کمزور حکومتوں اورمضبوط انتظامیہ
کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایک شدید الجھن سے نجات کے لئے اسی
نوعیت کی یا اس سے بڑھ کے خود سے ایک اور الجھن پیدا کر کے عوام کی توجہ
بٹانے کی کوششیں کیا کرتی ہیں۔میں نے جب کراچی کی قتل و غارت پہ ایک محفل
میں اپنے کرب اور دکھ کا اظہار کیا تو ایک "حکومتی منتظم "جو اسی محفل میں
موجود تھے ،نے یہ کہہ کے میرا منہ بند کر دیا"قوموں کی زندگی میں لاکھ ڈیڑھ
انسانوں کی قربانی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی"۔اپنی بات کی تائید میں
انہوں نے امریکہ سے لے کے ہندو پاک اور چین کی مثالیں بھی دے ڈالیں۔میں
سوچنے لگا کہ امریکیوں نے امریکہ کو بنانے کے لئے بلاشبہ لا تعداد زندگیوں
کی قربانی دی اور اب اس کے نتیجے میں وہ سپر پاور ہیں۔۔چین والے جب بقول
اقبال گراں خوابی سے پیدار ہوئے تو انہیں بھی اپنی نیند کی بڑی بھاری قیمت
چکانا پڑی لیکن آج چین دنیا کی دوسری بلکہ بعض معاملات میں تو پہلی سپر
پاور ہے۔ہمارے چہیتے اور لاڈلے پڑوسی بھارت کی تو قربانیاں بھی ہم سے ملتی
جلتی تھیں۔بلکہ اب تو سیفما والوں کے بقول اللہ اور بھگوان بھی گھل مل گئے
ہیں۔اس حساب سے تو ہماری قربانیاں بھارت اور بھارت واسیوں سے زیادہ بنتی
ہیں۔لیکن وہ اب سپر پاور بننے جا رہا ہے ۔خدا جانے ہماری قر بانیاں اصلی
نہیں یا ہمارے قصائی کہ ہماری کوئی بھی قربانی ابھی تک رنگ نہیں لائی۔ہماری
قربانیاں جاری ہیں اور خدا جانے کب تک جاری رہیں گی؟
کراچی کی بدامنی اور خون ریزی میں جہاں پرائے ملوث ہیں وہیں اپنے بھی انہی
ہاتھوں کا کھلونا ہیں۔باہر سے آکے آپ کے گھر میں کوئی اس وقت تک قتل و غارت
نہیں کر سکتا جب تک گھر کے اندر سے اسے کوئی کنڈی کھلی رکھنے والا مہیا نہ
ہو۔بد قسمتی سے کراچی پہ ان دنوں جن جن لوگوں کا قبضہ ہے۔ان کو میں پاکستان
دشمن تو نہیں کہتا لیکن ایک کی پرانی اور دوسرے کی نئی تاریخ یہ ثابت کرتی
ہے کہ ان کی ترجیع پاکستان نہیں ان کے مفادات ہیں۔مفادات کے ہاتھوں کھلونا
بنے ان لوگوں نے کراچی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔رہ گئی تیسری پارٹی تو
اسے وقت درکار ہے۔وہ اپنے مفادات اور اپنے ایجنڈے پہ کاربند ہے۔پاکستان کے
ایک مشہور سیاستدان کم صحافی کم دانشور نے ایک فقرہ کہہ کے ان کے ایجنڈے کے
سمندر کو کوزے میں بند کیا تھا کہ"لٹو تے پھٹو"یہ علیحدہ بات کہ آج کل وہ
ان کے ساتھ مل کے لوٹ رہے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کراچی کی ،کراچی کی خون ریزی کی بات اب بچے بچے کی زبان پہ
تھی۔لوگوں نے پاکستان کی" مقتدر قوتوں" کی طرف دیکھناشروع کر دیا تھا۔ایک
مقتدر قوت کراچی جا کے اپنے خیمے گاڑ چکی تھی جبکہ دوسری نے بھی پلان بی پہ
غور و فکر شروع کر دیا تھا۔کراچی میں دشمنوں کی ایماءپہ خون کے دریا بہانے
والوں کو بھی کان ہونے لگے تھے کہ اب شاید اب یہ کھلواڑ روکنا پڑے۔اچانک اس
منظر پہ ذوالفقار مرزا طلوع ہوئے اور انہوں نے پنجابی فلموں کے مایہ ناز
ہیرو سلطان راہی کی طرح گنڈاسہ اٹھا کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔مرزا نے جو
بولا سچ تھا لیکن یہ وہ سچ تھا جس کی سب کو خبر تھی۔فوج کو خبر تھی،عدلیہ
