گوتم اڈانی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا
ہے۔ہر روز وارد ہونے والی نت نئی خبریں زخموں کو پھر سے ہرا کردیتی ہے۔ اس
معاملے میں سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ دو چھٹانک کی ہنڈن برگ نے آخر
اتنا بڑازلزلہ کیسے برپا کردیا؟ اس معمہ کو سوئی کی آسان سی مثال سے سمجھا
جاسکتا ہے۔ کوئی سوئی کتنی بھی نوکدار کیوں نہ ہو اسے پتھر میں چبھویا نہیں
جاسکتا۔ایسا کرنے پر اس کی دھار توکند ہو گی مگر پتھر کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
اس کے برعکس اگر اسی باریک سی سوئی کو غبارے سے مس کردیا جائے تو وہ ایک
دھماکے کے ساتھ پھوٹ جائے گا ۔ اڈانی گروپ اگر پتھر کی طرح ٹھوس ہوتا تو
ہنڈن برگ اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پاتالیکن وہ تو ایک پھولا ہوا غبارہ تھا
اس لیے معمولی سی سوئی نے اس کی ہوا نکال کر اسے اپنی اصلی حالت پر پہنچا
دیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پھولے ہوئے غبارے میں ہوا کس نے بھری ؟ اس کا
جواب سب کو معلوم ہے لیکن کیسے بھری ؟ اسے ایک خیالی اور ایک عملی مثال سے
بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بالآخر اس کا انجام
کیا ہو گا؟
خیالی مثال کے لیے بدو اور اونٹ کی مشہور کہانی کویاد کیجیے ۔ ان دونوں میں
ویسی ہی گہری دوستی تھی جیسی کہ مودی اور اڈانی میں ہے۔ ایک مرتبہ سفر کے
دوران رات ہوگئی۔ بدو نے خیمہ تان کر اونٹ کو باہر باندھ دیا۔ اس نے پیر
پھیلائے ہی تھےکہ اونٹ کی آواز آئی۔ سرکار باہر کی ٹھنڈی ہوا سے میری ناک
ٹھٹھر گئی ہے۔ بدو کو رحم آگیا اوراس نے اونٹ کو ناک اندر کرنے کی اجازت
دے دی ۔ بدو اونگھ بھی نہیں پایا تھا کہ پھر سے اونٹ کی صدا سنائی دی جناب
عالی باہر سردی بڑھ گئی ہے ، کیا میں اپنی گردن خیمے کے اندر کرسکتاہوں؟
بدو بولا کرلو اور دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن کچھ دیر بعد اونٹ نے
پھرگہار لگائی ۔ مالک رحم کرو میں سردی سے اکڑ نے لگا ہوں۔ بس ذرا ٹانگیں
اندر کرنے کیا اجازت چاہتا ہوں، بدو نے کہا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ پھر کیا
تھا بدو گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اونٹ بغیر خیمے کے اندر گھس رہا تھا۔
بدو کی ناراضی کے با وجود اونٹ خیمہ کے اندر آ گیا۔ اس نے نکالنا تو چاہا
مگر ایک نہیں چلی مجبورا ً بدو کو خیمے سے باہر رات بھر سردی میں ٹھٹھرنا
پڑا اور اونٹ اندر آرام فرما تارہا ۔ اس کہانی میں اونٹ اور اس کے مالک کی
حالت اڈانی اور مودی سے مختلف نہیں ہے۔
بدو اور اونٹ اس کہانی کے تناظر میں ایوان ِ پارلیمان کے اندر 7؍ فروری کو
شکریہ کی تجویز پر بحث کے دوران راہل گاندھی کی تقریر کو دیکھنا چاہیے ۔ وہ
بولے بھارت جوڑو یاترا کے دوران بہت سے لوگوں نےان سے پوچھا کہ یہ اڈانی جی
اتنی تیزی کے ساتھ اتنے امیر کیسے ہوگئے ؟ جب یہ سوال عوام کے ذہن میں
آرہا ہے تو آپ کے ذہن میں کیوں نہیں آیا ؟ راہل نے سوال کیا کہ یہ کیسا
جادو ہے کہ جس نے2014 کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں موجود سرمایہ دار کو
آٹھ سال کے اندر 609؍ویں نمبر سے دوسرے نمبر پر پہنچادیا؟ کس طرح اس کی
مجموعی مالیت 8؍ارب ڈالر سے بڑھ کر 140؍ ارب ڈالر کو پار کرگئی؟ راہل نے
پوچھا لوگ سوال کرتے ہیں گوتم اڈانی2014ءسے پہلے تین سے چار شعبوں میں کام
