آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پاکستان امیروں پر ٹیکس
لگائے اور غریبوں کو سبسڈی دے۔یہاں امیر ٹیکس سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ فیکٹریاں، ملز، کارخانے والے سرمایہ دار ٹیکس یا تو دیتے ہی نہیں یا
پھر بہت کم دیتے ہیں۔ عام آدمی کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ آئی
ایم ایف اور عالمی بینک عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی
اداروں کے نام پر حکومتیں ٹیکس لگا دیتی ہیں۔ اس وقت غریب ٹیکس دے رہا ہے
اور سرمایہ دار اس سے بچ جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلنا
جیارجیوا نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر پاکستان ملک کی معیشت بہتر کرنا
چاہتا ہے تو اسے یقینی بنانا ہوگا ہے کہ زیادہ آمدنی والے ٹیکس ادا کریں
اور سبسڈی صرف غریبوں کو ملے۔ میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر کرسٹیا نے
کہا کہ میرا دل پاکستانی عوام کے ساتھ ہے، وہ سیلاب سے تباہ ہوئے ہیں جس نے
ملک کی ایک تہائی آبادی کو متاثر کیا۔آئی ایم ایف قرضہ دینا چاہتا ہے اور
اپنی رقم واپسی کا راستہ دیکھتا ہے کہ اس کا پیسہ ڈوب نہ جائے۔ وقت پر اس
کی محفوظ واپسی ہو۔ وہ ایسے اقدامات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے
پاکستان ایک ملک کے طور پر کام کرنے کے قابل بنے، اور کسی ایسی خطرناک
صورتحال پر نہ جائے جہاں اسے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت پڑے۔وہ 2
چیزوں پر توجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں نمبر ایک ٹیکس محصولات
ہیں، جو لوگ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھے پیسے کماتے ہیں انہیں معیشت میں
اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے، دوسرا سبسڈیز صرف ضرورت مند لوگوں کو ہی ملنا
چاہئیں۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پاکستان میں غریبوں کو تحفظ ملے، ایسا نہیں
ہونا چاہیے کہ امیروں کو سبسڈی سے فائدہ ملے بلکہ غریبوں کو اس سے فائدہ
ہونا چاہیے۔یہ بیان ایسے وقت میں دیا گیاکہ جب رواں ماہ کے اوائل میں آئی
ایم ایف کا وفد پاکستانی حکام سے 10 دن تک مذاکرات کے بعد کسی نتیجے پر
پہنچے بغیر ہی واپس لوٹ گیا۔ دونوں فریقین نے آن لائن مذاکرات جاری رکھنے
پر اتفاق کیا تھا۔اب شدید معاشی بحران کے شکار پاکستان کو آئی ایم ایف فنڈز
کی اشد ضرورت ہے۔آئی ایم ایف سے نویں جائزے پر اتفاق کے بعد پروگرام کی
بحالی سے پاکستان کو 6.5ارب ڈالر کے پروگرام میں سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط
جاری ہونے کا امکان ہے جس کا معاہدہ جون 2019 میں ہوا ۔سٹیٹ بینک کے پاس
موجود زرمبادلہ کے ذخائر گر کر تقریباً 3 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکے ہیں،
جن سے 3 ہفتوں کی درآمدات ہوسکتی ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع
ہونے سے پاکستان کے لیے فنڈنگ کی دیگر راستے بھی کھل جائیں گے۔حکومت ٹیکس
اقدامات پر عمل درآمد اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتی ہے تو اسے
امیروں سے ٹیکس وصولی کے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق
ڈار نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں فنانس سپلیمنٹری بل 2023
پیش کیا جس میں 170 ارب روپے اضافی وصول کرنے کے اقدامات تجویز کئے گئے
تاکہ آئی ایم ایف کی آخری پیشگی شرط کو پورا کیا جاسکے۔آئی ایم ایف نے