کو خبر تھی اور پاکستان کے لوگوں کو بھی خبر تھی۔حکومت کو بھی تھوڑا بہت
پتہ تھالیکن پھر وہی مفادات ۔ حکومت کا چونکہ ایجنڈابلا کسی روک ٹوک کے
جاری تھا۔اس لئے ان کے کانوں کی جوئیں کہیں لمبی تان کے سو رہیں تھیں۔اس سے
پہلے جس نے بھی اس طرح کا سچ بولنے کی کوشش کی اسے اپنی ہی پارٹی کا کفن
پہنا کے نشان عبرت بنا دیا گیا۔باقیوں کو کان ہو گئے۔حکم عدولی اور
نافرمانی پہ زندہ بچ جانے کی صرف ایک مثال ہے ۔ان کی بھی جان بخشی تو ہو
گئی لیکن نشان عبرت بہر حال انکو بھی بننا پڑا۔نواز شریف کی طرح انہوں نے
بھی سالوں اپنی سیاسی جلا وطنی گزارنے کے بعد کچھ کھسر پھسر اب شروع کی ہے
دیکھئیے ان کی بوری کتنے دنوں میں سلتی ہے۔
مرزا جی سچ بول کے خصوصاََ لیاری اور پھر سندھ اور پھر پورے پاکستان کے
ڈارلنگ تو بن گئے ہیں لیکن مرزا صاحب اللہ پناہ میں رکھے اپنے قابو میں بھی
نہیں۔انہوں نے جہاں سیاست سیاستدانوں اور اپنی پارٹی کی مٹی پلید کی وہیں
انہوں نے مقتدر قوتوں کو بھی نہیں بخشا۔فوج کے ساتھ ان کے تعلق ان کی
امیدوں اور ان کی توقعات نے فوج کو بھی عوام کی نظروں میں مشکوک بنا
دیا۔اشارے بازیاں ہونے لگیں کہ یہ مرزا نہیں پردے کے پیچھے سے "صاحباں" بول
رہی ہے۔مزے کی بات یہ کہ یہ شک صرف عوام ہی کو نہیں بہت سارے خواص کو بھی
ہے۔مرزا صاحب کے بیانات میں بیاں کیا جانے والاسچ صرف سچ نہیں بلکہ ننگا سچ
ہے۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ عدالت تو ننگوں کوبھی ننگا نہیں کرتی بلکہ انہیں
کسی نہ کسی طریقے سے ڈھانپنے ہی کی کوشش کرتی ہے۔قانون بے شک اندھا ہوتا ہے
لیکن بے اولاد نہیں ہوتا۔اور اولاد ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے بھلے وہ اندھا
ہی کیوں نہ ہو۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ دیر سے ملنے والا انصاف ایسے ہی ہے جیسے وہ کبھی ملا
ہی نہ ہو۔ملک کی سب سے اعلٰی عدالت لگ چکی ہے۔بیان ہو رہے ہیں۔وکیلوں کی
چاندی ہو گئی ہے۔کروڑوں روپے فیسوں کی مد میں ادا کئے جا رہے ہیں۔عدالت اب
کی بار جلدی میں بھی نظر آتی ہے۔عدالت ثبوت مانگ سکتی ہے دیکھ سکتی ہے ،ان
کی تحقییق کر سکتی ہے لیکن عدالت ثبوت مہیا نہیں کر سکتی۔عدالت کو کوئی
بتائے کہ کبھی کسی نے اپنے خلاف بھی ثبوت دئیے ہیں۔ہمارے تو مجرم ہی وہی
ہیں جنہوں نے عدالتوں کی مثلوں کے پیٹ بھرنے ہیں۔چلیں مان لیتے ہیں ثبوت
بھی مل جائیں گے بلکہ ملیں گے کیا ؟اجمل پہاڑی کا ایک ثبوت ہی کافی
ہے۔عدالت فیصلہ بھی سنا دے تو کیا اس فیصلے کا حشر بھی وہی نہ ہو گا جو
عدالت کے دئیے سابقہ فیصلوں کا ہوا؟اگر کراچی کے مقدمے کا بھی وہی حال ہوا
تو جناب پھر کیا ہو گا۔کیا لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے؟ بچے یتیم ہوتے رہیں
گے۔عورتیں بیوگی کی چادریں اوڑھتی رہیں گی۔نہیں جناب والا! اس کے بعد میری
بات کا یقین کیجئیے ایسا نہیں ہو گا۔لوگ کوئی اور طریقہ انصاف تلاش کریں
گے۔طریقے بہت ہیں لیکن سب سے قرین مثال طالبان والے انصاف کی ہے اور طالبان
کے انصاف سے اللہ کی پناہ۔وہ کہتے ہیں "دہ گز دہ میدان"یعنی گھوڑی بھی حاضر
اور میدان بھی۔نہ وکیلوں کی فیس اور نہ عدالتوں کے جھنجٹ۔وہ انصاف دیتے
نہیں منہ پہ مارتے ہیں جناب والا۔ |