کرتے تھے۔ اب وہ بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، قابل تجدید توانائی اور اسٹوریج
جیسے آٹھ سے دس شعبوں میں کیسے کام کرنے لگے؟ نوجوانوں کو اس پر حیرت ہے
کہ جب وہ کاروبار کرتے ہیں تو ان کے حصے میں کامیابی کے ساتھ ناکامی بھی
آتی ہے مگر اڈانی کسی بھی کاروبار ناکام نہیں ہوتے؟ ملک کا نوجوان یہ
سیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سوالات کے جواب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے راہل نے کہا
پہلے وہ(وزیر اعظم ) اڈانی کے طیارے میں سفر کرتے تھے اور اب اڈانی مودی جی
کے ساتھ ان کے طیارہ میں سفر کرتے ہیں۔
ہیلی کاپٹر ہوا میں اڑنےوا لی اس سواری کانام ہے جس کے سرپر پنکھا زور سے
گھومنے لگتاہے سیاستدانوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز اس سواری
کوکہتے جس کے بازووں میں زوردار پنکھے لگے ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں پرواز
کرتی ہے ۔ یہی معاملہ سرمایہ داروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ سرمایہ دار اور
سیاستداں کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہوجائیں تو وہ آسمان کی سیر کرنے
لگتے ہیں اور ملک و قوم تباہی و بربادی کی کھائی میں جاگرتے ہیں۔ اس کا
ادراک جو نہ کرسکے وہ اناڑی ہے اور جو لگا لے وہ اڈانی ہےلیکن اب صﷺرتحال
میں دلچسپ الٹ پھیر ہورہا یعنی پہلے ملاح کشتی میں سوا ر تھا اب کشتی ملاح
کے کندھوں پر ہے۔ اس تبدیل شدہ صورتحال میں راہل نے وزیر اعظم مودی سے
براہِ راست یہ سوالات کیے کہ وزیر اعظم کے کتنے غیر ملکی دوروں میں اڈانی
ان کے ساتھ گئے۔ اس کے علاوہ کتنی بار اڈانی الگ سے گئے مگر دورے میں شامل
ہوگئے؟ نیز دوروں میں تو ساتھ نہیں رہے مگر مودی کے فوراً بعد اڈانی نے اسی
ملک کا تنہا دورہ کیا۔ ان سارے دوروں کے بعد انھیں کتنے ٹھیکے ملے؟ ساتھ ہی
انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ بی جے پی کو اڈانی نے کتنا چندہ دیا یا بانڈ
خریدے؟
ایوانِ پارلیمان کے اندر اڈانی معاملے پر سوالات کے جواب بوکھائی ہوئی بی
جے پی نے راہل گاندھی کو تحریک مراعات شکنی کا نوٹس روانہ کردیا۔ بی جےپی
کے ۲؍اراکین پارلیمان نشی کانت دوبے اور پرلہاد جوشی نے وزیراعظم مودی کے
خلاف راہل گاندھی کے بیان پر مراعات شکنی کا نوٹس کیاپیش کیا کہ لوک سبھا
سیکریٹریٹ نے فوراً راہل گاندھی سے جواب طلب کرلیا۔ پرلہاد جوشی اور نشی
کانت دوبے کے مطابق راہل گاندھی نے وزیراعظم مودی کے خلاف ثبوت نہیں پیش
کرسکے۔راہل سے کہا جارہا ہے کہ وہ ایوان میں معافی مانگیں یا پھر اپنی
رکنیت کھونے کیلئے تیار رہیں کیونکہ ان کے الزامات بے بنیاد، گمراہ کن،
جھوٹ پر مبنی، غیر مہذب اور غیر پارلیمانی ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ راہل
نے کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ کچھ سوالات پوچھے۔ ان سے ثبوت مانگنا ڈرا
دھمکا کر سوال کرنے سے روکنے کے مترادف ہے۔ یہی کرنا ہے تو ایوان پارلیمان
کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اڈانی کے معاملے میں راہل کے ساتھ مودی سرکار کا رویہ
’اونٹ نگل کر مچھر چھاننے‘ کے مترادف ہے۔
بی جےپی کے ارکان پارلیمان کو وزیراعظم کی شبیہ کے داغدار کرنے کا دکھ
ہےاور وہ اسے ایوان کی توہین مانتے ہیں لیکن اس کے لیے راہل نہیں بلکہ مودی