پاکستان کو تمام اقدامات پر عمل کرنے کے لئے یکم مارچ کی ڈیڈ لائن دی ہے۔
115 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کا بڑا حصہ پہلے ہی 14 فروری سے ایس آر اوز
کے ذریعے نافذ کیا گیا۔
وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گیس اور بجلی کی قیمتیں غریب کے لئے کم اور
امیر کے لئے زیادہ کی جائیں۔ملک میں ایک طرف لوگ اپنے بچے نہیں پال سکتے۔
خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف اربوں روپے کی گاڑیاں آرہی ہیں۔ امپورٹڈ
چاکلیٹس، کتوں اور بلیوں کے لئے آنے والی خوراک پر ٹیکس نہ لگانے کے مطالبے
ہو رہے ہیں۔ ٹیکس تمام آسائشوں پر لگنا چاہیئے۔اشیائے ضروریہ پر اتنا ٹیکس
نہ لگے کہ آٹا، دال غریب کی پہنچ سے نکل جائے۔ایسا نہ ہو کہ یہاں دو
پاکستان ہوں۔ ایک امیر کا ملک اور ایک غریب کا ملک بنے، ایک طاقتور کا ملک
اور ایک کمزور کا ملک ہو۔ حکومت غریب آدمی کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتی کیوں کہ
سب امیر اور طاقتور حکومت چلاتے ہیں۔غریب آدمی کے لئے گیس کی قیمت الگ اور
امیر آدمی کے لیے الگ کی جا سکتی ہے۔ غریب آدمی دو یونٹ گیس استعمال کرے تو
کم قیمت ہو۔ ڈیفنس، کلفٹن، گلبرگ، ایف 6 جیسے علاقوں میں رہنے والے جب دو
یونٹ استعمال کریں گے تو گیس کی قیمت اور ہو۔حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ
پاکستان کے 60 فیصد لوگوں کے بل کم کردیئے گئے ہیں۔ جب 10 یونٹ بجلی امیر
استعمال کرے تو دوگنے پیسے دے۔ وہی 10 یونٹ اگر غریب استعمال کرے تو آدھے
سے کم پیسے دے ۔ سیٹھ اور فیکٹری چلانے والے کی قوت خرید زیادہ ہے۔ریڑھی
بان گیس استعمال کرے تو صرف 8 سو روپے دے ۔ سیٹھ یا فیکٹری مالک 2 ہزار
روپے دے۔ایسا محسوس نہ ہو کہ چند ہزار لوگ اس ملک پر قابض ہیں اورجیسے یہ
ملک صرف انہی کے لیے بنایا گیا ہے۔یہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے ۔چندسرمایہ
کاروں کا ملک نہیں ہے۔اﷲ کا شکر ہے کہ ملک اس وقت ڈیفالٹ میں نہیں ہے۔
بیرونی ادائیگیاں ہو رہی ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا دروست نہیں ۔پاکستان اس
وقت ڈیفالٹ میں نہیں ہے کیونکہ ڈیفالٹ اس وقت ہوتا ہے جب ملک اپنی
ادائیگیاں نہ کر سکے اور اعلان کرے کہ ہم اپنا قرضہ ادا نہیں کر سکتے۔اگر
ایل سیز کھلنے میں مشکلات ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک اس وقت ڈیفالٹ
میں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے
جس کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدان ہیں۔سیالکوٹ میں ایک
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ آپ نے سنا ہوگا کہ ملک
دیوالیہ اور بینکرپٹ ہونے جا رہا ہے تو وہ پہلے ہی ہو چکا ہے اور ہم
دیوالیہ ملک میں رہ رہے ہیں۔ایسا نہیں ہے۔ہم پیداوار بڑھا کر ملک کو ترقی
کی جانب گامزن کر سکتے ہیں۔چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے پاس زرمبادلہ
کے ذخائر دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ چین کا ہر گھر
فیکٹری بنا دیا گیا ہے۔ اس کے تعلیم ادارے ریسرچ کر رہے ہیں۔ ہماری طرح صرف
ڈگریاں نہیں بانٹ رہے اور نہ ہی بیروزگاری میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے کھیت
، فیکٹریا ں کام کر رہی ہیں۔ بچے بھی خود کفیل بن چکے ہیں۔ہمیں بھی اپنے
کام سے انصاف کرنا ہو گا۔ کام کا حق ادا کرنا ہو گا۔پھر ہم بھی چین بن سکتے
ہیں۔
|