھ پریوار کی جانب سے مسلمانوں سے
رابطے کی کوشش ہمیشہ ہوتی رہی ہے لیکن یہ کام خفیہ طور پر ہوتا تھا کیونکہ
کوئی مسلمان اس کا اعتراف کرکے بدنامی مول لینا نہیں چاہتا۔ اس روایت سے
انحراف کرتے ہوئے سنگھ کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے یکم ستمبر 2019 کو
علی الاعلان مولانا ارشد مدنی سے ملاقات کی اور اس کا مقصد محبت کو عام
کرنا بتایا۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور امن کے قیام کی
خاطر مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت جمیعت علماء ہند کے صدر اور دارلعلوم
دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سید محمد ارشد مدنی اور آریس یس کے سربراہ
موہن بھاگوت کی تاریخی ملاقات سے یہ توقع وابستہ کی گئی تھی کہ دونوں
رہنماوں کی قربت سے ہندو وں اور مسلمانوں کے درمیان کھڑی نفرت کی دیوار
منہدم ہو گی ۔ اس مشترکہ نشست کو ملک میں ہندو مسلم بھائی چارہ کےلیے میل
کا پتھر قرار دیا گیا ۔
موہن بھاگوت کے ساتھ ملاقات کی تفصیل ڈھائی سال قبل خود مولانا ارشد مدنی
نے صحافیوں کو بتاکر یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے آر ایس ایس کے سربراہ
سے ان کے دفتر میں جاکر ملاقات کی۔ مولانا کے مطابق ملک میں روز افزوں نفرت
کے خلاف پیغام امن کا عام کرنے کی خاطر یہ پہل خود ان کی جانب سے کی گئی
کیونکہ اس معاملے میں علماء کرام اور دینی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا
ایک روشن باب ہے۔ آگے بھی علمائے کرام اور دینی ومذہبی شخصیات قومی
یکجہتی، ملکی استحکام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وامان کےلیے ہمیشہ کی
طرح اپنا سیاسی اور کلیدی کردار کرتے رہیں گے۔ انہوں نے ملک میں مذہب کے
نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کو خلاف مذہب بتا کر اس کی پرزور مذمت
کی ۔ مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ اس وقت چہار جانب پھیلے نفرت کے ماحول
میں اپنی فکر کے بجائے ملک کی فکر کرنے کو ضروری ہے ۔
مولانا ارشد مدنی نے موہن بھاگوت کے سامنے اپنا یہ نظریہ پیش کیا کہ اس وقت
کےحالات میں اگر آپسی بھائی چارے کےلیے کام نہیں کیا گیا تو آنے والا وقت
نہ صرف اقلیتوں کےلیے بلکہ ملک کے ہر باشندے کی خاطر نقصان دہ اور تباہ کن
ہوگا، اس لئے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق موہن بھاگوت نے بھی
اس تجویز کی دل کھول کر حمایت کی اور کہا کہ ملک کے اتحاد اور آپسی بھائی
چارہ کےلیے وہ مل کر کام کریں گے۔ موہن بھاگوت نےمذکورہ تجویز پر خوشی کا
اظہار کرتے ہوئےاس پہل کو ملک کے مفاد میں مناسب قرار دیا اورساتھ مل کر
کام کر نے کی یقین دہانی کی ۔مولانا ارشد مدنی نے امید ظاہر کی کہ آنے
والے دنوں میں وہ مل جل کر اپنے ملک کے مفاد میں کام کریں گے۔
مولانا نے اس وقت کے بدترین حالات سے نجات کے لیے پوری قوم کے اتحاد پر زور
دیتے ہوئے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اتحاد کی فضا قائم کرنے
کےلیے اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی تھی ۔ ا نہوں نےدیرپا امن کےلیے
اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور اسلام کی بابت
فرمایا کہ یہ امن و آشتی کا مذہب ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی ملک
کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے، مسئلہ کشمیر پر انہوں نے صاف کہا کہ
جمیعت علماء ہند شروع ہی سے مانتی ہے کہ کوئی بھی حکومت جذبات کی بنیاد پر
عوامی تحریک کا سامنا نہیں کر سکتی۔این آر سی سے متعلق جمیعت کی کوششوں کو
بیان کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے اچھے فیصلے کی توقع ظاہر کی گئی تھی ۔
یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی تھی جب ملک کے اندر حالات اچھے نہیں تھے ۔ اس کی
تین بنیادی وجوہات تھیں۔ اول تو بی جے پی ’گھر میں گھس کر مارا‘ کے فرقہ
وارانہ نعرے پر کامیاب ہوئی تھی اور اس کا دماغ آسمان پر تھا۔ دوسرے
ایوانِ پارلیمان میں بی جے پی نے اکثریت کے زور پر پانچ اگست 2009 کو کشمیر
کی دفع 370آئین سے ہذف کروادی تھی۔ یہ معاملہ اب بھی عدالت عظمیٰ کی
آئینی بنچ کے سامنے معلق ہے۔ تیسرے بابری مسجد کے معاملے سپریم کورٹ کی
جانب سے مقررہ مصالحتی کمیٹی اپنے مقصد میں ناکام ہوچکی تھی۔ ایسے میں
مولانا ارشد مدنی نے تو کشمیر پر دوٹوک موقف کا اظہار کردیا مگر مولانا
محمود مدنی نے سرکاری فیصلے کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر حمایت کردی ۔
امن و آشتی کی ان خوشگوار باتوں کے دس ہفتہ بعد بابری مسجد سے متعلق سپریم
کورٹ کا بد بختانہ فیصلہ آگیا اور ساری امیدوں پر یکسر پانی پِھر گیا اور
اس کے ڈھائی سال بعد پھر جورابطے کا دفتر کھلا ہے تو ماہر القادری کا یہ
شعر یاد آتا ہے؎
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
(سنگھ سے تازہ ملاقات کا ذکر کل ان شاء اللہ۰۰۰۰۰۰۰)
|