کی اڈانی سے قربت ذمہ دارہے۔ وہ اگر اپنے وقار کا خیال کرکے فاصلہ رکھتے تو
یہ نوبت نہیں آتی لیکن اس معاملے میں انہوں نے خود اپنی مٹی پلید کروالی۔
کانگریس کے مطابق الزامات اس نے نہیں بلکہ معروف ادارہ’ہنڈن برگ کےریسرچ
پیپر‘ نے لگائے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں فراڈ بھی ہوا ہے اور
ضوابط کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔‘‘ اب اس کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے اس لیے
راہل گاندھی کے پیچھے پڑ گئے۔ ویسے راہل گاندھی نے یہ الزام ضرور لگایا کہ
صنعت کار گوتم اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لئے مودی حکومت کی ملکی، خارجہ
اور اسٹریٹجک پالیسی نیز ترقیاتی پروگرام استوار کیے ہیں۔انہوں نے اس کی
عالمی سطح پر تحقیق کا مطالبہ کیا اور مودی کو سیاست اور کاروبار کے درمیان
اس انوکھے رشتے کے لئے طلائی تمغہ دیانے کی تجویز پیش کی ۔ یہ الزام اگربے
بنیاد ہے تو حکومت تحقیق سے کیوں بھاگ رہی ہے؟
راہل گاندھی کے اس الزام کی جانچ پڑتال سے قبل گوتم اڈانی کے ایک ٹیلی ویژن
انٹریو پر نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ اس میں اڈانی نے کہا تھا ’’میں آپ کو یہ
کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مودی جی سے کوئی ذاتی مدد حاصل نہیں کرسکتے۔ آپ
قومی مفاد کی پالیسی پر گفتگو کرسکتے ہیں لیکن جب پایسی بنے گی تو وہ سب کے
لیے ہوگی صرف اڈانی گروپ کے لیے نہیں‘‘۔ اس بیان کی روشنی میں صرف اڈانی
گروپ کے بنگلہ دیش کی خاطر بجلی پروجیکٹ پر ہونے والی سرکاری نوازشات کی
برسات کو دیکھ لیا جائے تو سارا پاکھنڈ تو کھل جاتا ہے اوریہ بات بھی سمجھ
میں آجاتی ہے کہ آخر اکونومسٹ کے تازہ شمارے میں سرورق پر گوتم اڈانی کے
ساتھ نریندرمودی کی تصویر کیوں ہے؟ اس میں اڈانی کی تصویر بڑی اور مودی کی
چھوٹی کیوں ہے؟؟اڈانی گروپ کے لیے ایک مصیبت مغربی بنگال کے کسانوں نے کھڑی
کردی ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ میں وہاں کے کسانوں نے شکایت کی ہے ٹرانسمیشن
لائن کے لیے ان کی جو زمین لی گئی اس کی مناسب قیمت نہیں ادا ہوئی۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ بنگلہ دیش جیسے اہم اتحادی ملک کے ساتھ دفاع،
ٹیکنالوجی،توانائی، حمل ونقل کے علاوہ سمندر اور ندیوں کے تعلق سے تمام اہم
کاروبار میں گوتم اڈانی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ بنگلہ دیش ہی کیوں سری لنکا میں
بھی بجلی کی سپلائی کا ٹھیکہ ملا تو وہ بھی پکے ہوئے پھل کی مانند اڈانی کی
گود میں چلا گیا۔ وہاں کی سرکاری کمپنی کے ایک افسر نے میڈیا میں اعتراف
کرلیا کہ وزیر اعظم مودی نے سری لنکائی صدر پر دباو ڈال کر وہ پروجکٹ اڈانی
کو دلوایا۔ اس پرتنقید شروع ہوگئی تو سری لنکا حکومت کو وضاحت پیش کرنی پڑی
تھی۔ اونٹ سے شروع ہو نے والی بات کو اونٹ کی جانب لوٹانا بہتر ہے۔ حدیث
میں عصبیت کے حوالے اونٹ کے کنوئیں میں گرنے اور اسے پکڑ کر نکالنے کی مثال
دی گئی ہے۔ فی الحال یہی مثال اڈانی اور مودی پر صادق آتی ہے۔ اڈانی ایک
اونٹ کی مانند بدعنوانی کے کنوئیں میں گر چکے ہیں ۔ مودی انہیں دمُ پکڑ کر
نکالنے کی سعی کررہے ہیں ۔ قوی امکان ہے کہ اونٹ کے ساتھ وہ بھی گر جائیں
۔اڈانی کا اب جیل جانا طے ہے اس لیے بھلائی اس میں ہے کہ مودی جی اس سے پلہ
ّ جھاڑ کر کہہ دیں ’تم تو ڈوبے ہو صنم ، ہم کو بھی لے ڈوبوگے‘ ۔
|